تحریر : اروشمہ خان عروش رات کا آخری پہر شروع ہونے والا تھا تاہم ابھی صبح ہونے میں کافی دیر تھی کسی قدر صحن ِحرم میں خاموشی کا سماں تھا۔ خواجہ حسن بصری کا بیان ہے کہ میں نوافل میں مشغول تھا کہ قریب ہی سے آہ وزاری اور سسکیوں کی آواز آنے لگی۔
میں نے کان لگایا تو ایسا لگا کہ کوئی شخص بارگاہِ رب العزت میں عرض و معروض کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے” اے اللہ! مجھے معلوم نہیں کہ کل قیامت کے روز میرے ساتھ کیا معاملہ ہو بہر صورت تیری مغفرت کا طلب گار ہوں میرے گناہوں کو معاف فرما دے اور مجھے اپنی چادر رِحمت میں چھپا لے” ۔خواجہ حسن بصری کا بیان ہے کہ اس آدمی کی گریہ وزاری سے مجھے لگا کہ کوئی بہت بڑا گناہ گار ہے۔ جو اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی مخفرت طلب کر رہا ہے۔
Forgiveness
اس کی عاجزی و آہ و زاری سن کر میرا جی چاہا اس کو دیکھوں ۔جب وہ دعا اور مناجات سے فارغ ہوا تو میں اس کے قریب ہوا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سیدنا امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ ان کے قدموں پر گر پڑا اور عرض کیا امام! آپ کے نانا سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت، آپ کے والد حضرت علی ابن ابی طالب سے آپ کی نسبت اور آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہ الزہرا کا ذریعہ آپ کی نجات آخرت کے لیے بہت کافی سرمایہ ہے۔
اس کے باوجود صحنِ کعبہ میں اس قدر نالہ وزاری کرنے کا کیا سبب ؟؟؟امام حسن مجتبی نے فرمایا” حسن بصری! جس دن قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی ”اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنے قریب ترین عزیزوں کو عذاب الہی سے ڈرائیں ”تو میرے نانا نے میری والدہ حضرت فاطمہ کو” فرمایا بیٹی میں حشر کے دن کسی چیز کا مالک نہ ہوں گا۔
Punishment
لہذا خود کو قیامت کے دن عذابِ دوزخ سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا” جس دن سے میں نے یہ بات سنی پریشان ہوں اور سوچتا ہوں جب شافعِ امت نے عزیز ترین بیٹی کو عذابِ دوزخ سے ڈرایا تو میں تو بیٹی کا بیٹا ہوں اس لیے ہر آن اس سے خائف رہتا ہوں” حسن بصری نے فرمایا” حضرت امام حسن کی یہ بات سن کر میں کانپ اٹھا کہ جب حضور اپنی بیٹی کو عذاب سے ڈرا رہیں اور امام حسن جوانان جنت کے سردار عذاب الہی سے اس قدر خائف تو میں کس شمار و قطار میں ہوں۔