تحریر : مسز جمشید خاکوانی اس بار سوشل میڈیا پر جس طرح دسمبر کا مذاق بن رہا ہے اسے پڑھ کر ہنسی بھی آتی ہے اور بہت کچھ یاد بھی آتا ہے ” بھیگا بھیگا دسمبر” اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے” دسمبر اداس ہے” لوٹ آئو کہ دسمبر آ گیا ہے ” اور اس پر باقائدہ غزلیں اور گیت بنے ہوئے ہیں خود میں نے بھی اس پر ایک کالم لکھا جو بہت مشہور ہوا تھا ایک غزل بھی لکھی جس کاعنوان تھا دسمبر اداس ہے لیکن اس بار دسمبر ایک مذاق بن گیا ہے بھیگا بھیگا دسمبر تو خواب ہوا ایک بوند پانی کی نہیں پڑی ہمارے علاقوں میں نہ سردی کا نام و نشاں ہے لگتاہے اکتوبر چل رہا ہے ہاں وہ اک بے نام سی اداسی ضرور فضائوں میں رچی بسی ہے جو دسمبر کا خاصا ہے اداس سرمئی شامیں، دھندلا آسمان، ستاروں سے خالی، بے نور سا چاند، سڑکوں کی رونق بھی ماند پڑ جاتی ہے دل خواہ مخواہ ہی بوجھل ہونے لگتا ہے۔
ہمارے بچپن میں دسمبر بھیگا بھیگا ضرور ہوتا تھا ہر موسم اپنے جوبن کے ساتھ آتا تھا ہر موسم کا اپنا حسن اور اپنے پکوان ہوتے تھے بڑے سارے باورچی خانے میں درمیان میں رکھا تین ٹانگوں والا لوہے کا چولہا چولہے پہ رکھا بڑا سا سماوار جس میں کبھی پشاوری قہوہ ابلتا ،کبھی دودھ پتی،تو کبھی کشمیری چائے چھت پہ بنی چمنی سے نکلتا دھواں ملگجے آسمان کی طرف جاتا رہتا اندر دمکتے چہروں والے لوگ موسم کا مزہ اٹھاتے چولہے کے ارد گرد بچھی سندھی رلیوں کے اوپر مخمل کے گدے بچھ جاتے اور مخمل کے سرخ ،سبز گلابی گائو تکیے رکھ دیے جاتے سارا گھر ایک جگہ جمع ہوتا مونگ پھلی اور چلغوزے کھا کھا کر چھلکے آگ میں پھینکتے جاتے ایک سوندھی سوندھی خوشبو پورے ماحول کا احاطہ کر لیتی ۔دادی اماں اور دائی اماں باری باری قصے کہانیاں سناتی جاتیں نہ لوڈ شیڈنگ تھی نہ کوئی ٹینشن کہانیوں میں ہی بڑے سبق پوشیدہ ہوتے تھے جو معصوم بچوں کی ذہنی تربیت کرتے دسمبر میں ہی امتحان ہوتے تھے دادی ہر بچے کے بازو پر امام ضامن باندھتیں اپنی نگرانی میں ورقی پراٹھے بنواتیں اور تازہ دہی کے ساتھ زبر دستی کھلاکر سکول بھیجتیں ان کا ماننا تھا کہ دہی کھانے سے بچے پاس ہو جاتے ہیں۔
ڈبل روٹی کے سخت خلاف تھیں لنچ میں بھی انڈہ پراٹھا ساتھ جاتا ،گھر میں خالص دودھ کی افراط تھی کوئی بچہ دودھ پیے بغیر سونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا پستے بادام کاجو اور چلغوزوں سے بچوں کی جیبیں بھری رہتیں تب بچوں کی آنکھیں بھی ستاروں کی طرح دمکتی تھیں کالے ریشم جیسے بال گلاب جیسی رنگتیں حسن میک اپ کا محتاج نہ تھا وہ تین بہنیں بھی ایسی ہی تھیں لامبے قد لامبے بال گلاب جیسی رنگتیں وہ چھوٹی دادی کے جیٹھ کی بیٹیاں تھیں اوپر تلے کی وہ بہنیں پڑھنے کا بہت شوق رکھتی تھیں تین ہی بھائی جو بہت پڑھے لکھے تھے ایک ڈاکٹر ایک وکیل تو ایک باہر سے پڑھ کر آیا تھا مگر عورت کی ازلی بد قسمتی کہ بہنوں پر پڑھنے پابندی لوگ کیا کہیں گے رئیسوں کی بیٹیاں جوان جہان ہو کے ٹکے ٹکے کے اسکولوں میں جاتی ہیں۔
