اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے حکومتِ پاکستان سے 15 مارچ 2017 کو مردم شماری شروع کر کے 15 مئی 2017 تک مکمل کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے حکومت کو آئندہ برس مارچ سے مئی تک مردم شماری کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مردم شماری نہیں کرانی تو وزیراعظم خود عدالت میں پیش ہوں۔ مردم شماری از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے کی۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے لئے تمام صوبوں کی شمولیت ضروری ہے جس پر امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ ٹھیک ہے وزیراعظم کہہ دیں کہ صوبے تعاون نہیں کر رہے، کل الیکشن کمیشن کہے گا کہ فوج کے بغیر ہم الیکشن نہیں کروا سکتے۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ مردم شماری نہیں کرانی تو آئین میں ترمیم کر لیں، حکومت کی مردم شماری کی نیت ہی نہیں جب کہ بغیرمردم شماری الیکشن عوام کے ساتھ مذاق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملکی پالیسیاں ہوا میں بن رہی ہیں، عوام کی تعداد کسی کو معلوم ہی نہیں، قومی معاملے پر کوئی سیاسی جماعت عدالت میں نہیں آئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس وزیراعظم کو طلب کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں،7دسمبر تک حتمی تاریخ دیں، ورنہ وزیراعظم کو عدالت میں بلائیں گے۔ تحریری طورپربتائیں مردم شماری 15مارچ سے 15مئی تک ہوگی۔
چیف جسٹس کہتے ہیں وزیر اعظم کو طلب کرنے کے سواء کوئی آپشن نہیں بچا ، جمہوری نظام کا دارومدار مردم شماری پر ہے اور اس کے بغیر الیکشن مذاق ہوگا ۔ 1998 اور آج کی آبادی میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ سپریم کورٹ نے حکومت سے مردم شماری کے لیے حتمی تاریخ تحریری طور پر طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت 7 دسمبر تک ملتوی کر دی۔