تحریر : رابعہ حسن یوں تو آزاد کشمیر میں خواندگی کی شرح پاکستان کے کسی بھی صوبے سے کہیں زیادہ ہے۔ مگر اس کی کوالٹی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اگرچہ حکومتیں مختلف ادوار میں تعلیمی اداروں میں تعلیم کی بہتری کے لیے اقدامات کرتی رہی ہیں، لیکن ایک بات عین حقیقت ہے کہ کبھی بھی کہیں بھی نہ تو کسی کی توجہ اساتذہ اور طلباء کی تعمیر ذات پہ گئی، نہ تعمیر کردار پہ۔ ہم نصابی سرگرمیوں کو ہمارے ہاں غیر نصابی سرگرمیاں کہا بھی جاتا ہے اور سمجھا بھی جاتا ہے۔ لکھنا لکھانا، بولنا، کھیل سب تعلیم کا زیاں سمجھا جاتا ہے۔ جس ایکٹیویٹی کو سمجھا ہی وقت کا زیاں جاتا ہے اس کو باقاعدہ پلاننگ کر کہ رقم خرچ کرنا تو ہے ہی بعید از قیاس ۔ مزید برآں سرکاری ا داروں اور ان میں زیرِ تعلیم طالب علموں کو در خورِ اعتنا سمجھا ہی نہیں جاتا۔ ان کی کارکردگی جانے بنا ہی ان سے اتنا زیادہ نالاں رہا جاتا ہے کہ ان کی اچھائیاں کہیں چھپ کر ہی رہ جاتی ہیں۔
مگر یہ بات ایک حقیقت ہے کہ نہ تو محض کورس کی کتاب رٹ لینا ہی علم ہے اورنہ ڈگری لے لینا مقصودِ علم ہے۔تعلیم ایک تجربہ ہے، جس کے آخر میں کردار و افکار میں نمایاں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اگر یہ تبدیلی رونما نہیں ہوئی تو اس کامطلب ہے کہ تعلیم کا عمل وقوع پذیر ہوا ہی نہیں۔ یہ مثال بالکل ویسی ہی ہے کہ ایک آدمی رات بھر سفر کرتا رہے، مگر صبح کے وقت پھر نقطہ آغاز ہی پر کھڑا ہو۔
ہم سولہ، اٹھارہ سال کے تعلیمی سفر کے بعد بھی سفر کیوں نہیں طے کر سکتے، اس کا احساس Human Appeal International نے کرتے ہوئے2015 میں احساس کوالٹی ایجوکیشن پراجیکٹ کا آغاز کیا۔ چونکہ اس کا اطلاق حکومت کے تعاون کے بغیر ناممکن تھا، اس لیے یہ پراجیکٹ اس وقت کی حکومت کے بھرپور تعاون سے شروع کیا گیا۔ پراجیکٹ کی پایئلٹنگ کا آغاز 15مئی 2015 کو ہوا، جبکہ اس کا باقاعدہ آغاز جولائی 2015 میں ہوا۔ اس پراجیکٹ کی کامیابی میں جن لوگوں نے بھرپور کردار ادا کیا، ان میں ہیومن اپیل انٹرنیشنل کے کنٹری ڈائریکٹر نثار میر، پرجیکٹ مینجر کرنل ریٹائرڈ مظہر حیات، ریجنل کو آرڈینیٹر مظفرآباد سید اعجاز بخاری، ریجنل کوآرڈینیٹر میرپور توصیف الرحمان آفاقی اور ریجنل کوآرڈینیٹر پونچھ حافظ اظہر محمود شامل ہیں۔ اس پراجیکٹ کے ماسٹر ٹرینر نامور ٹرینر اور اسکالر اختر عباس تھے، جنہوں نے آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 42 اعلا تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ٹرینرز کے طور پر تربیت دی۔ اس سے آزاد کشمیر بھر کے سات سو بہتر ہائی اور ہائر سیکنڈری اسکولوں کے بارہ ہزار اساتذہ جبکہ ایک لاکھ پانچ ہزار طلباء و طالبات مستفید ہوئے۔
Ehsas Quality Education Project
احساس کوالٹی ایجوکیشن پراجیکٹ نے اساتذہ اور طلبا و طالبات دونوں کی تربیت اور تعمیرِ کردار کو مدِ نظر رکھا۔ اساتذہ کی تربیت: اساتذہ کی تعمیر کردار ، صلاحیتوں اور مہارتوں کوبہتر بنانے کے لیے ہر ادارے میں تین تین سیشنز رکھے گئے۔ اساتذہ کی تربیت کے لیے محترم اختر عباس صاحب نے قابلِ رشک ٹیچر کے عنوان سے ایک کتاب بھی تحریر کی، جسے اس پراجیکٹ سے جڑے ہر استاد کو بطورِ تحفہ پیش کیا گیا۔ اس ٹریننگ سے تقریباً 772 اسکولوں کے بارہ ہزار اساتذہ مستفید ہوئے۔ بقول اختر عباس صاحب اس ٹریننگ کا مقصد استاد کو خود شناسی سکھا کر نئے سرے سے تعمیرِذات ہے کہ وہ ایک ایسا درخت بن جائے جس کی شاخوں پر خوبیوں، عادتوں ، صلاحیتوں اور اقدار کے خوشنما پھول کھلے ہوں۔اس کے علاوہ اضافی سیشنز میں اساتذہ کو مندرجہ ذیل ٹرینگنز بھی دی گئیں؛
