تحریر : ایم پی خان پاکستان اور ترکی کے درمیان اچھے اور دوستانہ تعلقات کافی پرانے ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اتنے قریب ہیں کہ بظاہر دو ممالک نظر آتے ہیں اور حقیقت میں ایک قوم کا احساس ہوتا ہے۔ایک طرف دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان سیاسی، سفارتی اورسرمایہ کاری کی بنیاد پر بے شمار معاہدے طے پائے ہیں تو دوسری طرف پاکستان اور ترکی کے عوام عقیدے، تہذیت، ثقافت اور روایات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان اس دوستانہ تعلق اورمذہبی، تہذیبی اورسماجی بندھن کی ایک کڑی پاک ترک سکول سسٹم ہے، جوکہ اب نہیں رہا۔یہ سکول سسٹم 1995سے پاکستان میں کام کررہاہے اور نجی شعبے میں تقریباً 28تعلیمی ادارے پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنی خدمات عوام تک پہنچارہے تھے۔ یہ سکول پاکستان کے مہنگے تعلیمی اداروں میں شامل ہیں ، اس وجہ سے یہاں عام پاکستانیوں کے بچے نہیں پڑھ سکتے بلکہ متمول اورصاحب حیثیت لوگ اپنے بچوں کو پاک ترک سکولوں میں حصول تعلیم کے لئے بھیجتے تھے۔چونکہ پاکستان میں تعلیم کی شرح انتہائی کم ہے اورتعلیم کامعیاربھی دیگرممالک کے مقابلے میں بدتر ہے۔ اس وجہ سے ہم ایسے افرادکو خوش آمدیدکہتے ہیں ، جوپاکستان میں تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کرے، خواہ انکا عقیدہ کچھ بھی ہو، وہ کسی بھی قسم کی سوچ اورنظریات کی تبلیغ کرے۔
ہمیں انکے طرزتعلیم سے کوئی سروکارنہیں ہوتا اورنہ کبھی ہم نے انکے اغراض اورمقاصدکوجاننے کی کوشش کی ہے۔ کل تک کسی کویہ پتا نہ تھاکہ فتح اللہ گولن کون ہے اورانکی تحریک کیاہے ۔لیکن آج راتوں رات پاکستانی حکومت پر حقیقت منکشف ہوگئی کہ یہ تعلیمی ادارے فتح اللہ گولن کی زیرسرپرستی کام کررہے تھے اوران کامقصدایک دہشت گردتنظیم کے لئے کام کرناتھا۔یہ سب کچھ پاکستان نے ترک صدرطیب اردوان کے اس دعوے کے نتیجہ میں کیاہے، جس کے تحت یہ گروپ ترکی میں بغاوت کے الزام میں ملوث ہے۔چونکہ یہاں یہ بحث چھیڑنامقصودنہیں کہ فتح اللہ کون ہے ، انکی تحریک کیاہے اور پاک ترک سکولوں کے قیام کا مقصد کیا تھا۔
PakTurk International School
اصل موضوع ہماری حکومت کاوہ دوٹوک موقف ہے، جس کے تحت راتوں رات پاک ترک سکولوں کوختم کرکے، ان اداروں میں پڑھانے والے تمام اساتذہ اورانکے خاندانوں کو ملک بدرکرنے کے احکاما ت صادرکئے گئے۔اب دیکھنایہ ہے کہ حکومت پاکستان نے کس قدرمعاملہ فہمی اوردوراندیشی کامظاہرہ کرتے ہوئے ایسااقدام کیاہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ان اداروں کی موجودگی کے تقریباً بیس سال سے زائدکاعرصہ ہواہے۔ جب ہمارے ملک میں کوئی غیرملکی ایجنسی آتی ہے اورملک کے سب اہم شعبے یعنی تعلیم میں سرمایہ کاری کرتی ہے، تواس وقت ان تمام امورکی نشاندہی ضروری ہوتی ہے کہ یہ تعلیمی نظام کن لوگوں کی زیرنگرانی کام کرتا ہے۔
ان لوگوں کاعقیدہ کیاہے ۔وہ کس قسم کے نظریات کاپرچارکرتے ہیںاورانکے مقاصداوراہداف کیاہیں۔ اس مقصدکے لئے ملک کے اندرماہرین کاایک گروہ ہوتاہے ، جو ایسے اداروں کی کارکردگی پرگہری نظررکھتے ہیں۔اتنے لمبے عرصے سے پاک ترک سکول سسٹم پاکستان میں تعلیمی خدمات انجام دیتاہے لیکن آج تک کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی ہے کہ ان اداروں کی سرپرستی اورقیادت کوئی دہشت گردتنظیم کررہی ہے یاان اداروں میں ملک دشمن عناصرملوث رہے ہیں اورانہوں نے کبھی پاکستان کی سلامتی کے خلاف کوئی اقدام کیاہے۔اسی طرح پاک ترک سکولوں کے خلاف کوئی ایسی بات بھی سامنے نہیں آئی ہے کہ وہاں سیکولراورغیراسلامی سرگرمیاں وقوع پذیرہورہی ہیںاورنہ کبھی وہاں پڑھنے والے طلبہ اورطالبات میںکسی غیراخلاقی یامذہب کے خلاف کسی عمل کی نشاندہی کی جاسکی ہے ۔اگرکوئی ایسی بات تھی بھی ، توحکومت اورانٹیلی جنس اداروں کو بروقت اقدام کرناچاہئے تھااورقوم کو ان کے مذموم مقاصدسے آگاہ کرناچاہئے تھا۔
Tayyip Erdogan
اگر واقعی بقول ترک صدر طیب اردوان، یہ تعلیمی ادارے فتح اللہ گولن کی سرپرستی میں کام کررہے تھے،جوایک دہشت گردتنظیم چلارہے ہیں اورترکی میں حالیہ بغاوت کے پیچھے فتح اللہ گولن کاہاتھ ہے۔تو پاکستان میں بیس سال سے زائداس عرصہ میں ان اداروں سے کتنے طلبافارغ التحصیل ہوئے ہیں ، ان کاکیاہوگا۔ کیاوہ بھی دہشت گرداور باغی ذہنیت کے حامل ہیں اورپاکستان میں کسی بڑے انقلاب کاپیش خیمہ ہوسکتے ہیں؟۔۔۔نہیں ایساہرگزنہیں ۔۔۔ بلکہ ہماری حکومت نے پاکستان میں بیس سال تک تعلیم کے شعبے میں گراں قدرخدمات انجام دینے والوں کے خلاف اس قدردوٹوک موقف صرف اورصرف ترک حکومت کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات مزیدمضبوط کرنے کے لئے اختیار کیا ہے۔
ان اداروں میں پڑھنے والے قوم کے معصوم بچوں کے آنسووں اس امرکے عکاس ہیں کہ ترک اساتذہ نے ان بچوں کی تربیت کی تھی اور انکوایسی محبت دی تھی ، جوان بچوں کے دل ودماغ پر نقش ہے۔ بہرحال جوبھی ہواہے، وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن حکومت وقت اورسیکورٹی اداروں کو ایسے عناصرکی بروقت نشاندہی کرناچاہئے، جوکسی بھی وقت ملک کی سلامتی کے لئے خطرے کاپیش خیمہ بن سکتے ہیںاورکسی بھی غیرملکی تنظیم یاایجنسی کو ملک کے اندرتب تک کام کرنے کی اجازت نہ دے ، جب تک اسکاتاریخ پس منظرمعلوم نہ کیاجائے اورانکے اغراض ومقاصد سے آگاہی حاصل نہ ہو۔