تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا قرآن ِ پاک بتاتا ہے کہ !یہودی اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ اللہ نے انہیں مغضوب علیہم قراردے کر پوری دنیا میں ان کی رسوائی پر مہر ثبت کی ہے۔اسلام کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی بدعہدی اور ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ان کو مدینہ منورہ سے نکال دیا تھا، بلکہ آپ نے فرمایا تھا کہ یہودیوں کو جزیرہ عرب سے نکال دیا جائے۔ یہودیوں کی اسلام اور مسلمانوں سے اس قدر واضح دشمنی کا نتیجہ ہے کہ آج تک مسلمان یہودیوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں فتح کیا گیا۔ شہر جس پر غاصب یہودیوں نے قبضہ کرلیا۔حیفا شہر میں اسرائیلی فوجی بیس اور اسلحے کی بڑی بڑی فیکٹریاں ہیں۔ اور اب یہ شہر حیفاء آگ کی ہولی کی لپٹ میں ہے ۔ اسرائیل میں لگی یہ آگ۔دوسرے ہفتہ میں شامل ہو گئی ہے مگر باوجود دس ملکوں کی شمولیت کے ابھی تک آگ پر قابونہیں پایا آخری ہفتہ نومبر2016ء کو بحیرہ متوسط کے مشرقی ساحل پر واقع اسرائیلی شہر حیفاء کے قریب جنگل میں آگ بھڑکی،جو پھیلتے پھیلتے حیفاء شہراورد یگر شہروں تک آن پہنچی ہے۔حیفا القدس سے158اور تل ابیب سے 110کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اس کی آبادی پونے تین لاکھ کے قریب ہے،یہ فلسطین کے قدیم شہروں میںسے ایک شہر ہے،جسے ۔آخری اطلاعات کے مطابق 132سے زائد اسرائیلی زخمی ہوچکے ہیں،جب کہ 80ہزار سے زائد لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ سینکڑوں مکانا ت تباہ ہو چکے ہیں۔
جب کہ دھویں سے اسرائیل بھر میں لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے،کئی لوگ ہسپتال میں داخل ہوچکے ہیں۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق لوگوں کو سانس لینے میںدشواری پیش آرہی ہے۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے عالمی برادری سے آگ بجھانے میں مدد طلب کی ہے۔ روس، ترکی، مصر، یونان، کیپرس سمیت کئی ملکوں کے جہاز آگ بجھانے میں مصروف ہیں،جب کہ امریکہ سے سپر ٹینکر جہاز بھی آگ بجھانے کے لیے جمعہ کے روز پہنچ گیا ہے۔ اور ابھی تک خاطرخواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی ۔اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے مطابق یہ آگ شرپسندوں کی طرف سے لگائی گئی ہے۔اس سے پہلے دسمبر 2010میں بھی اسرائیل میں بڑے پیمانے پر آگ نے تباہی مچائی تھی،جس میں لگ بھگ 42 لوگ مارے گئے اور کئی ہزار ایکڑ جنگل کا رقبہ جل گیا تھا جبکہ ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق یہ آگ 2010سے زیادہ خطرناک ہے۔
جنگلوں میں آگ کا لگنا یا زلزلوں کا آنا قدرتی آفات میں شمار ہوتاہے۔جو دنیا بھر میں ہر جگہ آتی ہیں۔کچھ لوگ ان آفات کاسبب سائنسی وجوہات بتاتے ہیں، اسلام کا نظریہ ہے کہ یہ آفات اللہ تعالیٰ کی مرضی سے آتی ہیں،جن میں خدا کا غضب اور کبھی لوگوں کو آخرت کی یاددہانی کروانا مقصود ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان آفات کے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان آفات سے پناہ مانگنا،اور صحابی رسول ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نماز پڑھناتک ثابت ہے۔بہرحال دنیا یہ بات جانتی ہے کہ اسرائیل نے ظلم وجبر سے فلسطین پر قبضہ کیا ہے۔گزشتہ ستر سالوں سے غاصب اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم ڈھارہاہے۔70سالوں میں اسرائیل لاکھوں لوگوں کو قتل کرچکاہے۔روزانہ لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔آئے دن ظلم وجبر کے ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں۔فلسطینی زمین پر ناجائز آباد کاری کے لیے مہم جوئی کی جاتی ہے۔مسلمانوں کو مذہبی عبادات سے روکنے اوراسلامی شعائر کو مٹانے کے لیے نئے نئے قانون بنائے جاتے ہیں۔
Israeli Atrocities on Palestinians
ان قوانین میں سے حالیہ دنوں پارلیمنٹ میں پیش کیا جانے والا مجوزہ قانون بھی ہے، جس میں فلسطین میں مسلمانوں کو لاؤڈ سپیکر پر اذان دینے سے روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ فلسطینی مسلمانوں نے اس کے خلاف بھر پور مظاہر ہ کیا ہے۔یہاں تک کہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں ایک مسلمان رکن اسمبلی نے یہودیوں کے سامنے اذان دے کر اس اعلان کو چیلنج بھی کیا ہے۔اور ثابت کیا ہے کہ مسلمان جتنا بھی کمزور ہو وہ کلمہ حق کے لئے اپنی آواز بلند کرتا ہے ۔ دنیا بھر سے اسلامی ممالک نے بھی اسرائیل کو اس قانون سے با ز رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ لیکن یہ کب ماننے والہ ہے ، کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔یہود ی اسلام سے ازلی دشمنی کے سبب کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔اسرائیل میں آگ کی تباہی کے بعد عرب میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا پر مسلسل اسرائیل میں لگی آگ زیر بحث ہے۔ جس میں دنیا بھر سے بہت سے لوگوں نے اسے اللہ تعالیٰ کا عذاب قراردیتے ہوئے کہا کہ چونکہ اسرائیل اللہ کے نام کو بلند ہونے سے روکنا چاہتا تھا،اس لیے اللہ نے ان کے عزائم کو روکنے کے لیے آگ کا عذاب ان پر مسلط کیا ہے۔
بہرحال اس کا حتمی علم تو اللہ ہی کے پاس ہے کہ یہ اذان پر مجوزہ بل کی پابندی کی وجہ سے آگ کا عذاب آیا ہے یا کسی اور وجہ سے۔لیکن قرآن وسنت کی نصوص کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ زلزلوں اور دیگر قدرتی آفات کا آنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش اور وعید ہوتی ہے۔قرب قیامت اس قسم کی آفات میں اضافے کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دی ہے۔اس لیے ان آفات پر خوش ہونے کے بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور ظالموں کو ظلم سے روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔اس میں مسلمانوں کے لیے بھی عبرت ہے کہ وہ خدا کے حکم کی بالادستی اور مظلوموں کی مددکے لیے ہرقسم کی جدوجہد کریں۔اللہ ہمیں آفات سے محفوظ رکھے۔اسلام نے قیامت کی چھوٹی سے چھوٹی اوربڑ ی سے بڑی نشانیاں اپنے پیارے محبوب جناب محمد ۖ کی زبان ِ اقدس سے فرمادی گئی۔ جن میں ایک دن بروز جمة المبارک اور ماہ محرم الحرام کا بتایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اسرائیل میں لگی آگ کو قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کو کہا جاتا ہے آثار قیامت نہیں کیونکہ اگر خدا کے بعد کسی کی بات حرف آخر ہے تو وہ میرے اور آپ کے پیارے محبوب جناب ِ رسالت ِ مآب ۖ کی زبان مقدسہ سے ادا ہوے والے الفاظ ہیں ۔۔۔ بحرحال اب تو ناسا نے بھی تصدیق کردی ہے کہ ناسا نے واضح کیا ہے کہ دسمبر 2016 ء میں کسی بھی قسم کے خلائی اجسام سے زمین کو کوئی خطرہ نہیں۔
یہ افواہیں سامنے آرہی تھیں کہ نیبیرو جسے پلانیٹ ایکس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ہمارے نظام شمسی سے ٹکرانے الا ہے جس سے زمین پر قیامت برپاہوجائے گی۔ان افواہوں کے مطابق ایک بڑا سیارہ زمین کے اتنے قریب پہنچ جائے جسے بغیر دوربین کے بھی دیکھا جاسکے تو اس کے نتیجے میںسیاروں کے مدار میںبڑے پیمانے میں تبدیلیاںآئیںگی جس سے زمین پر انسان سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔تاہم اب ناسا کے زمین کے قریب پھیلے اجسام کے پروگرام آفس کے سربراہ یومینز نے اپنے بلاگ میںواضح کیا کہ اس طرح کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے۔انہوں نے کہا کہ دوربینی یا کسی بھی ذریعے سے اس سیارے کی موجودگی کی تصدیق نہیں ہوسکی اور نہ ہیایسے شواہد ملے ہیںکہ ہمارے نظام شمسی پر کسی قسم کے کشش ثقل کے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
ان کے بقول اگر اتنی بڑی تباہی کا باعث بننے والا سیارہ آرہا ہوتا تو ہم اب تک اس کے کسی حصے کو دیکھ چکے ہوتے۔ایسی افواہیںماضی قریب میں بھی گردش کرتیں رہیں ۔ اسرائیل میں لگی آگ سے اسرائیل کو عبرت پکڑنی چاہیے اور معصوم مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کا سلسلہ روکنا چاہیے اور مسلمانوں کو بھی اس سے فکرِ آخرت پکڑنی چاہیے اور جہاں بھی مسلمان ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں ان کی مدد کرنی چاہیے ۔ اور توبہ استعفار کرنا ہوگا۔۔۔۔ ورنہ جب اللہ کی پکڑ آجائے تو پھر توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔اس سے پہلے کہ ” توبہ کا دروازہ بند ہو جائے ” اللہ سے معافی طلب اور مظلوموں کی مدد کرنا ہو گی۔