تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری پچھلے سال بھی بجٹ سے قبل ہی ممبران اسمبلی وزراء وزیر اعظم سپیکر اسمبلیاں اور چیئرمین سینٹ وغیرہ کی تنخواہوں اور مراعات میں دو سو فیصد اضافہ کیا گیا تھا اب پھر تین سو فیصد مزید اضافہ کر ڈالا گیا ہے اس طرح ممبران کی تنخواہ ہی دو لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے دیگر مراعات کرایہ رہائش، فون، بجلی کے چالیس ہزار یونٹ ریلوے ہوائی جہازوں پر مفت سفر وغیرہ جیسی مراعات اس کے علاوہ ہیں۔
ایسا محسوس ہو تا ہے کہ جیسے غلہ کے گوداموں کو چوہے اندر ہی اندر کھاتے رہتے ہیں اسی طرح ہمارے یہ راہنمایان سرکاری خزانے کوہڑپ کیے جاتے ہیں جوسود در سود قرضے ہم بیرونی ممالک سے لے رہے ہیں اس کا بیشتر حصہ انہی کی خوارک بن جاتا ہے ممبران اسمبلی کی حالت یہ ہے کہ نصف سے زائد تو کبھی اسمبلی میں جاتے ہی نہیں۔اور ساٹھ فیصد ایسے ہیں جو 2013سے آج تک منہ سے ایک لفظ تک نہیں بولے یعنی گونگے اور غالباً بہرے ممبران ہیں یہ لوگ واقعی غریب عوام کے خون پسینہ کی کمائیوں سے جمع ہونے والے پاکستانی خزانہ پر بوجھ ہیں ان کی تنخواہیں بھی ایک مزدور اور محنت کش کے برابر کی جائیںیا پھر مزدوروں محنت کشوں کو بھی ایسی ہی مراعات اور تنخواہیں دی جائیں تاکہ مساوات محمدی ۖ پر صحیح معنوں میں عمل ہو سکے کہ ہمارے خلفاء بھی ایک مزدور کی آمدنی سے زائد تنخواہ بیت المال سے نہ لیتے تھے۔
جن پر اس وقت سخت تنقید ہوئی جب انہوں نے یمن سے آئی ہوئی چادروں کی تقسیم کے بعد ان سے اپنا کرتا بنوالیاجس اکا کپڑا ایک چادر سے زائد تھا۔تو کھلے اجلاس میں صحابہ معترض ہوئے کہ ہر ایک کو ایک ایک چادر دی گئی تھی آپ کا کرتا کیسے بن گیا۔بلکہ وہ تو سرکاری کام کے علاوہ چراغ بھی اپنا ذاتی جلالیتے تھے اور مساوات کا یہ عالم تھا کہ جب فاتح بن کر شہر کے قریب پہنچتے ہیں تو باری باری اونٹ کے اوپر بیٹھنے کے اصول پر عمل کرتے ہوئے خادم اوپر بیٹھا تھا اور خود خلیفةالمسلمین مہار پکڑے چلے آتے تھے۔
Salary
کپڑوں اور جوتے میں سینکڑوں پیوند لگے ہوتے کہ دوسراخریدنے کی سکت نہ تھی۔ایسے باکردار مسلمانوں کی اس وقت حکمرانی افریقہ تک پہنچ چکی تھی اور ہم مشرقی حصہ ہی گنوا بیٹھے ہیں۔سادگی قناعت کی ایسی خوبیاں جو ان حکمرانوں میں تھیں توہی پوری دنیا سر نگوں ہوتی گئی ۔بغیر بڑے خون خرابہ کے اسلامی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی۔مگر ہمارے منتخب ممبران اجلاسوں تک میں ہی بیٹھناگوارا نہیں کرتے اور کئی بائیکاٹ پر مہینوں باہر رہ کر بھی مراعات وتنخواہیںپوری وصول کر رہے ہیں اس لیے” چھاج تو بولے چھلنی کیا بولے جس میں سینکڑوں چھید”کی طرح”اوروں کو نصیحت خود میاں فصیحت” والی بات صادق آتی ہے۔