تحریر: سید انور محمود نومبر 2016 کے شروع میں امریکی صدارتی انتخابات کے موقعہ پرمصنف مبشر علی زیدی نےامریکی شہر نیویارک اورپاکستانی شہر کراچی کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ‘‘نیویارک اور کراچی کی کئی چیزوں میں مماثلت ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، نیویارک امریکا کا۔ کراچی میں قدرتی بندرگاہ ہے، نیویارک میں بھی۔ کراچی ملک کا معاشی مرکز ہے، نیویارک بھی۔ کراچی میں باہر سے لوگ آکر بس جاتے ہیں، نیویارک میں بھی۔ لیکن فرق یہ ہے کہ نیویارک بڑے باپ کا چہیتا بیٹا ہے، کراچی یتیم ہے۔ کوئی اس کا والی وارث نہیں’’۔ مبشر علی زیدی کی اس بات کی تصدیق اس طرح ہوتی ہے کہ نہ وفاقی اور نہ ہی صوبائی بجٹ میں کراچی کو اس کا جائز حصہ ملتا ہے۔ کراچی ملک کی اقتصادی شہ رگ اور معاشی حب ہے،کراچی کی اقتصادی سرگرمیوں ہی کی وجہ سے پورے ملک کی معیشت کا پہیہ رواں دواں ہوتا ہے، مگر بدقسمتی سے کراچی کو مسلسل اور مکمل طور پرنظر انداز کیا جا رہا ہے۔
ملک کوستر فیصدریونیو دینے والے شہر کراچی کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتیں دشمنوں جیسا سلوک کررہی ہیں۔ بجٹ میں کراچی کی تعمیر و ترقی کےلیےاس سے حاصل ہونے والے آمدنی کی بنیاد پراس کا حصہ ہونا چاہیے مگر وفاق اور سندھ کے بجٹ میں کراچی کو اس کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ہمارے حکمران کھاتے کراچی سے ہیں مگر کراچی کو اس کا حق دینے پر کوئی راضی نہیں ۔ سندھ کے حالیہ ترقیاتی بجٹ میں کراچی کےلیےمحض 10ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو کراچی کے ساتھ کھلاظلم ہے ۔ کراچی کے ساتھ ناانصافی اس طرح ہورہی ہے کہ کے4منصوبہ جس کی لاگت 40سے 45ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، اس کےلیےصرف 6 ارب روپے مختص کرنا سندھ حکومت کا اس منصوبہ سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ ہے ۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے مگر بدقسمتی سے تعمیر و ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے اس لیے اگر کراچی شہر کے زیر التواء منصوبے جلد از جلد مکمل نہ کیے گئے تو کراچی کا انفراسٹرکچر مکمل تباہ ہوجائے گا۔
Bilawal Zardari
اگر ہم 1934کے زمانے کا مطالعہ کریں جب سندھ ممبئی کا حصہ تھاتو جو لوگ اس ممبئی کی حکومت کے وزیر تھے، سندھ کی سیاست تب سے آج تک اسی لائن پر چل رہی ہے انہی خاندانوں کی اجارہ داری رہی اور انہی کو منتقل ہوئی۔ ہر دفعہ الیکشن ہوتے رہے،حکومتیں بدلتی رہیں،مگر اسمبلیاں اور اقتداران خاندانوں سے باہر نہیں گیا۔ نہ کبھی کسی کا احتساب ہوا اور نہ ہی حقیقی جمہوریت آئی، نہ کبھی گڈگورنس اور نہ ہی جمہوریت کے نام پر کوئی تبدیلی، نہ ہی وڈیرہ شاہی نظام کا خاتمہ ہوا اور نہ ہی عوام کو کوئی بنیادی سہولیات مہیا ہوئیں۔یہاں جمہوریت صرف ایک نعرہ ہے اور جو بھی حکمران بنے سب عوام کو جموریت کے نام پر دھوکا دیکر چلتے بنے۔ذرا سوچیں کروڑوں روپے لگا کر اقتدار میں آنے والا غریب عوا م کانمائندہ کیسے ہو سکتا ہے؟ سندھ میں گذشتہ آٹھ سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، اس کے اصل کرتا دھرتا آصف علی زرداری سےپوچھا جانا چاہیے کہ گذشتہ آٹھ سال میں آپکو روٹیاں کھلانے، آپکی لوٹ مار اور آپکی عیاشیوں کو پورا کرنے والے شہر کراچی کو آپ نے کیا دیا؟ شاید آپکے پاس کوئی جواب نہ ہوگا اور اگر ہوگا تو صرف جھوٹ پر مبنی ہوگا۔ اس دو کروڑعوام کے شہر کراچی کو بڑئے بڑئے بجلی کے بل تو مل رہے ہیں لیکن بجلی بغیر لوڈ شیڈنگ کے نہیں مل رہی، کراچی کا پانی اسمگل کردیا جاتا ہےاس لیے کراچی کے ہر علاقے کے لوگ پانی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کراچی میں صنعتیں بند ہوئیں جس کی وجہ سے روزگار ملنا مشکل ہوگیا ہے۔ کراچی آپریشن کے باوجود اب تک لوگوں کی جان ومال کا کوئی تحفظ نہیں ہے جس کی بڑی وجہ پیپلز پارٹی کی کرپشن ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کا چونکہ کراچی میں کوئی وجود نہیں تو اس کو کراچی یا کراچی کے عوام سے کوئی دلچسپی نہیں اور وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کئی مرتبہ عملاً اس کا مظاہرہ بھی کرچکے ہیں۔ آصف زرداری اور بینظیر بھٹوکے سپوت نوجوان بلاول زرداری جو اب پیپلزپارٹی کے چیرمین ہیں خاصکر کراچی کے‘مہاجر’ ووٹوں کو جیتنے کےلیے کراچی سے متعلق پارٹی کے بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بلاول زرداری شاید اس حقیقت سے واقف نہ ہوں کہ پیپلز پارٹی کے پاس کسی زمانے میں اردو بولنے والے انتہائی مخلص کارکن تھے، 1970 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو مہاجروں کے بہت ووٹ ملے تھے اور مہاجروں کے علاقے سےسندھی امیدوار کامیاب بھی ہوئے تھے۔پیپلز پارٹی کا کراچی میں ووٹ بینک بلاول کے نانا بھٹو صاحب کے زمانے سے ہی کم ہونا شروع ہوا تھا جب انہوں نے 1973کے آئین میں کراچی کے لوگوں کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ کیا، اس کے علاوہ انہوں نے کراچی کو اردو بولنے والوں کے شہر کے نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کیا۔ بھٹو صاحب کی ان غلطیوں کی وجہ سے ہی 1977 میں ان کے خلاف کراچی سے بڑئے بڑئے جلوس نکالے گئے اورآخرکار انکی حکومت ختم ہوگئی۔
Waseem Akhtar
میئر کراچی وسیم اختر چار ماہ کراچی کی جیل میں قیدرہنے کے بعد رہا کردیے گے ہیں، اپنی رہائی کے بعدگذشتہ دنوں ان کی سندھ اسمبلی میں آمد ہوئی تو اسپیکر آغا سراج درانی نے اپنے چمبر میں ان سے ملاقات کی اور انہیں سندھی ٹوپی اور اجرک کا تحفہ پیش کیا جس پر انہوں نے اسپیکر سندھ اسمبلی کا گرم جوش استقبال پرشکریہ ادا کیا۔ سندھ اسمبلی کے باہرمیڈیا سے گفتگو میں میئر کراچی وسیم اختر نے اختیارات دلانے کیلئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری سے اپیل کی اور کہا کہ ‘‘بلاول نے میری رہائی کیلئے آواز اٹھائی، شہید ماں کے بیٹے ہیں کراچی کی ترقی کیلئے میری مدد کریں گے’’۔ بلدیاتی اداروں کو وہ اختیار دلائے جائیں جو بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹونے آئین میں دیے ہیں۔میئر کراچی کا کہنا تھا کہ اب ٹارگیٹڈ ڈویلپمنٹ کرنی ہوگی، کراچی کا انفراسٹرکچر تباہی پر جاچکا ہے۔
شہر میں پانی کی تقسیم بھی بہت بڑا چیلنج ہے۔ وسیم اختر نے سندھ اسمبلی میں تمام پارٹیوں کے ساتھ مفاہمت کا بھی ہاتھ بڑھایا اور کہا کہ کراچی سب کا شہر ہے ہمیں ملکر کام کرناہے، ان کا کہنا تھا کہ کراچی ترقی کرے گا تو پورا سندھ اور پاکستان بھی ترقی کرے گا ۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اگر واقعی چاہتے ہیں کہ وہ کراچی سے جتیں تو انہیں پہلے کراچی کے‘مہاجروں ’ کا دل جیتنا ہوگا۔ آج کراچی کے میئر نے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا تواگر وہ کراچی سےمتعلق اپنی پارٹی کے بیانیے کو واقعی تبدیل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو میئر کراچی وسیم اخترکی طرف خلوص سے ہاتھ بڑھایں پورا کراچی بغیر جیتے ہوئے انکو مل جائے گا۔