تحریر : جاوید صدیقی برصغیر پاک و ہند میں سو سال قبل سلطنت برطانیہ نے اپنے دور حکومت میں موجودہ پاک و ہند میں ریلوے نظام کا جال پھیلا دیا تھا، ممبئی، کلکتہ، مدراس، بنگال سمیت کراچی کی بندرگاہ سے سامان کی ترسیل برطانیہ کیلئے ہوا کرتی تھی، اُس وقت کے برطانوی گورنروں نے ان علاقوں میں تجارت کے سبب وقت کی کمی کا آسان طریقہ ریلوے کو منتخب کیا حقیقت میں تو برطانیوی حکمرانوں نے تجارت کی ترسیل کیلئے ریل کے نظام کو پھیلا یا تھا لیکن وقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس نظام کو پیسنجرز کیلئے بھی استعمال میں لایا گیا، موجودہ بھارت اور پاکستان برطانیوی حکمرانوں کے اس عمل سے آج تک مستفید ہیں۔
بھارت نے اپنے ریلوے نظام میں مزید بہتری پیدا کی ہے لیکن پاکستان میں وقت کے ساتھ ساتھ ریلوے کو سیاستدانوں نے بے سہارا، لاچار اور بے گھر والی کمزور خاتون کی طرح ہوکر رہ گئی ہے، جو آتا ہے اسے لوٹ کر چلا جاتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ،کوئی دیکھنے اور سننے والا نہیں ، جبکہ محکمے ریلوے کے ذریعے لاکھوں نہیںاربوں روپے کی کرپشن آج تک جاری ہے۔۔۔،کراچی تا پشاور ریلوے لائن انگریزوں نے ہی بچھائی تھی یہی نہیں بالائی علاقوں اور بلوچستان میں بھی ریلوے کے نظام کو پروان چڑھایا!! معزز قائرین! موجودہ دور میں کراچی شہر میں عوام الناس کو کم قیمت میں سفر دینے والی سرکلر ریلوے کا جنازہ اس بھیانک انداز میں نکالا گیاکہ اس کی روح کو دوبارہ پیدا کرنا نا ممکن بنا دیا گیا ہے، اس عمل میں جہاں سندھ حکومت میں اقتدار رہنے والی سیاسی جماعتوں کا قصوروار ہے وہیں وفاق بھی کسی طور کم نہیں۔۔! بات کراچی کی ہے تو سندھ حکومت اور بلخصوص کراچی کے منتخب نمائندگان کی ذمہ داری بہت زیادہ عائد ہوتی ہیں لیکن ٹرانسپورٹ مافیہ کے ساتھ ملی بھگت کرکے از خود اس کو برباد کردیا گیا ہے۔۔۔،کئی بار مختلف سندھ اور وفاق حکومتوں نے اعلانات تو بہت کیئے کہ ہم کراچی سرکلر ریلوے کے نظام کو بحال کریں گے لیکن صرف بیانات تک محدود رہے۔۔۔۔، یہی وجہ ہے کہ کچھ لینڈمافیا کے لوگوں نے سرکلر ریلوے لائن پر اس قدر کچرا اور غیر قانونی عمارتیں بناڈالیں ہیں اور تو اور کہیں کہیں ریلوے ٹریک اکھاڑ کر بیچ ڈالےبھی ہیں ، اب اس ٹریک کا قابل استعمال بنانا ناممکنات میں سے ایک ہوگیا ہے۔
Karachi Circular Railway
کراچی سرکلر ریلوے کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یہ ٹریک کراچی کے انتہائی مصروف ترین اور گنجان ترین علاقوں سے گزر رہا ہے ۔۔!!یہ ٹریک شاہراہ فیصل ،شاہ فیصل ٹاؤن، ڈرگ روڈ، گلشن اقبال، گلستان جوہر، عزیز آباد، ایف سی ایریا، لیاقت آباد، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، پاپوش، سائٹ انڈسٹریل ایریا،ماری پور، مچھر کالونی، مسرور بیس اورکیماڑی وغیرہ شامل ہیں۔!!معزز قائرین! آج میں نے اپنے کالم کیلئے یہ عنوان اس لیئے منتخب کیاہے کہ اس کی انتہائی اشد ضرورت ہےکیونکہ اس کی تباہی سے عوام کوشدید سفری مشکلات کا سامنا ہے ، میں یہاں حکام بالا ، با اختیار ذمہ داران ،وزرا، مشیران اور افسران کی توجہ اس طرف مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان ریلوے کی اس زمین پر اب جو بھی بچا کچا ٹریک ہے اسے نکال کر فی الفور فروخت کردیا جائے اور اس رقم کو محکمہ ریلوے کے دیگر شعبوں کی بہتری ترقی کیلئے استعمال میں لایا جائے دوسرا یہ کہ اس ٹریک پر بہترین مضبوط روڈ بنادیا جائے تاکہ اندرون شہر کیلئے آسان کم وقت میں سفر ممکن بن سکے، خستہ پلوں کی دوبارہ تعمیر کی جائے اور ٹریک سے منسلک تمام سرکاری اراضی کے قبضے کو خالی کراکر شاہراہ کیلئے استعمال میں لایا جائے۔۔۔۔۔!! یوں تو کراچی میں گرین بس ٹریک کا تعمیرات کے کام کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے لیکن اس کے مکمل ہونے کے بعد بھی کراچی کے ٹریفک کے مسائل میں سوائے چند فیصد بہتری کے کچھ حاصل نہیں ہوگا، زیادہ فائدہ حاصل کرنے کیلئے سرکلر ریلوے ٹریک کو سرکلر روڈ میں تبدیل کرنا وقت کی اشد ضرورت بن گیا ہے۔۔۔!! درمیان میں آنے والے پرانے ریلوے پھاٹکوں پر اوور ہیڈ برج بنادیئے جائیں تاکہ یہ ٹریک براہ راست بغیر کسی رکاوٹ کے متواتر ٹریفک کی روانی کیلئے کار آمد ثابت ہوسکے۔۔۔۔۔!! اگر اس ٹریک پرگزشتہ دور کی طرح سست روی اختیار کی گئی تو لینڈ مافیا ٹریک کی تمام اراضی کو اپنی چالاکیوں کے سبب ہڑپ کرجائیں گے اور کراچی کی عوام اس ٹریک کے فائدہ سے محروم ہوکر رہ جائے گی۔
حالیہ دنوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کراچی کے حوالے سے بہت بیانات دے چکی ہے اور اپنی ہمدردیوں، خلوص اور نیک نیتی کو کراچی کے باشندوں کو مسلسل یقین دہانی کراتے چلے آرہے ہیں ،اس عمل میں سب سے زیادہ خود پارٹی کے روح رواں بلاول بھٹو اورآصف علی زرداری کے احکامات جاری ہوتے رہے ہیں کہ کراچی کی ترقی کیلئے کوئی بھی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے اور تمام تر وسائل کو بروئے کار لائے جائیں دوسری جانب کراچی سے بھاری تعداد میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعت ایم کیو ایم نے بھی بہت نعرے، دلاسے، یقین دلائے لیکن ان دونوں سیاسی جماعتوں کی جانب سے آج تک عملی اقدامات نظر نہیں آئے۔۔، موجودہ میئر وسیم اختر اور ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر فاروق ستار بھی سرگرمی پیش کرنے کیلئے آئے روز میڈیا کے سامنے آتے ہیں لیکن سید مراد علی شاہ اور فاروق ستار کراچی کی ترقی کیلئے باتوں تک محدود رہتےہیں۔۔۔!! پی ایس پی کے رہنماؤں کے دعوے اور دلاسے بھی ان دونوں جماعتوں سے پیچھے نہیں لیکن کیا یہ اپنے گزشتہ ادوار کو بھول گئے جہاں کراچی کے فنڈ کے استعمال درست سمت نہ ہوسکے تھے اور اب بھی یہی حال نظر آرہا ہے۔ ۔۔!!
سندھ حکومت نے اپنے سات سالہ جمہوری دور میں کراچی کی ترقی کیلئے کوئی فنڈ ریلیز نہیں کیا جس کی وجہ سے کراچی کے تمام علاقوں کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ، کراچی جو میٹروپولیٹن شہر ہے لیکن اس کاحال کسی دیہات سے کم نہیں ، کراچی میں پاکستان کے ہر شہر، ہر دیہات سے آئے ہوئے لوگ بھی آباد ہیں۔۔۔ مگرکراچی کیلئے حکومتی سطح پر یتیموں ، مسکینوں اور سوتیلے بھائیوں جیسا برتاؤ غیر مناسب اور غیر جمہوری عمل ہے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت اور وفاق کراچی کی سرکلر ریلوے ٹریک کو کس طرح فحال بنائے گی کیا یہ دونوں حکومتیں ایک بار پھر اس میں اپنے اپنےبھاری کمیشن کے ذرائع تلاش کریں گے یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ سندھ حکومت، لوگل گورنمنٹ کراچی اور وفاق کس طرح مخلص ہوکر کراچی کیلئے جامع پلان تیار کرتے ہیں اور بگڑتے، برباد ہوتے کراچی سرکلر ٹرین/ ٹریک کو آیا روڈ کی شکل میں تبدیل کرتے ہیں کہ نہیں یا پھر بس اعلانات و بیانات تک محدود رہیں گے۔۔۔۔
Javed Siddiqui
تحریر : جاوید صدیقی نیوز پروڈیوسر، اے آر وائی نیوز، کراچی ای میل: Journalist.js@hotmail.com رابطہ: 03452311022 & 03218965665