پیانگ یانگ (جیوڈیسک) جنوبی کوریا اور جاپان نے جمعہ کو شمالی کوریا کے خلاف یکطرفہ تعزیرات عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ جنوبی کوریا اور جاپان کی طرف سے شمالی کوریا کے خلاف عائد کی جانے والی تعزیرات کس حد شمالی کوریا پر اثر انداز ہوں گی کیوں کہ پیانگ یانگ پر گزشتہ کئی سالوں سے اقوام متحدہ کی طرف سے تعزیرات عائد ہیں۔
دونوں حریف کوریائی ممالک کے درمیان تجارتی اور وفود کے تبادلوں کے پروگرام بھی بڑی حد تک معطل ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بدھ کو شمالی کوریا کے خلاف عائد تعزیرات کو مزید سخت کرتے ہوئے اس کی کوئلے کی برآمدات کو محدود کر دیا جو ملک کے لیے زرمبادلہ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
پیانگ یانگ نے نئی تعزیرات عائد کیے جانے کا الزام امریکہ پر عائد کرتے ہوئے، رد عمل کے طور پر دفاعی اقدامات اٹھانے کی دھمکی دی ہے، تاہم ان اقدامات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔
جنوبی کوریا کی حکومت نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ اس نے شمالی کوریا کے درجنوں نئے اعلیٰ عہدیداروں اور اداروں کو بلیک لسٹ کر دیا ہے، جن افراد کو ’بلیک لسٹ‘ قرار دیا گیا اُن کے ساتھ جنوبی کوریا کے شہریوں کو کسی بھی طرح کا مالی لین دین نا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
دوسری طرف جاپان نے کہا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے خلاف عائد اپنی تعزیرات کی تجدید کر رہا ہے۔
کابینہ کے چیف سیکرٹری یوشیدا سوگا نے نامہ نگاروں کو اس فیصلے کے بارے میں بتاتے ہوئے (شمالی کوریا کی طرف سے ) میزائل داغنے اور جوہری تجربات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ “ایک نیا خطرہ ہے جس کی کسی طور بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔”
سیئول کی وزارت خارجہ نے اس توقع کا اظہار کیا کہ امریکہ بھی شمالی کوریا پر اپنی طرف سے عائد کی جانے اضافی تعزیرات کے بارے میں بتائے گا۔
رواں سال ستمبر میں شمالی کوریا کی طرف سے پانچواں اور سب سے زیادہ طاقتور جوہری تجربہ کرنے پر امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان کے عہدیداروں نے پیانگ یانگ پر مزید سخت تعزیرات عائد کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