تحریر: محمد اشفاق راجا پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اسلام آباد سے دبئی گئے ہیں جہاں اپنے والد آصف علی زرداری سے مشورہ کریں گے بلکہ فیصلہ سنیں گے اور ہدایات لیں گے۔ آصف علی زرداری نے سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ اور بعض دوسرے رہنماؤں کو بھی بلایا اس غیر رسمی بیٹھک میں ان کو اسلام آباد میں پارلیمانی اراکین کے اجلاس کی روئداد سے آگاہ کیا جائے گا جس میں بلاول کو قومی اسمبلی میں لانے اور پارلیمانی کردار بھی ادا کرنے کی تجویز دی گئی اور اس اجلاس میں اس پر صاد کیا گیا، اطلاعات ہیں کہ ان سے کہا گیا کہ وہ این اے 204 (لاڑکانہ شہر) اور این اے 207 (لاڑکانہ ،قمبر وغیرہ) میں سے کسی ایک نشست پر ضمنی انتخاب میں حصہ لیں یہ دونوں نشستیں پیپلزپارتی کے پاس ہیں 204 والی نشست ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو والی ہے اور این اے 207بیگم نصرت بھٹو والی ہے۔ ایاز سومرو اور فریال تالپور ان نشستوں سے منتخب ہوئے۔ ایاز سومرو نے 50ہزار سے زیادہ اور فریال تالپور نے 80ہزار سے زیادہ ووٹ لئے تھے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ بلاول کی دلچسپی والدہ اور نانا والی نشست سے ہے یوں بھی دوسری نشست پھوپھو کے پاس ہے۔
یاد رہے کہ بلاول بھٹو جونہی پچیس برس کے ہوئے اور قومی اسمبلی کے انتخاب کی اہلیت حاصل کر گئے تو ایاز سومرو نے رضا کارانہ طور پر نشست خالی کرکے ان کو انتخاب کی پیشکش کی تھی لیکن تب یہ فیصلہ نہ ہوا شائد بلاول کے لئے کچھ روشناسی اور تجربے کی ضرورت محسوس ہوئی ہوگی۔ بہرحال بقول فرحت اللہ بابر اب یہ فیصلہ پارلیمانی گروپ کا ہے لیکن یہ سب آصف علی زرداری کی اجازت سے مشروط ہے جو خود بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی سے پہلے پاکستان آنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں اور اس کے لئے پارٹی کو بھی خبردار کیا ہوا ہے کہ ان کی آمد پر بڑا استقبال کیا جائے۔ شاید یہ سب معترض حضرات کے منہ بند کرنے کے لئے ہے جو ان کے لئے طرح طرح کی بندشوں کی بات کرتے ہیں خصوصاً مبینہ کرپشن اور ایک تقریر کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجانے والی بات کرکے باہر بھاگ گئے تھے۔
Asif Ali Zardari
لیکن جو حضرات آصف علی زرداری کو جانتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ وہ کچی گولیاں نہیں کھیلتے اور جیل یاترا نے ان کو بہت تجربہ کار بنا دیا ہے۔ یوں بھی وہ اپنے تئیں بہت دور کی سوچنے والے اور مستقبل کی حکمت عملی بناتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان کی مفاہمت کی طویل پالیسی نے پیپلزپارٹی کو بہت نقصان پہنچایا خصوصاً پنجاب میں بستر گول ہو گیا۔ اب بلاول ذرا تنقید کی پالیسی اختیار کرکے یہ داغ مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں اور پارٹی کے دوسرے رہنما بھی اب اعتراض کرنے لگے ہیں، اس سلسلے میں قمر زمان کائرہ کا انتخاب بطور سنٹرل پنجاب صدر ایک مثال ہے جو عرصہ سے نقاد ہیں تاہم انداز مہذبانہ ہے اگرچہ وہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اعتراضات کا بھی جواب دیتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ پارٹی اور سیاست کی بہت بڑی لابی یہ سمجھتی ہے کہ جب تک بلاول کو خود مختاری نہیں دی جاتی اس وقت تک پارٹی کا تاثر وہ نہیں بنے گا جس کے لئے پالیسی بنائی جا رہی ہے۔ اس لابی کا یہ تجزیہ ہے کہ آصف علی زرداری کو سرپرستی کا کردار اختیار کرلینا چاہیے فیصلے اور عمل میں بلاول کو کردار ادا کرنے دیں جہاں ضرورت ہو مشورہ دے لیں لیکن یہ ممکن نظر نہیں آتا، آصف علی زرداری پارٹی سے گرفت ڈھیلی نہیں کرنا چاہتے یہی وجہ ہے کہ وہ رجسٹرڈ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر بھی ہیں جبکہ بلاول بھٹو والی پیپلزپارٹی فیصلے کے باوجود ابھی تک رجسٹر نہیں کرائی گئی۔
تجزیہ بی این پی کے مطابق بہرحال آنے والے دنوں میں یہ سب بھی واضح ہوجائے گا۔ پارٹی کے اندر رائے تو ہو سکتی ہے لیکن کوئی اعتراض نہیں کرے گا اب انتظار ہے دوبئی کے فیصلے کا جو کسی بھی لمحے سامنے آ سکتا ہے اور بلاول بھٹو ضمنی انتخاب کے لئے تیار ہوں گے۔پیپلزپاڑتی کے یہ مرکزی رہنما ہر فیصلے کو محترمہ کی شہادت کے روز یعنی برسی والی تقریب کے موقع پر اعلان سے مشروط کر رہے ہیں کہ 27دسمبر کو گڑھی خدا بخش کے جلسے ہی میں حتمی فیصلے بتائے جائیں گے جن میں حکومت مخالف تحریک بھی شامل ہے اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ اس سے پہلے حکومت کی طرف سے مذاکرات بھی ممکن ہیں کہ محترم وزیرخزانہ اسحاق ڈار عندیہ دے چکے ہیں۔
Election
اس سارے سلسلے میں ہم تو یہی کہیں گے، بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے، اب تو انتخابات میں قریبا ڈیڑھ سال رہ گیا ہے اس عرصہ میں بلاول پارلیمانی تجربہ تو حاصل کر سکتے ہیں کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکتے قومی اسمبلی میں ان کو اردو میں مشکل پیش آئے گی البتہ یہاں وہ انگریزی میں بات کرنے کے لئے آزاد ہوں گے۔پیپلزپارٹی کے تمام رہنما اپنی مرکزی قیادت کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔
اس لئے ہمیں تو یہ خدشہ ہے کہ سید خورشید شاہ از خود رضاکارانہ طور پر لیڈرآف اپوزیشن کی پیشکش کریں گے اگرچہ باور یہی کیا جا رہا ہے کہ بلاول قومی اسمبلی میں آکر بھی شاہ صاحب سے یہ سلوک نہیں کریں گے البتہ محترم نوید قمر کا کمبل چرایا جا سکتا ہے کہ وہ پارلیمانی پارٹی کے لیڈر ہیں اگرچہ بلاول کو اس کی ضرورت نہیں وہ بطور چیئرمین پارٹی اجلاسوں کی صد ارت کرتے رہیں گے۔