تحریر : کومل سعید زندگی ایک ایسا سفر ہے جہاں ہمیں جگہ جگہ دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان مشکلات سے نبرد آزما ہونے کیلئے ہم مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں اور ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ جب ہمیں کسی رہنماء کی ضرورت محسوس ہو تی ہے جسکی رہنمائی ہمیں درست راستے، درست فیصلے کے تعین میں معاون ثا بت ہو۔ اس میں اگر کوئی سچا رہنماء مل جائے تو اس کی رہنمائی میں وہ مشکلات ہمارے لئے ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہیں۔
انسانیت کی رہنما ئی کے لئے اللہ پا ک نے ایک لا کھ چو بیس ہزار پیغمبر مبعوث فر ما ئے اور وقت کی ضرورت کے مطا بق رہنما ئی آ سما نی کتا بوں کی صورت میں نا زل کی ۔آخری کتا ب قر آن پا ک پیا رے نبی کر یم ۖ پہ نا زل فرما کر جا مع احکا ما ت و رہنما ئی پہنچا دی ۔پیا رے نبی کر یم ۖ کی طرز حیا ت مبا رکہ ہما رے لئے بہتر ین مشعل راہ ہیں ۔گو یا اللہ نے شروع دن سے ہی انسان کو ہر چیز کی ر ہنما ئی فراہم کی ۔انسا نی ز ند گی میں رہنما ئی کے چند اہم مراحل ہو تے ہیں جو اس کے مستقبل کو سنوار بھی دیتے ہیں اور بگاڑ بھی دیتے ہیں اس کا انحصار اس رہنما ئی پہ ہو تا ہے ۔پہلے مرحلہ پہ رہنما ئی کے فرائض ماں سر انجا م دیتی ہے ۔بچہ جیسے جیسے آ گے بڑ ھتا ہے اسے رہنما ئی کی ہر قدم پہ ضرورت محسوس ہو تی ہے ۔ماں کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنے بچے کی تر بیت و رہنما ئی پہ کو ئی سمجھو تہ نہ کر ے ،اس کی رہنما ئی و تر بیت ہی بچے کو صحیح و غلط کے تعین میں مدد دیتا ہے۔
ایک واقعہ بچپن میں امی جی نے سنا یا تھا کہ ایک بچہ ذرا بڑ ھا ہوا تو ماں کی غفلت سے غلط عادات کا شکار ہو گیا مگر ماں نے تو جہ نہ دی یہاں تک کہ وہ ایک دن چوری کر کے بہت سے پیسے گھر لا یا ماں صد قے واری ہو گئی کہ میرے لعل نے بہت پیسے کما ئے مگر یہ پو چھنے کی زحمت نہ کی کہ اتنے پیسے کس ذریعے سے کما ئے ،بیٹے کو بھی بات دل کولگ گئی سو وہ روز چوری کر نے لگا اور ایک وقت ایسا آ یا کہ وہ ایک بہت ماہر چور بن گیا با لا آ خر پو لیس کے ہتھے چڑ ھ گیا مقدمہ چلا عدالت میں جب جج نے پو چھا کہ اپنی صفا ئی میں کچھ کہنا چا ہو گے تو لڑ کا بو لا “جج صاحب! سزا مجھے نہیں میری ماں کو ملنی چا ہیے کیونکہ اگر پہلے ہی دن میری ماں نے مجھ سے پو چھا ہو تا کہ کما ئی کہاں سے کس ذریعے سے کی اور پھر مجھے چوری سے روکتی تو آ ج میں عدالت میں ایک مجر م کے طور پہ نہ کھڑا ہوتا “یہ سن کر عدالت میں مو جود اس کی ماں شرم سے زمین میں گڑ گئی مگر اب پچھتا ئے کیا ہو ت جب چڑ یاں چُگ گئیں کھیت ۔۔۔۔یہ صرف ایک واقعہ تھا جو حقیقت ہے یا من گھڑت یہ تو معلوم نہیں مگر اس میں بہت بڑا سبق ہے آ ج کل کی مائوں کیلئے اور باقی تما م ان لوگوں کیلئے بھی جو کسی نہ کسی طرح رہنما ئی کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
Mother Child
