کون سا قانون اور کونسا تحفظ؟

Law

Law

تحریر : ایم آر ملک
کون سا قانون اور کونسا تحفظ ،آپ سے تو ایک سچ برداشت نہ ہوسکا ضمیر کی لاش کے تعفن پر خوشبو کی چادر نہیں ڈالی جاسکتی ،جذبوں پر ضبط کے بند نہیں باندھے جاسکتے اس روز پریس کلب کو جانے والی شاہراہ پر سراپا احتجاج سارے لوگ پریس کی آزادی سلب کرنے کے خلاف نکلے تھے نیو نیوز کے احمد قریشی نے ایک سچ کو کیا سکرین پر چلایا کہ سارے جمہوری بلبلا اُٹھے سچ ہمیشہ غیر مرئی رفتار سے سفر کرتا ہے مگر پریس کلب کے باہر سراپا احتجاج لوگ یقین کے ساتھ اعادہ کرنے نکلے تھے کہ نیو نیوز ، دن نیوز کی شکل میں سچ پر جتنے کڑے پہرے بٹھا دیئے جائیں سچ آزاد ہوگا اور ہم سچ کو آزاد کرائیں گے ایک متعین صبر کے ساتھ ہماری لاشیں گرتی رہیں مگر صحافتی آزادی کی جدوجہد آہستہ خرام اور دھیرے دھیرے اپنی منزل کی جانب بڑھتی رہی بے دردی سے قتل ہونے والوں کی کراہوں کا پس منظر اب نہیں دب سکتا درد کی تپش آج بھی ہمارے وجود کو جھلسا رہی ہے۔

ہمارے آباء کو مت بھولو جو اس سچ کی خاطر پابند سلاسل ہوئے،شاہی قلعہ کے زنداں گواہی کی مہریںآج بھی ثبت کر رہے ہیں قید تنہائی ،سچ کے ساتھ لگن اور دیوانگی کا عالم جس نے چمکتے سورج اور نیلے آسمان کونظروں سے اوجھل کردیا اور ماضی کے وہ غاصب ،سچ کو نکیل ڈالنے کے خواہاں جن کی دھنسی ہوئی قبروں پر قدم رکھ کر سچ کی صبح طلوع ہوئی اور سچ کا احسا س دلانے والے ،صداقتوں کے امین عبدالرحمان ،احمد قریشی ،ڈاکٹر شاہد مسعود ،دن نیوز چینل کے مصطفےٰ صادق کا سچ زندگی ہے موت نہیں ،اُمید ہے مایوسی نہیں ،صبح ہے شام نہیں،تازگی ہے پژمردگی نہیں ،جدوجہد ہے ہزیمت نہیں وطن عزیز کے ہر باسی کے خواب کو حقیقت بنانے والے سچ کو لگے قفل کے دہانے کھولنے والے ،قبرستان نما خاموشیوں کو زبان دینے والے جب جھوٹ راکھ پر راکھ لاد رہا ہے تو کون سا قانون ہے جو صحافیوں کے تحفظ کیلئے بنایا جارہا ہے کیا ہم وطن عزیز میں آزادی صحافت کو تصوراتی حدتک ہی دیکھ سکتے ہیں عملاً زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔

سول آمریت کے کانوں کے پردے تو ہمیشہ سچ کی گونج سے پھٹتے رہے ،مفتوح صحافت کی ناکام خواہش ہر دور کے حکمرانوں کا مقصد اولین رہا مفتوح صحافت کی ضرورت ایوب خان کو بھی محسوس ہوئی جس نے صحافت کی آزادی کا دائرہ تنگ کرنے کیلئے پی پی او کے نام سے 8ستمبر1963کو اپنے خود ساختہ کالے قانون کے ذریعے پریس کو پابہ زنجیر کرنے کی ناکام خواہش کی مگر 24گھنٹوں کے احتجاج نے آمر وقت کے ارادوں کو متزلزل اورآمریت کو سر نگوں کردیا آزادی صحافت کے کارواں کے آگے ضیائی آمریت کے کوڑے اور مشرف آمریت کا پیمرا آرڈیننس بھی بند نہ باندھ سکا ضیائی آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والوں نے ہمیشہ پریس کو پابہ زنجیر کر نے کی کوشش کی مگر شخصی طاقت کا ظہور ہمیشہ غیر یقینی اور مختصر مدت کیلئے ہوا کرتا ہے۔

