تحریر : فرخ شہباز وڑائچ صحافت کے طالبعلم کے طور پر ”سپائرل آف سائلنس” تھیوری سے متعلق پڑھنے کا اتفاق ہوا یہ بڑی دلچسپ تھیوری ہے ایک جرمن پولیٹیکل سائنٹسٹ نے 1974ء میں اسے پہلی مرتبہ پیش کیا۔ سپائرل آف سائلنس تھیوری کے مطابق جب بھی کوئی نظریہ، کوئی نئی بات لوگوں کے سامنے رکھی جاتی ہے تو جس طرف زیادہ لوگ رائے دیں باقی رہ جانیوالے لوگ صرف تنہائی کے خوف کے بناء پر اس نظریئے کے حامی ہوجاتے ہیں، مثال کے طور ایک کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر نے اپنی کمپنی کے ملازمین کے کام کرنے کے اوقات میں اچانک اضافہ کر دیا اکثریت نے اس فیصلے کو تسلیم کرلیا تو اب باقی لوگ جو اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں وہ اس موقع پر مختلف قسم کے خوف کا شکار ہوکر خاموشی یعنی اس فیصلے پر رضا مندی ظاہر کر دیں گے۔
اسی طرح ایک پروفیسر صاحب نے اس تھیوری کو عملی طور پر ایسے پرکھا کہ ایک کلاس میں سے ایک طالبعلم کو کلاس روم سے باہر بھیجا گیا شرکاء کو تجربے کے متعلق بتادیا گیا جب وہ طالبعلم واپس آیا ٹیچر نے صاف بورڈ کی طرف اشارہ کر کے پوچھا بورڈ پر کیا لکھا ہے تو کلاس نے جواب دیا بورڈ پر لکیر کھینچی گئی ہے اب وہ طالبعلم جسے کوئی لکیر نظر نہیں آرہی تھی (Fear of Isolation) کی بناء پر کہنے پہ مجبور ہوگیا بورڈ پر لکیر کھینچی گئی ہے۔سپائرل آف سائلنس تھیوری کوکچھ دیر کے لیے بھول جائیے۔حال ہی میں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہوئے ہیں اپنی ہنگامہ خیزی کے اعتبار سے یہ انتخابات تاریخ میں منفرد حیثیت اختیار کرچکے ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں مگر اس کی سب سے اہم وجہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔
14جون 1946ء کو نیویارک میں پیدا ہونے والے ٹرمپ کی زندگی کی داستان ان کی شخصیت کی طرح عجیب اور دلچسپ ہے۔ٹرمپ شخصیت کے اعتبار سے نہایت غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ وہ امیدوار ہیں جن کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا، جنھوں نے ہراصول ہر ضابطے کو ہوا میں اڑا دیا۔سنہ 1999 میں ریفورم پارٹی کی جانب سے صدارتی میدوار بننے کی ناکام کوشش کرنے والے اور 8 نومبر 2016ء کو دنیا کی سپر پاور امریکہ کے صدر بننے والے ٹرمپ کو انتخابات جیتنے کے لیے جان توڑ محنت اور استقامت دکھانا پڑی۔اپنی پارٹی کے امیدواروں جیف بش (جارج بش کے چھوٹے بھائی) اور اسکاٹ والکر کو پچھاڑ کر آگے آنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی نامزدگی امریکی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے جس کی بازگشت سالہاسال تک سنائی دیتی رہے گی۔
Donald Trump
اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہیں ہو گا کہ ٹرمپ کی صدارتی مہم نے امریکہ کا سیاسی اور سماجی نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ٹرمپ کے حامیوں اور مخالفین کا اس بات پر اتفاق تھا کہ امریکی صدارتی انتخابات میں آج تک ٹرمپ جیسا کوئی امیدوار نہیں آیا۔صدارتی انتخابات کے دوران ٹرمپ نے متنازعہ بیانات کے پہاڑ کھڑے کردیے مسلمان کیا تارکین وطن کیا،حتی کے خواتین ٹرمپ کی نفرت سے کوئی نہ بچ سکا۔مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر اسکاٹ لینڈ کی ‘رابرٹ گورڈن یونیورسٹی’ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری منسوخ کردی یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا تھاکہ امریکی صدارتی امیدوار کی ڈگری یونیورسٹی اقدار کے خلاف بیان پر منسوخ کی گئی ہے ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ اعزازی ڈگری 2010 میں بطور بزنس مین ان کی کامیابیوں کے اعتراف میں دی گئی تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اسکاٹ لینڈ کی شہری 69 سالہ سوزین کیلی کی جانب سے پیش کی گئی اس آن لائن پٹیشن میں ان کی نفرت انگیز تقاریربرطانیہ میں ان کے داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔
دوسرے مباحثے سے پہلے ان خواتین سے متعلق نازیبا گفتگو نے انہیں مزید مشکل میں ڈال دیا جب ان کی پارٹی کے سرکردہ رہنمائوں نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کردیا نہ صرف انکار بلکہ امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ اپنی ہی پارٹی کے صدارتی امیدوار سے دستبرداری کا مطالبہ کیا گیا۔ٹرمپ بیس بال ٹیم کی کپتانی سے بزنس مین بھی بنے،ٹی وی اینکر بھی بنے،دل نے مجبور کیا تو”رنگ” میں اتر کر پہلوانی کے شوق بھی پورے کئے۔ ٹرمپ کی پہلی کتاب ‘دا آرٹ آف دا ڈیل’ نومبر 1987 میں شائع ہوئی جس میں قارئین کو ان کی کامیابی کے راز بتانے کا دعویٰ کیا گیا۔ یہ کتاب نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلر کتابوں کی فہرست میں 48 ہفتوں تک رہی جن میں سے 13 ہفتے سرفہرست رہی۔ اس کتاب سے نہ صرف ٹرمپ کو رائلٹی کی شکل میں لاکھوں ڈالر کی آمدنی ہوئ بلکہ ان کی شہرت بڑھ گئی۔
ٹرمپ نے اپنی مالی پریشانیوں کے دوران اپنی دوسری کتاب ‘دا آرٹ آف دا کم بیک’ سے بھی فائدہ حاصل کیا۔ یہ کتاب بھی بیسٹ سیلر کی فہرست میں شامل رہی ٹرمپ کو اولین سیاسی شہرت اپریل دو ہزار گیارہ میں ملی جب انھوں نے بارک اوباما کی امریکی شہریت چیلنج کی۔ڈونلڈ ٹرمپ کے خیالات سے آپ اس کی فیصلہ لینے کی صلاحیت اور مشکلات سے لڑنے کی طاقت کا اندازہ کرسکتے ہیں۔
”ہم اتنی کامیابیاں حاصل کریں گے کہ آپ لفظ کامیابی سے بور ہوجائیں گے۔” ”میں نے کچھ برا نہیں کیا۔میں نے کیا برا کیا؟ مجھے پسند کرو یا ناپسند مگر ٹرمپ جو چاہتا ہے حاصل کرلیتا ہے۔ زندگی میں ہر شے قسمت سے جڑی ہے۔میری ایک خوبی یہ بھی ہے کہ میں امیر ہوں۔میں بے وقوف نہیں خاصا اسمارٹ آدمی ہوں۔ میں نے ہمیشہ سخت فیصلے کیے ہیں اور نتائج پر بھی نظر رکھی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ امریکا کا نظام ایک کاروبار کی طرح چلایا جائے” جی ہاں یہ وہی ٹرمپ ہیں جنہوں نے پوری دنیا کے میڈیا کو آئینہ دکھا دیا ان کی نامزدگی سے الیکشن جیتنے تک پوری دنیا کا میڈیا یہ بتاتا رہا کہ ٹرمپ ناکام ہوجائیںگے،ٹرمپ نے رائے عامہ کے جائزوں اور تمام پیشن گوئیوں کو غلط ثابت کر دیا۔یہ وہی ٹرمپ ہیں جنھوں نے سپائرل آف سائلنس تھیوری کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے،اپنی ہمت ، قوت، لگن، محنت، کوشش سے دنیا کو یہ سبق سکھایا ہے کہ آپ وہی بن جاتے ہیں جو آپ بننا چاہتے ہیں چاہے پوری دنیا ہی آپ کے خلاف کیوں نہ ہو۔