تحریر : مسز جمشید خاکوانی روزنامہ خبریں میں ایک تسلسل کے ساتھ سرائیکی تحریک یا سرائیکی صوبے سے متعلق مواد چھپ رہا ہے ایک کالم حمایت میں چھپتا ہے تو ایک مخالفت میں، گذشتہ چند ماہ سے یہ سلسلہ تیز ہو گیا ہے مجھے نہیں معلوم اس میں کیا مصلحت ہے جناب ضیا شاہد صاحب کی فہم وفراست اور حب الوطنی میں کوئی شبہ نہیں لیکن اس طرح کی تحریک کو مہمیز دینا کم از کم میری سمجھ سے بالا تر ہے ہم تو سچے پاکستانی ہیں قوم پرستی ہمارا مزاج نہیں کیونکہ جو اس جنگ میں کودا وہ ملک کا بھلا نہیں کرے گا زرداری صاحب نے اٹھارویں ترمیم منظور کروا کے صوبوں کو اختیارات تو دلوا دیے ہیں لیکن انصاف فراہم نہیں کر سکے جو اصل چیز ہے اگر آپنے صرف چند لوگوں کو ہی نوازنا ہے تو پھر چار صوبے رہیں یا چودہ بنیں پرنالہ تو وہیں کھڑا ہے سندھی قوم پرستوں اور پیپلز پارٹی کے پاس اگلا الیکشن جیتنے کے لیے اس سے بہتر آپشن کوئی نہیں کہ وہ قومیتوں کا فساد کھڑا کر کے اس علاقے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں اور اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو سرائیکی خطے کے ووٹوں سے سہارا دیں جناب زرداری پانچ سال پورے کرنے اور کیانی جیسے بیبے سپہ سالار کے ہوتے ہوئے بھی اس علاقے میں ایک ہسپتال تک نہیں بنوا سکے نہ ہی ادھر خوشحالی کی کوئی ایسی لہر دیکھنے میں آئی کہ جس پر کہا جا سکے کہ پیپلز پارٹی کا دور سرائیکی خطے کے لیے شاندار تھا زرداری نواز گٹھ جوڑ نے ملک کو تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا لوگ بھوکے مر رہے ہیں مہنگائی کا عفریت انہیں نگلتا جا رہا ہے سود خوروں نے چھوٹے زمیندار ختم کر دیے ہیں آج وہ لوگ تیرے میرے دروں پہ نوکریاں کرتے پھرتے ہیں جو کل تک زمینوں کے مالک تھے اور یہ راتوں رات نہیں ہوا۔
پچھلے آٹھ سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے گندی سیاست لوگوں کو لڑائو اور حکومت کرو کی پالیسی پر استوار ہے ہمارے علاقوں میں ہر قومیت کے لوگ رہتے ہیں آج قوم اور زبان پہ لڑائی ہو گی کل جگہ اور دکان پر ہو گی کوئی ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرے گا ہمسایہ بیگانہ ہو جائے گا روز گلے ملنے والے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگیں گے صوبے اگر انتظامی بنیادوں پر بنیں تو سو بسم اللہ لیکن یہ جو قومیتوں کے درمیان نفرت پھیلائی جا رہی ہے اس کا انجام اچھا نہ ہوگا ان علاقوں میں ہر قومیت کے لوگ رہتے ہیں آپس میں رشتہ داریاں بھی رکھتے ہیں کیا ان کو صوبہ بدر کیا جائے گاِ؟میں نے چار سال پہلے بھی یہی لکھا تھا کہ سرائیکی صوبہ نفرت کی بنیاد پر کیوں؟تب جانے کن خنزیروں نے مجھے میلز میں ننگی گالیوں اور دھمکیوں سے نوازا تھا حالانکہ میرے کہنے سے نہ تو صوبہ بن سکتا ہے نہ منسوخ ہو سکتا ہے اس کے بعد میں آج تک اس موضوع سے اجتناب کرتی رہی ہوں میں اس موضوع پر چھپنے والا ہر کالم پڑھ رہی ہوں میں نے روئوف احمد کے لفظوں میں سرائیکیوں کے لیے ٹپکتی حقارت بھی محسوس کی ہے اور ظہور دھریجہ صاحب کے الفاظ میں چھپی نفرت بھی دیکھی ہے عطا اللہ بگتی کے ہر لفظ سے جھلکتی تشویش نے مجھے اس پر لکھنے پر مجبور کر دیا حالانکہ میں ایک پنڈورہ بکس کھول رہی ہوں اگر یہ کالم چھپا تو میرے ہزاروں نیٹ فرینڈ اور فالورز بھی اس بحث میں کود پڑیں گے لیکن عطا اللہ بگتی کی تشویش بے سبب نہیں ہے بلوچستان کے عوام نے جس قیامت کا سامنا ان برسوں میں کیا ہے اس کے بعد وہاں کے لوگ مزید خونریزی کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے جس خطے میں جو لوگ اقلیت میں ہوتے ہیں وہ برملا تشویش کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ سب سے زیادہ خطرہ انہی کو ہوتا ہے حالنکہ ہم نے کبھی اپنے علاقوں میں لوگوں کو صوبے یا قومیت کی بات کرتے نہیں دیکھا بازاروں میں زیادہ تر کاروبار پنجابیوں یا پٹھانوں کے قبضے میں ہے کیونکہ سرائیکی زیادہ تر زراعت یا نوکریوں کو ترجیع دیتے ہیں اس لیے سرائیکی بیلٹ میں زراعت کو تباہ کرنا سب سے بڑا المیہ ہے۔