ایسے ممبران جو کسی بحث مباحثہ میں حصہ لیے بغیرمال ہڑپ اور حرام روزی کھارہے ہیںاس کی قانون آئین اور اسلامی قوائد و ضوابط کے تحت بھی قطعاً اجازت نہ ہے کسی دوسرے ترقی پذیر یا ترقی یافتہ ملک حتیٰ کہ سامراجی یہودی سوشلسٹ سیکولرسٹ مملکتوں میں بھی یہ جائز نہ ہے کام نہ کرنا اور مزدوری وصول کرلینا پاکستانیوں کا ہی طرہ امتیاز ہے ہم آئی ایم ایف، ورلڈ بنک، یہود و نصاریٰ وسیکولر سامراجی ممالک سے بھاری قرضے وصول کرتے ہیں اور پچھلے ساڑھے تین سال میں تو اربوں ڈالر قرضوں کی وجہ سے ہر پیدا ہونے والا بچہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کا مقروض ہو چکا ہے۔
مغلیہ شہنشاہ بھی شاید اسطرح خزانہ کا بے دریغ استعمال نہ کرتے ہونگے جیسے ہمارے شہنشاہانہ جمہوریت کے علمبردار کرتے ہیں ملک کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے گزر بسر کر رہی ہے یہاں تک کہ پچاس فیصد تک کو تودووقت کی نان جویں بھی میسر نہیں کبھی غور سے سکول جاتے بچے بچیوں کے چہروں اور صحت پر نظر دوڑائیں تو بیشتر خوارک و خون کی کمی اور اشیائے خوردنی کی عدم دستیابی ان کے لاغر جسموں ،پچکے گالوںسے ظاہر ہے۔بارڈروں پر شیطانی حرکات کرنے والی مودی سرکار اور ہندو بنیوں کا خونخواربھیڑیوں کی طرح مسلمانوں کو دیکھناتقاضا کرتا ہے کہ پاکستانی نوجوان مکمل صحت مند اور فٹ ہو کر ان کا منہ توڑ جواب دیںایسی فضول مراعات منتخب ممبران اور بیورو کریٹوں سے واپس لی جائیں۔میٹر و اور اورنج ٹرین کی بہتات کرنے کی بجائے اگر ڈیم تیار نہ کئے گئے تو ٹرمپ کے ساتھی موذی مودی کے اعلان کہ پاکستان کو پانی روک کر ریگستان بنا ڈالوں گا۔کہیں حقیقت کا روپ ہی نہ دھار لے ۔ہم پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہیں ہمارے لیے نئے پانی کے ذخائر بنانا اشد ضروری ہے اور اس کو اولین ترجیح دی جائے مگر مقتدر لوگوں کو اس کی ہوش تک نہیں عیاشیوں میں ڈوبی ہوئی قوم اور اس کے راہنما (خدانخواستہ )کہیں ہندو بنیوںکا ترنوالہ ہی نہ بن جائیں۔
سب مراعات موجودہ حکمرانوں حزب اقتدارو حزب اختلاف سے فوری واپس لی جائیں کہ” اندھا ونڈے ریوڑیاں مڑ مڑ اپنیاں نوں” انھیں انتباہ نہ کیا گیا تو یہ خونخوار بھیڑیوں کا کردار ادا کرنے سے باز نہیں رہیں گے اور ہر چھ ماہ بعد مزید خزانہ ہڑپ کرنے والا ناقابل معافی جرم کرتے رہیں گے ۔تاآنکہ نان نفقہ سے محروم مہنگائی اور غربت کے مارے ہوئے خود کشیاں خود سوزیاں کرتے پسے ہوئے طبقات کے لوگ بستیوں محلوں گلیوں گوٹھوں سے اللہ اکبر اللہ اکبرکے نعرے لگاتے اور آقائے نامدار محمد مصطفیۖ کے درود پاک کا ورد کرتے تحریک کی صورت میں نکلیں گے اور یہ سب مراعات ان سے واپس لے کر سرکاری بیت المال میں جمع ہوں گی عین ممکن ہے کہ ” تنگ آمد بجنگ آمد” کی طر ح یہ سارا حرام مال بھاری بھرکم پیٹوں ظالم جاگیرداروں کرپٹ وڈیروںسود در سود وصول کرنے والے صنعتکاروں اور ایسے منتخب ممبران سے واپس وصولی کے لیے ان کی ساری منقولہ و غیر منقولہ جائدادیں بحق سرکار ضبط ہو جائیں تاکہ پھر کبھی ایسے لالچی افراد مزید لوٹ مار کر کے جمہوری لونڈی کے بل پر دوبارہ غریبوں کی گردنوں پر سوار نہ ہو سکیں۔باقی رہے گا نام اللہ کا۔