تحریر: مروا ملک اس سال بارہ اکتوبر کو مملکتِ پاکستان کے چوتھے مارشل لاء کو سترہ سال مکمل ہو چکے ہیں۔ بلا شبہ بری سے بری جمہوریت کسی بھی قسم کی ڈکٹیٹر شپ سے بہتر ہے۔ مگر ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ یہ جمہوری حکومت کی آمرانہ روش، تنگ دلی اور تنگ نظری کو من و عن مانے ہوئے ہیں بلکہ اس بات کا برملا اظہار ہمیں ضمنی انتخابات میں ن لیگ کی فتوحات میں نظر آتا ہے۔ بلاشبہ اصلاح کا راستہ نہ فوج کی مداخلت میں ہے نہ ہی تشدد کی سیاست میں۔جنرل پرویز مشرف کا اقدام چاہے ذاتی اختلافات کی بنا پر تھا یا مملکتِ پاکستان کی معاشی و معاشرتی بدحالی کو دیکھتے ہوئے۔جیسے کہ میں نے اس بات کا بارہا برملا اظہار پبلک کورٹ کے توسط سے کیا ہے کہ ہمارے حکمران صرف حکمرانی کے مزے لوٹنے آتے ہیں۔ انھیں نہ ہی عوام سے کوئی سروکار ہے نہ ہی ان کی فلاح سے۔ن لیگ کی پچھلے حکومتی دورانیہ کا جائزہ لیا جائے اور پھر آج کی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو آپ کو ان کی وہی ازلی بے حسی اور ملک دیوالیہ سازشیں دیکھنے کو ملیں گی۔
نواز شریف صاحب کو فوج کا ادارہ اپنے خلاف ہمیشہ کھٹکتا رہا ہے اور اس بات کا ثبوت انھوں نے ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ ء کے بعد ایک دفعہ پھر اپنے منتخب سی او اے ایس کے بارے میں بیانات سے دے دیا ہے۔یہ بات نواز حکومت کو مان لینی چاہیے کہ ان کی بری پالیسیز اور اپنے مفاد کی سیاست نے ملک کو مارشل لاء کے دہانے لا کھڑا کیا تھا۔ملکی بگاڑ کی ذمہ داری ویسے تو تمام حکومتوں پر درجہ بہ درجہ عائد ہوتی ہے مگر موجودہ حکومت سب پر بازی لیتی نظر آتی ہے۔اقتدار میں آتے ہی تصادم کی روش اختیار کر لی۔جب انصاف کی دور دور تک خبر نہ ملتی ہو تو پھر سول نافرمانی ،دارالحکومت بند کرنا اورمارشل لاء کا نفاذ ایک عام سی بات لگتی ہے۔
Pervez Musharraf
بارہ اکتوبر ، انیسو نناوے سن عیسوی کی شام پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف سری لنکا کے دورہ سے واپس آتے ہیں اور ان کا جہاز لینڈ کرنے کی بجائے دوبارہ ہوا میں پرواز کرنے لگتا ہے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ طیارے کو اترنے کیلئے کلیئرنس نہیں مل رہی ہے اور کہا جا رہا ہے آپ واپس چلے جائیں، ساتھ ہی رن وے پر گنز ٹارگٹ کا بھی عندیہ بھی دے دیا جاتا ہے۔سات بجے کے قریب پاکستان ٹیلی ویژن سے براہِ راست خبر دی جاتی ہے کہ جنرل خواجہ ضیاء الدین صاحب کو نیا آرمی چیف متعین کر دیا گیا ہے۔کچھ وقت گزرتا ہے تو ٹی وی سکرینز بلینک ہو جاتی ہیں۔کچھ لمحوں بعد تلاوتِ قرآن پاک کا آغاز ہوتا ہے اور پھر ایک کے بعد دوسری نعت آن ایئر ہوتی ہے۔اس کے بعد جنرل پرویز مشرف خود کو چیف ایکزیکٹو آف پاکستان ڈکلیئر کرتے ہیں۔ جمہوری حکومت کی جگہ دکٹیٹر شپ نے لے لی۔رفیق تارڑ اس وقت کے صدر تھے اور انھیں ان کا کام کرنے دیا گیا۔آئین منسوخ کر دیا گیا۔ریفرینڈم کے ذریعے جنرل پرویز مشرف نے اختیارات حاصل کیے۔نواز شریف نے جنرل صاحب سے معذرت کی اور کہا کہ جنرل مشرف کو عہدے سے ہٹانے کا عمل صرف اس لیے تھا کیونکہ انھوں نے کارگل جنگ کی۔پی سی او کے تحت نواسی ججز نے حلف اٹھا یا۔نواز شریف کو سعودی عرب روانہ کر دیا گیا، جان بچی سو لاکھوں پائے۔
تمام کہ تمام تجزیہ نگار اور سیاسی بصیرت رکھنے والے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے کہیں بہتر ہے۔ اس کی منطق یہ ہے کہ سیاستدانوں کو بار بار عوام کی عدالت میںجانا پڑتا ہے۔اس خوف سے کہ اگلی دفعہ عوام انھیں مسترد نہ کر دیں وہ اپنی اصلاح کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں اور اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے سرگرمِ عمل رہتے ہیں۔سیاستدانوں کا سب سے اچھا احتساب عوام کرتے ہیں۔اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو عوام کو ہر دورِ حکومت میں صرف پستے ہوئے پایا گیا۔ایک کے بعد ایک پارٹی کی اجارہ داری سب پر واضح ہے۔ اس دفعہ حکومت میری اور اگلی باری تیری کے مصداق پر پورا اترتے حکمرانوں کو نہ تو کسی احتساب کا ڈر ہے اور نہ ہی مسترد ہو جانے کا کوئی خوف۔ہم کبوتر صفت عوام ہیں جو ہر برائی کو نظر انداز کر کے اپنی آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ہمیں مارشل لاء کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دکھیل دیا جائے یا پھر ہمارے حق پر حکمران وقت ڈاکہ زن ہوں ، ہمیں نہ ہی ماضی میں اس بات سے فرق پڑا ہے نہ آگے پڑنے والا ہے۔انیسو نناوے کے مارشل لاء کے بعد دکھاوے کی ہی سہی مگر ترقی میں اضافہ ضرور ہوا اور ایک آمر کا اتنا احسان ہم پر ضرور رہا کہ انسان کو انسان ہونے اور اپنے حق کی آواز بلند کرنا سکھایا گیا۔ غریب سے غریب تر طبقے کو دو وقت کی روٹی اور پہننے کیلئے کپڑا میسر تھا۔آج بھوک و افلاس کے مارے کتنے لوگ زندگی کے ساتھ جنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ ہماری بھوک اور افلاس تھر کے میدانوں میں نطر آتی ہے جہاں ہر سال ہزاروں بچے غذائی قلت کے باعث مر جاتے ہیں جن کی افسوسناک موتوں پر ہمیں نہ پشیمانی ہوئی نہ آئندہ ہونے کے آثار نظر آتے ہیں۔
Constitution
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں آئین کی بالادستی مسلم ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ادارے آئین نہیں بناتے ہیں بلکہ ادارے آئین کے ذریعے وجود میں آتے ہیں اور انھیں اختیارات حاصل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ صد افسوس کہ آج تک جو بھی آئین کا آرٹیکل اور اس سے بننے والا ادارہ تشکیل دیا گیااور وہ سراسر مفاد پرستی کیلئے بنا۔ہر ادارے پر حکومتی اجارہ داری ہے، اور ادارے بھی حکومتِ وقت کے اشاروں پر چلتے ہیں۔عدالتیں ، عدل و انصاف کیلئے بنائی جاتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں عدالتیں صرف اور صرف اپنے مفاد کیلئے استعمال میں آتی ہیں۔ سیاسی انتقام ہو یا کوئی اور مسئلہ انھی عدالتوں کو غلط فیصلوں پر اکسایا گیا اور انصاف کو مذاق بنایا گیا۔زیادہ دور کی بات نہیں ہے جب تک پیپلزپارٹی کی حکومت رہی ، منتخب وزیراعظم کو اپوزیشن نے ناکوں چنے چبوائے اور روز روز عدالتوں کے چکر لگوائے گئے۔اب وہی لوگ جب حکومت میں ہیں تو انھیں خود کو احتساب کیلئے پیش ہونے میں دقت پیش آرہی ہے۔ اپوزیشن کی جرات نہیں ہے کہ شہنشاہ وقت کے سامنے پر بھی مار لیں۔سانحہ ماڈل ٹائون ایک ایسا واقعہ جس کو رونما ہوئے اڑھائی سال کا طویل عرصہ ہو چکا ہے مگر کوئی کاروائی عمل میں نہ آئی سوائے ایف آئی آر درج کرنے کے۔اگر سانحہ ماڈل ٹائون شہداء کے لواحقین انصاف طلب کر رہے ہیں تو انھیں انصاف کیوں نہیں دے دیا جاتا ہے؟اگرسابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف عدالت کے سامنے پیش ہو سکتے ہیں تو وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور وزیرِ اعظم صاحب کیوں نہیں؟
پاکستان کے اندرونی حالات روز بروز کشیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔کرپشن کسی بھی لیول کی ہو یہ معیشت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتی جا رہی ہے۔ اسلام نے یونہی تو رشوت و بدعنوانی کیلئے سخت احکامات نہیں دیے ہیں۔اسلام دینِ فطرت ہے اور یہ سراسر ہماری فلاح کیلئے ہے۔ اکنامیکلی اگر دیکھا جائے تو رشوت اور بد عنوانی سے روپیہ گردش سے نکل جاتا ہے اور جب تک روپیہ گردش میں رہتاہے معیشت میں استحکام کی صورتحال رہتی ہے۔١٩٩٩ کے مارشل لاء کے بعد کافی حد تک معیشت کو استحکام حاصل ہوا۔کشکول توڑنے کا وعدہ کیا گیا تو اس پر عمل کر کے دکھا یا گیا۔ ہمارے ملک میں یہ حالات آ گئے ہیں کہ ہماری معاشی پالیسیاں بیرونی ساہوکاروں کے ہاتھوں گروی رکھ دی گئی ہیں۔ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا دخل اتنا بڑھ گیا ہے کہ ملک کا بجٹ پارلیمنٹ نہیں ان اداروں کے احکامات کے مطابق بنایا جاتا ہے۔ہم نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کیلئے اب سرکاری عمارات بھی گروی رکھنا شروع کر دی ہیں۔