تحریر : اے آر طارق پاکستان میں تقریبا ہر سیاستدان لیڈر بننا چاہتا ہے اور ہر لیڈر رکن اسمبلی اور ہر ممبر وزیر او روزیر اعظم بننا چاہتا ہے۔ اسی طرح تقریبا ہر ملازم افسر اور ہر افسر چند برسوں میںاعلیٰ سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کا آرزو مند ہوتا ہے۔ہر صنعت کار اور تاجر دنوں میں لاکھ پتی اور ہر ورکر اور لیبر لیڈر فیکٹری کا مالک بننے کا خواہاں ہے۔مگر افسوس کہ ان میں سے ایک بھی سچا، کھرا انسان بننے کی طرف کوشاں نہیں۔اکژ لوگ کاروباری مصروفیت اور غفلت کے اندھیروں میں مقصود زندگی کو ہی بھول گئے ہیںاور حصول زر کو مقصود زندگی بنا لیا ہے۔وہ اس کے علاوہ کچھ اور سوچ بھی نہیںسکتے۔ دن رات اسی کے لئے ہی ڈور دھوپ کرتے ہیں۔اورخودکو کھوبیٹھتے ہیں۔اسی طرح مصروفیت بڑھتی ہے اورتفکرات بھی بڑھتے ہیں۔ناجائزدولت والوں کویہ خدشہ بھی دامن گیر ہوتاہے کہ کہیں یہ ضائع نہ ہوجائیں۔جاہ کی بلندی کے ساتھ تنزل کا خدشہ بھی انہیں پریشان رکھتا ہے۔
حرام رزق اور بے جامصروفیت کے باعث اکثر احباب ہائی بلڈ پریشر ،ذیابیطس، بواسیر، اعصاب شکنی، دل کے امراض اور بے خوابی جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان کی خانگی زندگی کو پرسکون بنانے کی بجائے تلخیوںاور دکھوں سے بھر دیتے ہیں۔وائے افسوس ایسے لوگوں نے حکومت ،زراعت ،تجارت اور ملازمت کو اپنا رازق ٹھہرالیا ہے اکثر لوگ حصول زر کے لئے شارٹ کٹ راستہ اختیار کرتے ہیں۔ کبھی وہ سیاست کو اس کا ذریعہ بناتے ہیںاور کبھی رشوت ،سود،بدعنوانیاں ،ذخیرہ اندوزی ،ملاوٹ،ٹیکس چوری کو اپنی فلاح وبہبود کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔یہ طریقے بظاہر تو منزل تک پہنچنے کے لئے شارٹ کٹ ہیں مگر یہ خطرات سے بھرپور ہیں۔ناجائز راستے اختیار کرنے والے کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی مری سے اسلام آباد بذریعہ سڑک پر جانے کی بجائے راول ڈیم اور اسلام آباد کی جگمگاتی روشنیوں کو دور سے للچاتی نظروں سے دیکھ کر پہاڑوں کے اوپر سے ناک کی سیدھ چل پڑے۔ظاہر ہے اس سفر میں خونخوار جانوروں کے حملے ،پہاڑوں پر چڑھنے اور پھسلنے کے خطرات ،وادیوں اور نالوں کو عبور کرنے میں شدید مشکلات پیش آئیں گی جو ہلاکت کا باعث ہوسکتے ہیںاورخیریت سے پہنچنا نہ ہی آسان ہے اور نہ ہی یقینی ۔سڑک کا صحیح راستہ اگرچہ طویل معلوم ہوتا ہے مگر یقینی اور آسان ہے۔
اسی طرح حرام رزق کے شارٹ کٹ طریقوں سے کامیابی ممکن نہیں۔قرآنی اصول واضح ہے کہ ارشاد رب العزت ہے کہ ”حرام اور حلال رزق برابر نہیں ہے۔اگرچہ حرام کی کثرت تم کو پرکشش معلوم ہو۔پس اللہ سے ڈرواور حرام سے پرہیز کرو۔اے عقلمند لوگو،تاکہ تم کامیاب ہو جاو۔(100 )مائدہ”۔یہ زریں اصول مسلمہ ہے کہ حصول رزق کے لئے اور ہر دینی ودنیاوی کام کے لئے تدبیر ،منصوبہ اور اپنی استعداد کے مطابق کوشش کرنا ضروری ہے ۔جس طرح اولاد کی پرورش اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے کوشاں رہنا باعث ثواب ہے اسی طرح ملک کی مادی اور روحانی ترقی کے لئے بھی کوشاں رہنا عین دینداری ہے۔مگر اکثر لوگوں کی دیوانہ وار مصروفیت کی وجہ کسب دنیا نہیں بلکہ حب دنیا اور حرص زروجاہ ہے۔جس کو مقصد بنا کر لوگوں نے اللہ اور روز آخرت کو بھلا دیا ہے۔اس کے حصول کے لئے حلال اور حرام کی تفریق سے غافل اور بے پرواہ ہو جاتے ہیں۔یہاں تک کہ دنیا کی کثرت کا حریص اور دیوانہ قبر میں پہنچ جاتا ہے ۔ارشاد رب العزت ہے کہ ”دنیا کی کثرت کی حرص نے تمہیں غافل کر رکھا ہے ،یہاں تک کہ تم قبروں میں پہنچ گئے۔