تیری فرقت کا صدمہ باعثِ آزار ہے اب تک دسمبر سے دسمبر تک سفر دشوار ہے اب تک تیری قدموں کی آہٹ کو میری دھڑکن ترستی ہے میرے ہونٹوں پہ تیرے درد کا اظہار ہے اب تک تجھے کھو کر درِ ساقی سے بزمِ پارسائی تک زمانے بھر کی رسوائی گلے کا ہار ہے اب تک میرے چہرے پہ تیرے قرب کے مدہوش لمحوں کا کبھی فرصت ملے تو دیکھ لو سنگھار ہے اب تک شبِ تنہائی میں ساحل یہی محسوس ہوتا ہے میری سانسوں کا تیرے لمس سے تکرار ہے اب تک