تحریر : سید توقیر زیدی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر حالات جلد بہتر ہوں گے۔ کندھوں پر بھاری ذمے داری آ گئی ہے، اس پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا اور قوم کو مایوس نہیں کروں گا۔ پاک فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد میڈیا کے نمائندوں اور صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے مشورہ دیا کہ ملک و قوم کے لئے مثبت انداز میں لکھیں مایوسی کی باتیں نہیں ہونی چاہئیں سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے الوداعی خطاب میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے جارحانہ اقدامات نے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے، خطے میں دیرپا امن مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔ ہماری تحمل کی پالیسی کو کمزوری سمجھنا خود بھارت کے لئے خطرناک ہو گا۔
پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے دشمن اپنی دشمنی ترک کر کے اس کے ثمرات میں شریک ہوں۔ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد لازمی ہے، دفاع وطن کے لئے پاک فوج مضبوط ترین دیوار ہے اندرونی و بیرونی خطرات سے نپٹنے کے لئے پاک فوج مصروف رہے گی۔ ہم نے دہشتگردی کے خلاف لڑ کر تاریخ کے دھارے کو موڑا اور قوم کو نئی امید دی ہے، مکمل امن کی جانب ہمارا سفر جاری ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل (ر) راحیل شریف نے مختصر الفاظ میں ملک و قوم کو درپیش مسائل و مشکلات کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت بھارت نے کنٹرول لائن کا محاذ گرم کر رکھا ہے اور روزانہ کسی نہ کسی انداز کی خلاف ورزی کی اطلاعات آتی رہتی ہیں، بھارتی گولہ باری سے فوجی اور سول جانی نقصان بھی ہوتا رہتا ہے تاہم مقام اطمینان ہے کہ پاکستان کی فوج پوری قوت سے بھارتی اشتعال انگیزیوں کا جواب دے رہی ہے اور آرمی چیف کا یہ خیال اور اندازہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ کنٹرول لائن پر حالات جلد بہتر ہو جائیں گے۔ کیونکہ پاک فوج نے جس تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل ہو کر کوئی ایسا سخت اقدام نہیں اٹھایا جس کی وجہ سے جنگ کا دائرہ پھیل جاتا۔ بھارتی فوج کی خواہش تو بظاہر یہی لگتی تھی کہ پاکستانی فوج کو مشتعل کر کے جال میں پھنسایا جائے، لیکن ایسا نہیں ہوا تو بھارت اب مایوس ہوگیا ہے، بھارت کی اشتعال انگیزی کا مقصد یہ بھی تھا کہ دنیا مقبوضہ کشمیر کے حالات کو بھول کر کنٹرول لائن پر توجہ مرکوز کر لے لیکن ایسا بھی نہیں ہو سکا کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا سلسلہ اس قدر سنگین ہے کہ اس سے توجہ ہٹائی ہی نہیں جا سکتی ا ور نہ کوئی حساس انسان ان مظالم سے صرف نظر کر سکتا ہے جو بھارتی فوجیں کشمیر میں روا رکھ رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے اندر بھی اب ایسی آوازیں پوری شدت کے ساتھ اٹھ رہی ہیں کہ بھارتی قیادت دست ظلم کو روکے اور کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کرے۔
Line of Control
بھارت کے وزیر اعظم کے پیش نظر دوسرا مقصد یہ بھی تھا کہ آئندہ چند ماہ میں بھارتی ریاستوں میں جو انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان میں ووٹروں کو پاکستان کے نام پر گمراہ کر کے ان سے ووٹ حاصل کئے جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ سادہ لوح ووٹر مودی کے جھانسے میں آ جاتے لیکن ”نوٹ بندی” کے فیصلے نے پورے بھارت کی معیشت کو جھٹکا دیا ہے اور لوگوں کو سراپا احتجاج بنا دیا ہے اور اس وقت حالت یہ ہے کہ کولکتہ، ممبئی، دہلی اور دوسرے بڑے شہروں میں حکومت کے خلاف جلوس نکل رہے ہیں۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی نے تو یہ اعلان کیا ہے کہ وہ مریں یا جئیں نریندر مودی کو اقتدار سے ہٹا کر دم لیں گی۔ بھارت کی حزب اختلاف کانگرس پارٹی اور دوسری علاقائی جماعتیں بھی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج کر رہی ہیں چونکہ اس فیصلے کی وجہ سے بھارتی معیشت سست روی کا شکار ہوگئی ہے، لوگ بارٹر پر اشیاء خرید رہے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق شرح نمو 2 فیصد تک کم رہنے کی امید ہے۔ بڑے نوٹ بند ہونے کی وجہ سے کاروباری لوگوں کو سخت پریشانی ہے بینکوں میں جو نئے نوٹ آتے ہیں وہ دو تین گھنٹے میں ختم ہو جاتے ہیں۔ ملک میں 22لاکھ اے ٹی ایم مشینیں ہیں جنہیں نئے نوٹوں کے مطابق ایڈجسٹ کرنے کے لئے وقت لگتا ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اے ٹی ایم مشینیں پھوک مارنے اور پلک جھپکنے سے تو ایڈجسٹ نہیں ہو سکتیں اور نہ بیک وقت اتنے کاریگر دستیاب ہیں جو 22لاکھ مشینوں کو درست کر سکیں۔
ریزرو بینک آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق جو نوٹ منسوخ کئے گئے ہیں ان کی جگہ اتنے ہی کرنسی نوٹ چھاپنے کے لئے مہینوں تک سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کو چالو رکھنا پڑے گا، اس دوران مودی کے اس دعوے پر کوئی یقین کرنے کے لئے تیار نہیں کہ حالات 50دن میں درست ہو جائیں گے۔ ان حالات میں مودی کی جماعت ریاستی انتخابات میں تو توقع کے مطابق کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی، کنٹرول لائن کا محاذ گرم کر کے بھی بھارت اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا، اس لئے بہترین راستہ تو یہی تھا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرتا لیکن فی الحال وہ ادھر بھی نہیں آ رہا ان حالات میں بہتر وقت کا انتظار ہی کرنا ہو گا اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے کنٹرول لائن کے حالات بہتر ہونے کی جو بات کی ہے، وہ درست ہوتی ہوئی نظر آتی ہے کیونکہ ریاستی الیکشن کا وقت گذر گیا تو پھر مودی کے اندازے بھی غلط ثابت ہوں گے اور وہ ٹھنڈے ہوکر بیٹھ جائیں گے۔
جنرل (ر) راحیل شریف نے اپنے الوداعی خطاب میں بڑی بصیرت افروز باتیں کی ہیں اور خاص طور پر سی پیک کے مخالفین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس کی مخالفت ترک کر کے اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھائیں۔ جنرل (ر) راحیل شریف نے سی پیک کی حفاظت کے لئے آرمی کے دستوں پر مشتمل خصوصی سیکیورٹی فورس تشکیل کر کے اس کے مخالفین کو یہ پیغام دیدیا تھا کہ وہ اس اہم منصوبے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کریں، خفیہ اور در پردہ سازشوں سے بھی بازرہیں دیکھا یہ گیا ہے کہ پاکستان کے بعض عناصر مودی کی محبت میں اس اہم منصوبے کے بارے میں دانستہ شکوک و شہبات پیدا کر رہے تھے اور اس سلسلے میں نت نئی پھل جھڑیاں چھوڑ رہے تھے۔ جن کا مقصد سوائے منصوبے کو معرض تعویق میں ڈالنے کے اور کچھ نہیں تھا ان لوگوں میں بعض سیاستدان اور ان کے آلہ کار شامل تھے۔ لیکن جب در? خنجراب سے مغربی روٹ پر چینی ساز و سامان کا پہلا قافلہ حفاظت اور سلامتی کے ساتھ گوادر پہنچ گیا اور وہاں سے بحری جہاز کے ذریعے اپنی اگلی منزلوں کو روانہ ہو گیا تو مخالفین کے ارادوں پر اوس پڑ گئی جو حیلوں بہانوں سے اس روٹ کے خلاف اپنے خبثِ باطن کا اظہار کر رہے تھے جب پہلا قافلہ اور پہلا جہاز چل پڑا تو وہ مایوس ہو گئے، سی پیک اتنا اہم منصوبہ ہے کہ جنرل(ر) راحیل شریف نے اپنی الوداعی تقریر میں بھی اس کا ذکر ضروری سمجھا اور مخالفین کو مشورہ دیا کہ وہ مخالفت کی بجائے اس کے ثمرات سے مستفید ہوں یہی بہترین مشورہ ہے۔ جنرل راحیل شریف نے اس سال کے شروع میں اعلان کیا تھا کہ نومبر دسمبر میں گوادر بندرگاہ سے چینی ساز و سامان کی آمد و رفت شروع ہو جائیگی انہوں نے اپنے عزم سے اس کو ممکن کر دکھایا جس پر وہ خصوصی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اخبارات سے کہا ہے کہ مایوسی کی باتیں نہ پھیلائیں اور ملک و قوم کے حق میں اپنا قلم استعمال کریں یہ مشورہ بھی ان عناصر کے لئے مشعل راہ ہے جو صبح و شام نیوز چینلوں پر نہ صرف مایوسی پھیلاتے ہیں بلکہ ڈس انفارمیشن کا طوفان بھی اٹھائے رکھتے ہیں امید ہے میڈیا اور اخبارات اس طرف توجہ دیں گے۔