December Weather
آخر جو بھائی باہر سے پڑھ کے آیا اس نے جرت دکھائی اور گھر میں استانی آنے لگی لڑکیاں جلد ہی چھ جماعتوں تک پڑھ گئیں مسلہ پھر آ پڑا کہ آگے پڑھائی کیسے ہو اس بھائی نے اپنی ہی زمینوں پر گھر کے پاس ہی اسکول بنوا دیا شہر سے استانیاں منگوائی گئیں یوں لڑکیوں نے میٹرک کر لیا ہم تو شہری ہونے کے ناطے ان کو بہت ماڈرن لگتے تھے یہ ان کے دل کا ارمان بن گیا کہ ان کے علاقے کے بچے بھی ہماری طرح یونیفارم پہن کر اسکول جائیں ،بڑی مشکل سے ان کو اجازت ملی اور وہ اسی اپنے اسکول میں اپنی بستی کے بچوں کو پڑھانے لگیں وہ ان کو یونیفارم اور کتابیں بھی خود ہی مہیا کرتیں ہم ان آپائوں کے دلدادہ تھے یہاں میں ان کے نام نہیں لکھ سکتی جتنی خوبصورت وہ خود تھیں اتنے خوبصورت ان کے نام تھے مجھے وہ بہت پیار کرتیں گود سے اترنے نہ دیتیں منہ چومتے ہوئے ایک با ت ضرور کہتیں ” سوہنڑی دھی اللہ تیڈے نصیب سوہنڑے کرے ” نصیب سوہنڑے نہ ہوون تاں حسن وی مٹی وچ مل ویندے” دسمبر میں ان پر خاص اداسی کا دورہ پڑتا وہ بولائی بولائی سی حویلی کے کمروں اور دالانوں میں چکراتی پھرتیں ہمارے ہوش سنبھالنے تک انکی عمریں ڈھل چکی تھیں تب پتہ چلا انکی شادیاں ہو چکی ہیں۔
قران پاک سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وہ روگ تھا جو ان کے نصیب کھا گیا خاندان میں ان کا جوڑ نہ تھا اور غیروں کو دینے کی صورت میں جائیداد اور مربعے بھی دینے پڑتے ،وہ وقت سے پہلے ہی بوڑھی لگنے لگیں گالوں کے گلاب مرجھا گئے لمبے سیاہ بال سفید ہونے لگے وہ اپنے اسکول میں گائوں کے بچوں کو پڑھاتی رہیں ایک بہن چالیس برس کی ہو کر مر گئی دوسری دو کا کیا بنا کچھ علم نہیں بس مجھے ان کی چند باتیں یاد آتی ہیں کہ اس مہینے میں بڑی اداسی ہوتی ہے اس کی راتیں لمبی ہوتی ہیں جو کاٹے نہیں کٹتیں حویلی میں برگد کا بہت بڑا درخت تھا جس کا سایہ چھتوں تک آ گیا تھا دسمبر کا ٹھٹھرا ہوا چاند اس مہیب سائے میں بڑا کمزور لگتا ہم خوف سے آپا کی گود میں چھپ جاتے تب انکی آنکھوں سے آنسو گرتے جو میرے بالوں میں جذب ہو جاتے شائد اس لیے میں نے بہت چھوٹی عمر سے ہی سوچنا سیکھ لیا تھا۔
میری کھوجی فطرت ان لمحوں کی کھوج میں رہتی جو عورت کی قسمت کو بدل نہیں سکیں آج بھی ہمارا دیہاتی معاشرہ وہیں کھڑا ہے جہاں جائیدادیں بچانے کے لیے جوان بیٹیوں اور بہنوں کی یا تو قران سے شادی کر دی جاتی ہے یا بے جوڑ رشتوں میں کھپا دیا جاتا ہے۔ یہ حال دھن والوں کا ہے جبکہ غریب لڑکیاں یا وٹے سٹے کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں یا باغی ہو کر قتل کر دی جاتی ہیں عورت کو کہیں چین نہیں عورت کو کہیں امان نہیں ،حسین عورت کو سیڑھی بنا لیا جاتا ہے اور واجبی شکل کی عورت پیڑھی بن جاتی ہے بحر حال عورتوں کے مقدر ملتے جلتے ہی ہوتے ہیں بقول شاعر دل کے آنگن میں روتی رہیں حسرتیں۔۔۔۔آنکھ زندہ رہی خواب مرتے رہے!