تحریر : صباء نعیم پنجاب کابینہ میں توسیع خوش آئند ہے۔ گورننس میں بہتری آئے گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پنجاب کابینہ میں توسیع کر دی ہے، کابینہ میں گیارہ نئے ”وزراء ” تین مشیر اور دو معاونین خصوصی شامل کئے گئے ہیں، نئے وزراء نے گورنر ہاؤس لاہور میں حلف اٹھالیا، گورنر پنجاب رفیق رجوانہ نے حلف لیا، پنجاب کابینہ میں جو نئے وزیر شامل کئے گئے ہیں وہ کسی نہ کسی حیثیت میں حکومت میں شامل چلے آ رہے تھے ان میں سے بعض تو مشیر اور پارلیمانی سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں حکومتی امور چلانے کا پہلے سے تجربہ حاصل ہے اس لئے اب وہ زیادہ بہتر طریقے سے اپنے فرائض ادا کر سکیں گے، پنجاب بڑا صوبہ ہے آبادی کے لحاظ سے باقی تین صوبوں سے بھی بڑا ہے رقبے کے لحاظ سے بھی یہ صوبہ دنیا کے کئی آزاد و خود مختار اور خوشحال ملکوں سے بڑا ہے۔ دنیا کے کئی ملک تو ایسے ہیں جن کی مجموعی آبادی اس کے دارالحکومت(لاہور) سے بھی کم ہے، اس سے پنجاب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اس لحاظ سے کابینہ میں توسیع کی ضرورت تو تھی اور عرصے سے اس کی امید اور امکان بھی تھا تاہم صوبے میں ان لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کے خیال میں توسیع کے ذریعے صوبے کے وسائل پر ناروا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔
عوام کی خدمت کے پہلو سے دیکھا جائے تو کابینہ بنیادی طور پر ان کے مسائل حل کرنے کے لئے ہی بنائی جاتی ہے، جن محکموں کے وزیر متحرک، معاملہ فہم اور مسائل کا ادراک رکھتے ہیں ان کی وزارتوں میں مسائل کم ہوتے ہیں اور عوام خوش ہوتے ہیں مثال کے طور پر صحت ایک ایسا محکمہ ہے جس کے لئے پنجاب کی حکومت نے بجٹ کی رقوم میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے، نئے ہسپتال بھی بنائے ہیں، پرانے ہسپتالوں کوبھی اپ گریڈ کیا ہے، ہسپتالوں میں سہولتوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے لیکن بظاہر مریضوں کے مسائل حل نہیں ہوئے۔ گزشتہ دنوں پاکستان کے سب سے بڑے ہسپتال، میو ہسپتال میں ایک مریض اور اس کے لواحقین کو ڈاکٹروں اور ان کے ساتھیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا، اس واقعے کی انکوائری ہوئی تو سینئر ڈاکٹروں کی کمیٹی نے ڈاکٹروں کو قصور وار گردانا اور ان کے خلاف معمول کی انضباطی کارروائی کی گئی تو ینگ ڈاکٹروں کی تنظیم کا ایک دھڑا بپھر گیا۔ نہ صرف کئی روز تک ہسپتال مریضوں کے لئے بند رہا بلکہ ڈاکٹروں نے باہر نکل کر شاہراہ قائد اعظم پر ٹریفک بھی روک دی۔
یوں انہوں نے نہ صرف مریضوں کے لئے پریشانیاں پیدا کیں بلکہ پورے لاہور کی ٹریفک کو بھی کئی روزتک جام کئے رکھا، اب یہی ڈاکٹر اپنے بعض دیگر مطالبات کو منوانے کے لئے دوبارہ احتجاج و ہڑتال کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ یہ مسئلہ حل ہوگا تو کوئی دوسرا پیدا ہو جائے گا، جن اداروں سے لوگوں کو روزانہ کے حساب سے واسطہ پڑتا ہے وہاں تو ایسے بہترین انتظامات ہونے چاہیں کہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے جس وزیر کو بھی کابینہ میں صحت کا شعبہ سونپا جائے گا وہ اگر ڈاکٹروں کو ہڑتال سے باز رکھ سکیں اور انہیں ان کے فرائض یاد دلا سکیں تو یہ صوبے کے عوام پر بڑا کرم ہو گا۔
Shahbaz Sharif
یہ صرف ایک محکمے کا ذکر ہے باقی صوبائی محکموں کی کارکردگی کو بھی اگر جدید دور سے ہم آہنگ کردیا جائے اور اس سلسلے میں کابینہ کے ارکان کوئی کریش پروگرام وضع کریں تو ہر سرکاری محکمے کی کارکردگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ صحت کی طرح تعلیم بھی ایسا شعبہ ہے جو بہت وسعت رکھتا ہے، یونیورسٹیاں ، کالج، سکول، فنی تعلیمی ادارے اس شعبے کی ذیل میں آتے ہیں ان سے بھی گوناگوں شکایات پیدا ہوتی رہتی ہیں، پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن کے مسائل ہیں، ان تعلیمی اداروں کی فیس کا میکنز م ایسا بنانے کی ضرورت ہے کہ ہر سال مالکان اپنی من مانی کے ذریعے فیسوں میں اضافہ نہ کرتے رہیں، کیونکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو جب کسی نظم و ضبط کا پابند بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ بھی ہڑتال پر اْتر آتے ہیں، سال رواں میں یہ مسئلہ کافی گھمبیر شکل اختیار کر گیا تھا۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کو میرٹ کا پابند بنانے کی پالیسی بنائی گئی تو اس کی مخالفت بھی سامنے آئی، اس کی ضرورت غالباً اس لئے محسوس کی گئی تھی کہ جن ڈاکٹروں نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی تھی وہ کئی لحاظ سے غیر معیاری تھی یہ سلسلہ اب چونکہ بہت وسیع ہو چکا ہے اس لئے یہاں اس طرح کا میرٹ رواج دینے کی ضرورت تھی جو سرکاری کالجوں میں مروج ہے، لیکن اس کی بھی مخالفت کی گئی۔
خبر رساں ادارہ بی این پی کے تجزیہ کے مطابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی حکومت پر ان کے سیاسی مخالفین ہمیشہ سے یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ انہوں نے سارے اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور بہت سی وزارتوں کا اضافی چارج بھی ان کے پاس ہے، انہیں یہ وزارتیں اہل وزیروں میں تقسیم کرنی چاہیں اب جبکہ انہوں نے کابینہ میں توسیع کر کے نئے وزرا کو شامل کیا ہے تو یہ اعتراض جڑ دیا گیا ہے کہ یہ خزانے پر بوجھ ہے اب ناقدین سے کوئی پوچھے کہ جب کابینہ چھوٹی تھی تو کہا جارہا تھا وزیر اعلیٰ نے سارے اختیارات اپنی مٹھی میں رکھے ہوئے ہیں اب انہوں نے بند مٹھی کھولی ہے تو اس پر دوسرے زاویئے سے نکتہ چینی ہو رہی ہے۔ کیا نکتہ چینی کرنے والوں کو پہلے معلوم نہیں تھا کہ کابینہ بڑھے گی تو ساتھ ہی اخراجات بھی بڑھیں گے؟ یہ سلسلہ تو ہمیشہ جاری رہتا ہے اور اب بھی کسی نہ کسی انداز میں اس فیصلے پر نکتہ چینی ہوتی رہے گی تاہم اگر کابینہ کے نئے پرانے ارکان خدمت کے جذبے سے کام کر کے اصلاحِ احوال کریں اور یہ نظر بھی آئے تو پھر نکتہ چینی کرنے والوں کے منہ بند کئے جا سکتے ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی کی آمد کے بعد ہمارے سرکاری دفاتر کے نظام کوبھی بہتر ہو جانا چاہیے تھا لیکن اکثر دفاتر ابھی تک دقیانوسی انداز میں کام کر رہے ہیں جو کام ٹیلی فون پر ہونے والے ہوتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ ای میل کے ذریعے ہو جانے چاہیں ان کے لئے بھی لوگوں کو بار بار سرکاری دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں حالانکہ ای گورننس کے فوائد سے ہر کسی کو مستفید ہو جانا چاہیے، کابینہ اگر جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر کام کرے تو وزیر اعلیٰ پر کام کا بوجھ بہت ہلکا ہو سکتا ہے جنہیں زیر تعمیر منصوبوں کی سائٹ پر بھی خود جانا پڑتا ہے۔
ہسپتالوں کا معائنہ بھی خود کرنا پڑتا ہے جہاں کبھی ائر کنڈیشنز درست کام نہیں کررہے ہوتے تو کبھی ادویات نہیں ہو تیں، کبھی ایکسرے مشینیں خراب ہوتی ہیں تو کہیں وارڈوں میں بلیاں اور چوہے دوڑ رہے ہوتے ہیں ہسپتالوں کے بستروں میں کھٹمل تو بسیرا کئے ہی رہتے ہیں،سٹوروں سے ادویات بھی غائب ہو جاتی ہیں ایسی شکایات بھی سامنے آتی ہیں کہ سٹوروں سے ادویات چوری کر کے بازاروں میں فروخت کردی جاتی ہیں اب جبکہ نئے وزراء کابینہ میں شامل کئے گئے تو انہیں صحیح معنوں میں وزیراعلیٰ کا ممد و معاون ثابت ہونا چاہیے۔ صوبے میں امن و امان کی صورت حال بھی تسلی بخش نہیں۔ سٹریٹ کرائم بڑھ رہے ہیں اور ان میں جدت بھی آ رہی ہے۔ وزیراعلیٰ کو یہ سارے کام وزراء کو تفویض کرکے ان سے نتائج مانگنے چاہئیں اور ان کی کارکردگی پرنظر رکھ کر اصلاح احوال کرنی چاہیے۔ اگر ایس ایچ او کا کام بھی وزیراعلیٰ کرے گا تو سسٹم کبھی نہیں بن سکے گا۔