آج کل کے اس مشینی دور میں انسان اس قدر مصروف ہو چکا ہے کہ میلوں دور بیٹھے انسان کی ،دوست ،عزیز کی خبر ہے مگر خود پاس بیٹھے انسانوں کی کوئی خبر نہیں کہ کیا کر رہے ہیں کیا کر نا چا ہتے ہیں اور کیا کہنا چا ہتے ہیں ،میرا اشارہ مو با ئل فون کے بے دریغ استعمال کی طرف ہے ۔اکثر مائیں بچوں کو وقت نہیں دیتیں،جب بچے ان کا وقت ان کی تو جہ چا ہتے ہیں تو وہ ان کو بھی مو با ئل پہ کو ئی گیم لگا کر مصروف کر دیتی ہیں یوں آہستہ آ ہستہ بچے اس کے عادی ہو تی چلے جا تے ہیں اور ایک وقت ایسا آ تا ہے کہ ما ئیں اپنے بچوں کی تو جہ چا ہتی ہیں مگر بچے صرف گیمز کی جا نب ہی متو جہ رہتے ہیں ،اکثر اوقات مائوں کی تو جہ اور وقت نہ ملنے پہ بچے اپنی تشفی کیلئے دوسری سرگرمیوں کی طرف راغب ہو جا تے ہیں جو کسی طور درست نہیں ۔اسلئے بچوں کو ہر چیز فراہم کر کے فرائض کی ادائیگی سمجھ لینا بھی ٹھیک نہیں ،ماں کی تو جہ ان کا پیار ان کی پو چھ گچھ کی بچوں کو بہت ضرورت ہو تی ہے اور یہ آ گے چل کر بچے کیلئے بہت کار آ مد ثابت ہو تی ہیں۔
اگر یہ کہا جا ئے کہ یہ رہنما ئی بچے کی ز ند گی کا پہلا ستون ہو تی ہے اور اس کی ز ند گی کو مثبت راہ پہ چلا نے کی ضا من ہو تی ہے تو بے جا نہ ہو گا ۔ماں کے بعد استاد کی رہنما ئی شخصیت کو نکھا رنے میں مر کزی کراد ادا کر تی ہے اور بچوں کو درست رہنما ئی فراہم کر یں گے تو اس کا مستقبل تا بناک ہو گا اور اس کی ز ند گی کی کا میا بی پہ آ پ کی چھا پ ہمیشہ رہے گی ۔میرے ہا تھوں میں یہ لکھنے کی طا قت خود بخود نہیں آ ئی بلکہ اس کے پیچھے بہت سے مخلص رہنما شا مل ہیں ،میری والدہ محترمہ کا دیا گیا حو صلہ ابر کی طرح میرے ساتھ ساتھ ہے جب بھی کسی مرحلے پہ مشکل آ ئے تو وہی حوصلہ مجھے پھر سے کھڑا کر دیتا ہے ،میرے اساتذہ جنہوں نے میرے ہا تھوں میں قلم تھمایاتھا اور اس شعبے صحافت کے رموز اوقاف سمجھنے والے اور لکھنے پہ اکسا نے والے چئیر مین تحصیل پر یس کلب محترم عبد الرحمن شاد صاحب،شیخ فاروق صاحب جن کی رہنما ئی نے مجھے ایک نام دیا ان کی رہنما ئی نہ ہو تی تو شا ہد آج میں اس مقام پہ نہ ہو تی۔
ہمارے بچے ذہین و فطین ہیں مگر ان کی صلا حیتوں کو سا منے لا نا ان کو پا لش کر نا ہمارے رہنما ئوں کا فرض ہے ۔اگر حقیقت کی نگاہ سے د یکھا جا ئے تو ایک بہتر ین رہنما ء پوری قوم کا اثا ثہ ہو تا ہے ۔تا ریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے رہنما ئوں نے پوری قوم کی ز ند گیوں کے د ھا رے بدل دیئے ۔کسی کو بہتر مشور ہ دینا بھی ایک رہنما ئی ہے جو ہمارے پاس ایک اما نت ہے اگر کسی کو ٹھیک مشورہ دیا تو گو یا اما نت ،حق دار تک پہنچا دی ۔آج کے دور میں ایک سچا اور مخلص رہنما ء کا ملنا مشکل ہے بقول شاعر
کیا، کیا خضر نے سکندر سے اب کسے رہنماء کرے کوئی
Guiding
اس کی بنیادی و جہ مفاد پر ستی اور خود غر ضی ہے۔جہاں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں لوگ مشورے دیتے ہیں اور اس طرح رہنمائی کا ایک فریضہ خود غرضی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ کوشش کر یں کہ کسی کو اچھا مشورہ نہ دے سکیں تو خاموش رہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا غلط مشورہ اور رہنما ئی ان کی زندگی کو غلط سمت میں لے جائے اور ہم تمام عمر اس گناہ کا بوجھ اٹھائے پھرتے رہیں۔ بچوں پہ تو جہ دیں ان کو رہنمائی کی عادت ڈالیں یہی بہتر ز ند گی کی ضامن ہے۔