i) Class room management ii.)School environment iii.) To understand the multiple intelligence of students iv.)Student’s psychology v.)Results improvement vi.)Paper making and paper marking
طلباء کی تربیت: ہمارا طالبِ علم ہمارا کل ہے۔ اگر اس ننھے پودے کی کانٹ چھانٹ آج کی جائے تو ہی یہ کل خوبصورت تناور اور سایہ دار درخت بن سکے گا۔ اس کے لیے آزاد کشمیر کے 772 سرکاری اداروں کے ایک لاکھ پانچ ہزار طلبا و طالبات کی تعمیر کردار کے لیے ان کی تربیت ایک ایسے درخت کی طرح کی گئی ، جس کی پانچ ٹہنیاں اقدار، عادتیں، خودی، مہارتیں اور اوصاف ہوں، اور ہر ٹہنی پر عزت، صبر، حیا، سچائی، اخلاص، اچھی سوچ، مسلسل محنت، پابندی وقت، مطالعہ کتب، صفائی، خودداری، خود اعتمادی، خود انحصاری، خود احتسابی، خود شناسی، سننے، لکھنے، پڑھنے، سوچنے، بولنے، کردار، مددگاری، خیال رکھنے ، کام سے لگن اور اعتماد کے پھول کھلے ہوں۔ تعمیرِ ذات اور تعمیرِ کردار کے اس سلسلے میں کئی کتابچے نہ صرف شائع کیے گئے بلکہ اس پراجیکٹ سے منسلک ہر بچے تک بھی پہنچائے گئے۔
ہر تعلیمی ادارے میں تربیت کے نو نو سیشنز منعقد کیے گئے۔ بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو دریافت کرکے، نکھارنے کے لیے اسپیکرز کلب اوررائٹرز کلب بنائے گئے۔ اسپیکرز کلب میں ان کے فنِ خطابت کو نکھارا گیا۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ Communicating skill رکھتا ہو، اسے علم کو دوسروں تک پہنچانا آتا ہو۔ ہمارے ہاں اچھا خاصا پڑھا لکھا طبقہ ڈگریوں کے پلندے لے کر بھی نہ تو اپنے مقصدِ حیات سے واقف ہوتا ہے اور نہ ہی اس قابل ہوتا ہے کہ اسٹیج پہ جا کے دو چار لوگوں کے سامنے اپنا مافی الضمیر بیان کر سکے۔ دو چار لوگوں کے سامنے ٹانگیں تھرتھرانے لگتی ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ نہ تو کبھی تعلیم کا ایک پہلو فنِ گفتگو یا خطابت کو رکھا جاتا ہے اور نہ ہی کبھی طالب علم کی بولنے کی عادت کو پسند کیا جاتا ہے۔ رائٹرز کلب میں بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے کہانی نویسی کے ساتھ ساتھ ایک نئا تصور بھی پیش کیا گیا۔ یہ تصور وال میگزین کا تھا۔ بچوں کی روزمرہ اور ہفتہ وار سرگرمیوں کو ایک جاندار صحافی کی طرح اخبار کی شکل دینے کی مہارتیں سکھائی گئیں۔ طلبا و طالبات نے اس میں بھرپور حصہ لیا۔ اور یہ ثابت کر دیا کہ نہ تو ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی ہے اور نہ ہی ذوق و شوق کی۔ بس کمی ہے تو صرف ان سرگرمیوں پر توجہ دے کر بچوں کو مواقع فراہم کرنے کی۔ یقیناً احساس پراجیکٹ اپنے اس نیک اور منفرد مقصد میں کامیاب رہا۔ اسکول، کلسٹر ، ڈویژن اور ریاستی سطح کے مقابلہ جات کا آغاز: بچوں کی صلاحیتوں کو ڈیڑھ سال تک کانٹنے چھانٹنے کے بعد 21 ستمبر 2015 سے مقابلہ جات کا آغاز کیا گیا۔ جس میں پہلے اسپیکرز اور رائیٹرز کلب کے ممبرز کے ادارے کے اندر مقابلہ جات منعقد ہوئے۔
Students
ان مقابلہ جات میں جیتنے والے 2300طلباء و طالبات نے کلسٹر لیول کے مقابلہ جات کے لیے کوالیفائی کیا۔ کلسٹر لیول کے مقابلہ جات کا آغاز 27 ستمبر سے ہوا۔ بچوں کا اعتماد، انداز اور صلاحیتوں کے مظاہرے سے ان کی محنت جھلک رہی تھی۔ کلسٹر لیول پر جیتنے والے 135طلبا و طالبات نے ڈویژن لیول کے مقابلہ جات کے لیے کوالیفائی کیا۔ ڈویژن لیول پر بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے پانچ پانچ پوزیشنز رکھی گئیں۔ اور سترہ نومبر کو آزاد کشمیر کی تینوں ڈویژنز سے تعلق رکھنے والے سرکاری اداروں کے 49 طلبا و طالبات کو آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بڑے ہوٹل میں اور ریاستی سطح کے تقریری اور تحریری مقابلے میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ طلبا و طالبات کے جوش و خروش کو دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ احساس کا احساس بارآور ثابت ہوا ہے۔ بچوں کے اعتماد اور صلاحیتوں نے یہ ثابت کر دیا کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اس مٹی کو نم کرنے کا سہرا احساس کے سر جاتا ہے۔ جس مٹی پہ سال ہا سال سے بارش نہ ہوئی ہو، اسے ڈیڑھ سال میں زرخیز بنا کر احساس کا بیج بو کر، کردار کی کونپلیں اگا کر ان پر اعتماد اور خود شناسی کے پھول اگانا اگرچہ ناممکن دکھائی دیتا ہے، مگر احساس پراجیکٹ نے اسے ممکن بنا کر ثابت کر دیا کہ ناممکن کچھ بھی نہیں۔ ریاستی سطح کی اتنی بڑی تقریب میں کسی بھی حکومتی نمائندے نے شرکت نہیں کی۔ احسا س پراجیکٹ ختم ہو چکا ہے، میری ہیومن اپیل سے اپیل ہے کہ اسی نوعیت کا کوئی اور پروگرام نہ صرف پرائمری اور مڈل اسکولوں میں شروع کیا جائے، بلکہ اس کا دائرہ کار وسیع کر کہ اسے کم از کم انٹر کالجز تک پھیلایا جائے۔ اور میری حکومت سے بھی درخواست ہے کہ اس قسم کے پراجیکٹس کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جائے بلکہ ان کے لیے فنڈز مختص کیے جانے کے ساتھ ساتھ، انہیں اداروںکے اندر اضافی وقت بھی دیاجائے۔
اگرچہ یہ پراجیکٹ ختم ہو چکا ہے، مگر یہ ہمارے اندر ایک احساس پیدا کر گیا ہے کہ ایک اچھے، خوبصورت کل کے لیے آج نسل نو کو رٹے سے نکال کر تعلیم کی اصل رو سے شناسا کرنا ہو گا کہ تعلیم ایک تجربہ ہے۔ میں ذاتی طور پر احساس کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ جس نے میرے خواب کو تعبیر بخشی۔ میرا ہمیشہ سے ایک خواب تھا کہ آزاد کشمیر کے نوجوان اخلاق و کردار اور اعتماد کے زیور سے آراستہ ہوں۔ مگر میری دسترس میں صرف وہی طالبات تھیں جو میرے کالج میں زیر تعلیم تھیں۔ جس پیمانے پر احساس نے یہ کام کیا ہے، اس تک پہنچنے میں شاید مجھے صدیاں لگ جاتیں۔
میری اپنے تمام اساتذہ کرام اور سربرہان ادرہ جات سے بھی گزارش ہے، خدارا تعلیم کو دو لائنوں کے سوالوں تک محدود نہ کریں،ہمارے شاگرد ہمارے بچے ہیں، ننھے منے پودے ہیں، ان کو تراش خراش کر ہمیں خوبصورت سانچوں میں ڈھالنا ہے۔ جیسے کمہار کے ہنر کا پتا اس کے برتنوں کی نفاست سے چلتا ہے، ایسے ہی استاد کے استاد ہونے کا پتا اس کے شاگرد سے چلتا ہے۔ ہمارا شاگرد ہماری پروڈکٹ ہے۔ اگر اس میں کجی ہو گی، تو وہ ہمارے استاد ہونے پہ سوال ہو گی۔ بقول قابلِ رشک ٹیچر کے مصنف کے ہمیں اپنے طالب علموں کو شاہ دولے کے چوہے نہیں بنانا بلکہ ان کے ذہنوں میں خود شناسی کا ایک سورج طلوع کرنا ہے۔ سورج کی اسی پہلی کرن کو طلوع کرنے کے لیے احساس کا شکریہ۔