Saraiki People Protest
اگر حکومتیں ملک دوست ہوتیں تو ہر علاقے کو اس کی استعداد کے مطابق ترقی کے مواقع دیتیں جس طرح ہر زمین میں ہر فصل نہیں اگتی اسی طرح ہر علاقے کے لوگ اپنے ماحول اور مزاج کے مطابق کام کرنا پسند کرتے ہیں میاں نواز شریف جب لودھراں فتح کرنے آئے تھے تو کسان پیکج کا اعلان کیا تھا وہ آج تک نہیں ملا ان کے لیے پنجاب صرف لاہور تک محدود ہے وہ سرائیکی علاقوں سے سوتیلی ماں والا سلوک نہ کریں تو ان نفرتوں کی بنیاد ہی کیوں پڑے وہ تو ہمارے علاقوں کے بنک اور بیت المال تک لوٹ لیتے ہیں بجلی کی سب سے زیادہ لوڈ شیڈنگ ہمارے ہی حصے میں آتی ہے گیس بندش کا سامنا بھی ہم ہی کرتے ہیں اور میاں منشا کو سستے داموں گیس مل جاتی ہے گیس نہ ہونے سے لوگ مجبوراً ہوٹلوں سے کھانا کھانے پر مجبور ہوتے ہیں تب حکومت ہوٹلوں ریستورانوں سے بھاری ٹیکس وصول کر لیتی ہے جو وہ آگے کسٹمر کی جیب سے نکلوا لیتے ہیں یوں گھوم پھر کر پیسہ واپس حکومت کے کشکول میں جمع ہو جاتا ہے اور لوگ آپس میں لڑتے رہتے ہیں کہ الگ صوبہ بن جاتا تو یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بن جاتیں حالانکہ ان لوگوں کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہے شائد دفتروں میں یہ بحث چلتی ہو عمومی مقامات پر ایسی کوئی ٹینشن نہیں ہے حالانکہ اخبار میں بحث پڑھو تو لگتا ہے ہر سرائیکی سروں پہ کفن باندھ کے نکل آیا ہے جو کھانے والے لوگ ہیں وہ زبان اور قومیت سے بے نیاز ہیں ہمارے گھر کام کرنے والی ایک کرسچن عورت بتا رہی تھی کہ ملک ریاض نامی بندہ کبھی نالیاں صاف کیا کرتا تھا پہلے وہ سپر وائزر بنا اب شہر کے ہر کونے میں اس کی کوٹھی ہے وہ کمیٹی میں خاکروب کی جاب دینے کے بھی تیس ہزار لے لیتا ہے جبکہ اس سے ذرا اوپر کی نوکری پچاس ہزار میں بکتی ہے یعنی یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ٹکے ٹکے کی نوکریاں لاکھوں میں بکتی ہیں اور پیسہ نیچے سے اوپر تک پہنچایا جاتا ہے۔
ایسے میں جانے کیوں سرائیکیوں کو خوش فہمی ہے کہ صوبہ بنتے ہی ان کے لیے خزانوں کے منہ کھل جائیں گے بلکہ میں توسمجھتی ہوں یہاں بیٹھے جو مگرمچھ ابھی اربوں کی جائیدایں نہیں بنا پائے پہلے تو انکی لوٹ مار شروع ہو جائے گی غریب کے ہاتھ میں کیا آئے گا ؟ بھارت نے جو لارے لپے لگائے ہوئے ہیں وہ بھی دور کے ڈھول سہانے ثابت ہو نگے بنگلہ دیش بنا کے فائدہ بھارت نے ہی اٹھایا ہے بنگلہ دیشیوں نے نہیں ورنہ آج ہر بنگلہ دیشی اپنے ملک میں عیش کر رہا ہوتا خلیجی ممالک میں دحکے نہ کھا رہا ہوتا یہ جو تھوڑا بہت گلشن کا کاروبار چلا ہے یہ بھی صرف اس وجہ سے کہ پاکستان کے صنعت کاروں کو یہاں بجلی اور گیس بند کر کے مجبور کر دیا گیا کہ وہ بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کریں اگر اپنے ملک میں سہولیات موجود ہوں تو کون اپنا وطن چھوڑتا ہے روزگار کے لیے لوگ دوسرے صوبوں میں جاتے ہیں۔
دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں اور یہ شرم کا مقام ہے کہ دوسرے ملکوں میں اتنے لوگ نہیں مارے جاتے جتنے دوسرے صوبوں میں مارے جاتے ہیں چونکہ سب سے زیادہ لوگ سرائیکی علاقوں سے کوئٹہ بلوچستان گئے اس لیے انہیں نشانہ بنا کر دشمنوں نے دوہرا فائدہ حاصل کیا یقیناً یہ بھارتی ایجنٹوں کی کاروائی تھی اور پیسے کے لیے ضمیر بیچنے والوں کی نہ کوئی قومیت ہوتی ہے نہ مسلک نہ زبان اس ملک میں شیعہ سنی فسادات کی چنگاری ہر وقت سلگتی رہتی ہے اس لیے مزید کوئی چنگاری نہ سلگای جائے چنگاری کے بھڑک کر شعلہ بنتے دیر نہیں لگتی عطا اللہ بگتی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ اب جبکہ ضرب عضب کے نتیجے میں بلوچستان کے فراری ہتھیار ڈال رہے ہیں اور بلوچستان ترقی کے دروازے پہ دستک دے رہا ہے سرائیکی علاقے کا امن تباہ نہ کریں۔