تحریر: سجاد علی شاکر اس وقت پاکستان حقیقی معنوں میں ترقی کرنے اور اقتصادی طور پر مستحکم ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان وژن 2025ء میں متعین کئے گئے اہداف اور انکے حصول کیلئے بیان کی گئی حکمت عملی اس بات کی آئینہ دار ہے کہ یہ ملک ترقی کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ بازاروں سے ملنے والے مثبت اشاروں اور نوجوانوں کی روز افزوں آبادی کا تقاضہ ہے کہ پاکستان دنیا کو یہ باور کرائے کہ وہ کاروبار کیلئے کھلا ہے۔ تجارت ،سرمایہ کاری اورکاروبار شروع کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوںکو ختم کرنے سے تجارت کے مواقع بڑھیں گے اور اقتصادی ترقی ہو سکے گی ،دنیا کا کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی و خوشحالی حاصل نہیں کرسکتا جب تک وہ معاشی و اقتصادی طور پر مضبوط نہ ہو اور معاشی و اقتصادی طور پر استحکام حاصل کرنے کیلئے ملک میں پیداوری عمل کا مستحکم و مضبوط ہونا اور ملک میں تیار شدہ مصنوعات کی برآمدات کی حوصلہ افزائی کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ آج جاپان، ملائشیائ، انڈونیشیا حتیٰ کہ بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ جیسے ملک بھی اپنی تیار شدہ مصنوعات کو ترجیح دیکر اپنے ملک کی معیشت اور کرنسی کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے جارہے ہیں اور اسکے برعکس پاکستان میں ایڈہاک ازم کی پالیسی اور عالمی مالیاتی اداروں کے دباو کی وجہ سے ہمارے ارباب اختیار پیداواری شعبہ کو مسلسل نظر انداز کئے جارہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہماری برآمدات کا بڑا حصہ ہمارا خام مال یعنی روئی ، روئی سے بننے والا دھاگہ اور خام چمڑا بن چکا ہے۔ 2011ـ2013 کے اشاریوں کیمطابق پاکستان میں خام روئی اور کاٹن یارن کی برآمد میں 67فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ تیار شدہ مصنوعات کی برآمدات میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے۔اسکی وجہ یہ ہے پاکستان کے خام مال سے آج بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، چین، کوریا، جاپان و دیگر ممالک اپنے ملک میں گارمنٹ، بیڈ لینن، ٹیری ٹاول، بیڈ شیٹ اور دیگر مصنوعات بناکر برآمد کررہے ہیں اور اپنے ملک کیلئے کثیر زرمبادلہ حاصل کررہے ہیں۔ اسی خام مال کو اگر ہم پاکستان سے پاکستانی مصنوعات تیار کرکے یورپ و امریکہ میں جانے والی برآمدات میں اضافہ کرتے تو ان برآمدات کی وجہ سے پاکستان کو کثیر زرمبادلہ حاصل ہوتا کیونکہ اگر ہم ایک کلو خام روئی یا ایک کلوکاٹن یارن پاکستان سے برآمد کرتے ہیں تواس سے ہمارے ملک کو اگر ایک ڈالر ملتا ہے تو اسی ایک کلو خام روئی یا کاٹن یارن سے تولیہ بناکر برآمد کیا جائے توہمیں تقریباً چھ سے آٹھ ڈالرز ملتے ہیں۔
Export Shirt
بیڈ شیٹ یا پلو بناکر برآمد کرتے تو دس سے بارہ ڈالرز حاصل ہوتے اور اگر اسی ایک کلو خام روئی سے شرٹ یا ٹراوزر بناکر برآمد کرتے تو ہمیں بیس سے پچیس ڈالرز زرمبادلہ کے طور پر ملتے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پالیسی ساز اداروں میں گذشتہ اٹھاسٹھ سالوں سے عالمی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر چلنے والے مشیران براجمان ہیں جن کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے کہ پاکستان کو صنعتی ملک کے بجائے تجارتی ملک بنادیا جائے۔ انکی انہی پالیسیوں کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر صنعتیں بند ہورہی ہیں اوربے روزگاری کا تناسب روز بروز بڑھ رہا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ دورہ چین کے دوران وزیر اعظم نے جن دس لاکھ پاکستانی نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے وہ اس وقت تک صرف نعرہ کی صورت میں باقی ہی رہے گاجب تک اس کیلئے کوئی عملی اقدام نہ اٹھائے جائیں کیونکہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اگر ملک میں فرشتوں کی حکومت بھی آجائے تو وہ ملک کے دس لاکھ نوجوانوں کوفی الفور اپنے اداروں میں ملازمت نہیں دلا سکتے الا کہ پیداوری یونٹ نہ بنائے جائیں۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے پیداواری عمل کو پوری قوت اور توجہ کے ساتھ بڑھانے کی طرف پیش قدمی کریں اور اس کیلئے ایسے معاشی ماہرین کی کمیٹی بنائی جائے جن کو پاکستان کے زمینی حقائق کا ادراک بھی ہو اور ان کا اس مٹی سے تعلق بھی مضبوط ہونا چاہیے ان سے سفارشات لے کر پیداواری عمل کی طرف کام شروع کرنا چاہیے۔اس سلسلے میں ایک بنیادی پالیسی کی طور پر خام مال کی برآمد کی حوصلہ شکنی کی جائے جیسا کہ آج ہمارے پڑوسی ممالک بھارت، بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ وغیرہ کررہے ہیں۔ اسکے علاوہ سب سے پہلے عمل کے طور پر پاکستان میں باقی ماندہ صنعتوں کو سال کے 365 دن چلانے کا انتظام وانصرام کیا جائے اسی میںہمارے ملک ، ہمارے پیداواری عمل اورہماری معیشت کی بہتری ہے کیونکہ عموماً ہمیں دوسرے ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں تو یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ اس وقت کوریا ، جاپان یا کئی دیگر ممالک میں صنعتی اداروں کا بند ہونا تو کجا اگر وہاں کے مزدور اپنے کسی مطالبہ کے حق میں احتجاج یا ہڑتال کا اعلان بھی کریں تو وہ بھی کام بند کرکے نہیں کام کو جاری رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے ملک کے ساتھ مخلص و وفادار ہوتے ہیں۔
اسی طرح سے اگر آج ہمارے پالیسی ساز اداروں میں بیٹھنے والے اپنے ملک و قوم کے ساتھ صرف نعروں اوراعلانات کی حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر مخلص ہوجائیں تو ہم بھی مضبوط و مستحکم پاکستان کی طرف قد م اٹھاسکتے ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک میں تیار شدہ مصنوعات کی برآمدات کو فروغ دیںاور انجینئرنگ ، آٹو انجینئرنگ ، کیمیکل اور مواصلات کی جانب ٹیکنالوجی کے ساتھ قدم اٹھائیں تو اسی طرح ہم اپنے ملک کی معیشت کو بھی مضبوط کرسکتے ہیں اور کرنسی کو بھی مستحکم کرسکتے ہیںاور اسکے بعد دس لاکھ تو کیا بیس لاکھ نوجوانوں کو بھی روزگار مہیا کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت صرف نیک نیتی کی ہے اور جس دن ہمارے جذبوں اور ذہنوں میں نیک نیتی پیدا ہوگئی اس دن ہماری ملک کی ترقی اور مضبوطی کی طرف پہلا قدم ہوگا۔
Sajjad Ali Shakir
تحریر: سجاد علی شاکر فنانس سیکرٹری پنجاب (کالمسٹ کونسل آف پاکستان sajjadalishakir@gmail.com 03226390480