اللہ نے رزق کی تقسیم کے متعلق زریں اصولوں کو واضح لفظوں میں بیان کردیا ہے کہ رزق کون دیتا ہے اور کہاں سے ملتا ہے ،آج کل یہی بڑامسئلہ ہے۔اکثر حریص لوگ حلا ل کے ساتھ حرام ذرائع کو اسلئیے اختیار کرتے ہیں،تاکہ دولت میں اضافہ ہوجائے ۔حالانکہ رزق تو مقرر ہے اور حرام ذرائع اختیار کرنے سے حلال ذرائع کارزق کم ہوجاتا ہے۔ہر حالت میں رزق اتنا ہی رہتا ہے ،جتنا مقرر ہے۔حرام ذرائع سے آدمی کا رزق بڑھ نہیں سکتا۔یہ مشاہدہ تو عام ہے کہ اکثر حرام ذرائع اور مواقع عارضی ہوتے ہیں۔
Pakistan Economic
دیرپا نہیں ہوتے اور یہ ذرائع اور مواقع جلد منقطع ہوجاتے ہیں۔مگر ان کی پریشانیاں باقی رہتی ہیں۔ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ آج تخت ہے اور کل تختہ۔آج وزارت کی کرسی ہے اور کل جیل کی کوٹھری۔بندے کو اعمال کی سزا اس دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی۔افسوس ہے کہ ہمیں اللہ پر اتنا بھروسہ بھی نہیںہے، جتنا ایک بچے کو اپنے والدین پر ،اسے یہ گمان کبھی بھی نہیں ہوتا کہ والدین اسے بھوکا اور بے سروسامان رکھیں گے۔ہمارا اللہ پر توکل تو تو جانور جیسا بھی نہیں ،جس کا کوئی مستقل ذریعہ معاش نہیں،وہ اپنا رزق سٹور بھی نہیں کرتا۔ارشاد رب العزت ہے کہ ”اور بہت سے جانور ایسے ہیں ،جو اپنے رزق کو اٹھائے نہیں پھرتے (یعنی سٹور نہیں کرتے)اللہ ہی ان جانوروں کو رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔(60عنکبوت) اکژ حصول رزق میں تاخیر ہمیں پریشان کرتی ہے اور اس تاخیر کی وجہ سے ہم حرام ذرائع اختیار کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
حالانکہ اللہ کی ہر بات میں حکمت ومصلحت ہے اور ہم یہ نہیں سمجھتے کہ کچھ دیر سے ملنے والا رزق پہلے سے بدرجہا بہتر ہوگا۔اللہ ہر ایک کی ضروریات زندگی کو بروقت پورا کرتے ہیں،اسلئیے ہمیں نہ تو بیتاب ہونا چاہئیے ،نہ ہی ناجائز ذرائع اختیار کرنے چاہیئے اور نہ ہی جلد بازی کرنی چاہیئے۔جو رزق اللہ کے پاس ہے ،وہ اللہ سے مل کر ہی رہے گا اور یہی بہترین بات ہے۔ دولت کی کثرت کے لیے بے صبری اور جلدبازی پریشانی کا باعث بھی ہوسکتی ہے ۔اسکی مثال سالانہ بجٹ کی طرح ہے ۔اگر کوئی محکمہ اپنا بجٹ ایک سال میں خرچ کرنے کی بجائے چند ماہ میں ختم کرلے گاتو باقی مہینوں میں پریشان اور بدحال ہوگا اور اس کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھ نہ ہوگا۔اسی طرح انسان اپنی عمر کا سارا رزق قبل از وقت حاصل کرے گا تو وہ باقی ماندہ عمر پریشان ہوگا یا عمر میں کمی واقع ہوگی۔
کیونکہ رزق کے اختتام کے ساتھ ہی عمر کا بھی اختتام بھی لازم ہے۔سیاسی واقتصادی بدحالی کی وجہ حرام ذرائع ہیں،حرام کے مختلف شعبے ہیں،جیسے سیاسی رشوت ،رشوت،سود،تجارتی بدعنوانیاں ،جعلی الاٹمنٹ،مال کا غضب کرنا،ٹیکس کی چوری وغیرہ۔جو شخص حلال کی فضیلت اور حرام کی بدبختی سے بے پرواہ ہوجاتا ہے ،وہ دنیا پرست اور خواہشات پرست ہوجاتا ہے ،خواہ اس کے لیے تمام اسلامی اصولوں کونظرانداز کرنا پڑے اورملک وملت سے غداری کرنی پڑے۔ہمارے معاشرے کا بدترین فعل سیاسی رشوت ہے ،جس میں حکومت خود ملوث ہے اور خواص وعام کے لیے ایک بدترین مثال بنتی ہے۔حرام اور حلال میں اتنا فرق ہے ،جتنا کافر اور مسلمان میں،اندھے اور آنکھوں والے میں،مردہ اور زندہ میںفرق ہے۔حرام ایک زہر ہے جس کا اثر باطنی اندھا پن ،بہرہ پن اورروحانی ہلاکت ہے۔ایسے مردہ ضمیر لوگ ملک وقوم کے لیے خطرہ ہیںکیونکہ یہ اندھے ،بہرے اور مردہ لوگ، نصیحت سے بدلتے ہی نہیں ہیں۔