Punjab Assembly

Punjab Assembly

2010میں جب پنجاب کے تخت و تاج کے وارث خادم اعلیٰ تھے تو اُس وقت بھی میڈیا کے خلاف ایک ن لیگی رکن اسمبلی ثنا اللہ مستی خیل نے حکومتی آشیر باد سے پنجاب اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی جسے منظور کر لیا گیا اور تخت پنجاب پر بر اجمان حکمران نے ایک جھوٹ یہ بولا کہ مجھے اس قرار داد کا علم نہیں حالانکہ جب یہ قرار داد اسمبلی میں پیش کی جارہی تھی تو موصوف اُس وقت موجود تھے ،بول ٹی وی کے ساتھ ہونے والی انتقامی کارروائی کے پس منظر سے کیا ہم جان چھڑا سکتے ہیں سچ کے عیا ںہونے کا خوف شعیب شیخ کو سلاخوں کے پیچھے لے گیا ، کیا اس بات سے انکار ممکن ہے کہ زندگی کے کئی معاملات ہم سے عاجلانہ فیصلوں کا مطالبہ کرتے ہیں بے شک کشتیاں ساحلوں پر محفوظ رہتی ہیں لیکن کشتیاں سمندروں کیلئے اور طلاطم کا سامنا کرنے کیلئے ہی بنائی جاتی ہیں میڈیا پرسنز اور جمہوریت کا لباس زیب تن کئے ہوئے آمر حکمران ان حقائق کو بھی مد نظر رکھیں میڈیا ہائوسزمیں سچائی کا پرچار کرنے والے صحافی اپنے کڑوے سچ کی سکرین کے پس منظر میں اُبھرنے والے شخصی انتقام کو ہمیشہ مد نظر رکھ کر ہی آزاد صحافت کی پیشانی روشن کرتے ہیں ،یہ ٹی وی چینلز ہی کا کردار ہے کہ حکومتی حواریوں کی فوج ظفر موج پانامہ کیس میں مخالفین کے بارے میں ایسی باتیں کہ جاتے ہیں جن کی اجازت صحافتی آداب بھی نہیںدیتے۔

اقتدار کے اندھے جنون کی نابینا آنکھیں ہمیشہ شخصی خواہشات کے منظر تخلیق کرتی رہیں سچ اسی کو سمجھا گیا جسے حکمرانوں کی سماعت سننا چاہتی تھی آمرانہ اور شخصی حکمرانی کے نزدیک بانگ جرس یہی ہے کہ خاموش رہا جائے چینلز پر اپنے ضمیر کی آواز اُٹھانے والے پرتعیش اشرافیہ پر نچھاور کئے جانے والے ٹیکسوں پر خاموش رہیں ،بول ٹی وی ،نیونیوز ،دن نیوز ،92کے خلاف انتقامی کارروائی کو ہم ان نیوز چینلز پر عوام کے غیر متزلزل یقین کا با آواز بلند اعلان کہہ سکتے ہیں جس سے جمہوری حکمران خائف ہیں اسے ہم تاریخی غلطی کہہ سکتے ہیں کہ حکمران اس بات کا ادراک تک نہیں رکھتے کہ ہر دور کی تبدیلی میں بنیادی کردار میڈیا کا رہا بالا دست طبقات کے خلاف تاریخی جدوجہد سے میڈیا کو نکال دیا جائے تو تاریخ کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔

ہمیں اس بحث کو بھی سمیٹنا ہے کہ حکومت کا ”دست نگر اور خوشامدی میڈیا”محض کاسہ لیسی کیلئے ہی کمر بستہ ہے اور اپنے ہی تخلیق کردہ تضاد میں پھنسا ہوا دلالیکی صحافت میں نظریاتی اصولوں کو متروک اور بے معنی قرار دینے میں کوشاں جبکہ نیو نیوز ،بول ٹی وی ،دن نیوز ،92نیوز ایک ناقابل مصالحت سچائی کے ساتھ فاتح ، اس روز پریس کلب کو جانے والی شاہراہ پر سراپا احتجاج سارے لوگ پریس کی آزادی سلب کرنے کے خلاف نکلے تھے نیو نیوز کے احمد قریشی نے ایک سچ کو کیا سکرین پر چلایا کہ سارے جمہوری بلبلا اُٹھے مگر الیکٹرانک میڈیا پر حب الوطنی ایک نئے پاکستان کے قیام کو ممکن بنا رہی ہے،سچائی کے عارضی جمود میں جمہوریت کے چہرے سے نقاب اُتر چکا تازہ دم وزیر اطلاعات و نشریات کونسے قانون اور میڈیا پرسنز کے کونسے تحفظ کی بات کرتی ہیں؟۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک