تحریر : روشن خٹک مجھے بعض مرتبہ خواتین کے پروگراموں میں شرکت کرنے کا موقعہ ملتا ہے یا مردوں کے پروگرام میں کچھ خواتین کو شامل ہو نے یا ان کو سننے کا موقعہ مل جاتا ہے ۔وہ عمو ما یہی شکوہ شکایت کرتی ہیں کہ یہاں مردوں کا معاشرہ ہے، خواتین کو اپنے حقوق نہیں ملتے اور نہ ہی معاشرے میں ان کو کردار ادا کرنے کے مواقع دئیے جاتے ہیں ،گویا پاکستانی خواتین اپنے آپ کو ایک مظلوم طبقہ سمجھتی ہیں ۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ میری آرزو ہے کہ کاش میں ایک خاتون ہوتی ،مگر کیوں ؟اس لئے نہیں کہ خاوند (مرد) کی کمائی پر رنگ برنگے کپڑے پہن سکوں،سونے کے زیورات بنا سکوں،یا نوکدار ایڑھی والے سینڈل پہن کر ٹھمک ٹھمک گھوم سکوں۔ایسی بات نہیں بلکہ مسئلہ ہے عزت اور اہمیّت کا، میں دیکھتا ہوں کہ جو اہمیت ہمارے معاشرے میں عورتوں کو ملتی ہے وہ ہمارے نصیب میں کہاں ؟آج خیبر روڈ سے ہوتے ہوئے صدر کی طرف جا رہا تھا ، روڈ کے درمیان میں ہر کھمبے پر پو سٹر آویزاں تھے لکھا تھا ”آئیے عہد کریں ،خواتین پر تشدد نہیں کرنے دیں گے ” میں نے سوچا کہ کیا تشّدد صرف خواتین پر ہوتا ہے؟۔
کیا مرد حضرات تشدد کا نشانہ نہیں بنتے ؟ رقم لینے بنک گیا ،قطار میں کھڑا ہو گیا قطار میں کھڑے کھڑے آخر باری قریب آگئی تو سوٹ بوٹ میں ملبوس بنک کے نوجوان کیشئر نے کہا، ”سر ! آپ تھوڑا پیچھے ہو جائیں ، لیڈیز فرسٹ ” وہاں سے بڑے ڈاکخانے ‘جی پی او ‘ ایک رجسٹری کرنے گیا ، کھڑکی کے سامنے کھڑا ہوا ،جب میری باری آئی تو ڈاکخانے کے چشمہ لگائے باریش اہلکار نے کہا ”لگ وروستو شہ، زنانہ تا لار ورکہ” یعنی ذرا پیچھے ہو جائو ، خاتون کو آنے دو ” پرسوں کی بات ہے ایک نجی یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے ملنے گیا۔
ان کے دفتر کے باہر ملاقات کے لئے چار پانچ بندے بھی بیٹھے تھے جس میں ایک خاتون بھی تھی، سب سے پہلے اس خاتون کو اندر بلا لیا گیا ،ہمارا خیال تھا کہ یہ ملاقات پانچ دس منٹ میں ختم ہو جائے گی اور پھر ہمارا نمبر آئے گا مگر یہ ملاقات طول پکڑگئی اور پورے چالیس منٹ کے بعد ختم ہو ئی ،پھر کہیں ہمارا بلاوہ آگیا۔یہ توگھر سے باہر کی بات تھی، گھر کے اندر یہ حال ہے کہ پوری حکمرانی عورت کے ہاتھ میں ہے، بیوی کاحکم تو درکنار، بوڑھی ماں کا حکم ٹالنے کی ہمت پورے گھر میں کسی مرد کو نہیں ہے۔اب ایسی صورتِ حال میں بھلا کون ہوگا جو مرد ہونا پسند کرے گا؟۔
Pak Media
آج کل میڈیا کا دور ہے ،فیس بک صرف جوانوں کا ہی نہیں ، بوڑھوں کا بھی وقت گزاری کے لئے ایک اچھا نسخہ ہے لہذا میں بھی فیس بک پر کئی دوستوں سے رابطہ رکھتا ہوں، میرے فیس بک کے دوستوں میں مردوں کے علاوہ خواتین دوست بھی ہیں چونکہ ہمارے جیسے صحافی لو گوں کی قوتِ مشاہدہ تیز ہو تی ہے تو میں دیکھتا ہوں کہ جب کو ئی خاتون پوسٹ لگاتی ہیں تو اس پر لائک پر لائک، اور کو منٹس ہزاروں میں نہیں تو سینکڑوں میں ،حالانکہ ہمارے ہاں خواتین فیس بک پر اپنی پوری تصویر بھی نہیں لگاتے، کسی نے مہندی لگے ہاتھوں کی تصویر لگائی ہو تی ہے تو کسی نے اپنے زلفوں کی تصویر دی ہو ئی ہو تی ہے مگر پھر بھی یار لوگ ،بیوٹی فل اور نائس لکھ لکھ کر خواتین کے تعریف و توصیف میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ،گویا جو اہمیت خواتین کو سوشل میڈیا میں مِل رہی ہے وہ ہمارے مردوں کے نصیب میں کہاں؟۔
میں کبھی کبھار اپنا کالم پوسٹ کر لیتا ہوں، یا میرے جیسے دیگر مرد فیس بک پر پوسٹ لگاتے ہیں تو اپنے کسی قریبی دوست یا رشتہ دار کے علاوہ کو ئی ‘لایئک ‘ کرنے والا بھی نہیں مِلتا، کمنٹس تو نہ ہونے کے برابر ، اگر کوئی خاتون اپنی کو ئی تحریر فیس بک پر لگا دے تو ”واہ جی واہ، ،کیا کمال کیا ہے، اتنی خوبصورت تحریر ،کیا بات ہے جی ” جیسے کمنٹس کی قطار اس پوسٹ پر لگ جاتی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ وطنِ عزیز کے بہت سارے نوجوان فیس بک پر کسی لڑکی کے نام سے اکائونٹ بنا کر اہمیت حاصل کرنے کی کو شش کرتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرد سے زیادہ اہمیت،قدر و قیمت اور عزت خواتین ہی کو ملتی ہے۔
Petrol Pump
ویسے خاتون بننے کی خواہش میں نے کچھ عرصہ پہلے پنجاب میں اس وقت بھی دیکھی تھی جب ملک میں پٹرول کی قلّت پیدا ہو ئی تھی ،تو کچھ پٹرول پمپوں نے اعلان کیا تھا کہ خواتین کو پہلے پٹرول دیا جائے گا ۔جس پر بعض مرد حضرات نے برقعے پہن کر پٹرول پہلے لینے میں کامیاب ہو ئے تھے۔بحرحال ایک نہیں، سینکڑوں مثالیں اور واقعات ایسے بیان کئے جا سکتے ہیں جسے دیکھ کر کوئی مرد، مرد ہونا پسند نہیں کرتا،اسی لئے کبھی کبھی دل میں یہ خیال آتا ہے کہ کاش ! میں بھی ایک عورت ہوتی۔۔۔”