تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید ابھی قریباَ ایک گھنٹہ پہلے اس دل دوز حادثے کی اطلاع میڈیا پر نشر ہوئی تو اس خبر نے پورے پاکستان میں ایک تہلکہ مچا دیا۔اس خبر میں کہا گیا تھا کہ گلگت بلتستان سے روانہ ہونے والا پی آئی اے کا طیارہ(PK-661)جسے 4.30 ،اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترنا تھا اترنے سے دس منٹ پہلے ہی انجن کی خرابی کی وجہ سے حویلیاں کے پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا ہے ۔جس میں عملے کے پانچ افراد سمیت 47مسافر سوار تھے ۔ اس بد قسمت طیارے میں ناصرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کی کئی شخصیات محوِ سفر تھیں۔جس میں پاکستان کا لیجنڈگلو کاراوربعد کا لیجنڈ مذہبی رہنما جنید جمشید بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ چترال سے تبلیغی دورے کے اختتام سوار ہوکر آرہاتھا ۔جو مذکورہ طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو کر اللہ کو پیارا ہو کر جاں بحق ہونے والے شہدا کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے ۔اِنا لیلہِ و انا لِلہ و انااِلہِ ر اجعون ،رب مغفرت فرمائے۔جنید جمشید کو میرے رب نے مدحتِ رسول اور تلیغِ دین کے صلے میںجو شہرت بخشی وہ ہرکسی کا مقدر نہیں ہے۔
انجنئرنگ کی تعلیم سے فارغ ہوئے تو موسیقی کی دنیا میںمیں ایسا نام کمایا کہ دنیا محوِ حیرت تھی۔جنید جمشید جس قدر خوبصورت تھا اُس سے زیادہ خوبصرت دل کا مالک تھا ۔جنید کے تمام ملنے والے اور ان کے ایک گلوکار دوست فاخر محمود جن کی دوستی کافی سالوں سے برقرار تھی یہ اعتراف کرتے ہیںکہ بحیثیت انسان جنید جیسے گائیکی کے دور میں تھے۔ویسے ہی اس کے بعد مذہبی حیثیت میں ان کر اخلاق میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ان کی شخصیت میںکوئی تضاد نہ تھا۔ جنید نے 27 سال قبل جو ملی نغمہ”دل دل پاکستان جان جان پاکستان” گایا تھا ۔جس نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر اور بھی اونچا کر دیا تھا اور آج بھی اُسی قدر مقبول ہے۔1998میں جب وہ موسیقی کے میدان میںشہرت کی بلندیوں پر تھے ۔یورپکا دورہ کیا تو وہاںبھی موسیقی کی دنیا میں ایسا نام کمایاجس کی مثالیں آج بھی لوگ دیتے ہیں۔ مگر حیرت انگیز بات یہ کہ جنید جمشید نے اپنے موسیقی کے شباب کے زمانے ہی میں 2004میں اس کو چھوڑ کر مذہب کی جانب رغبت پیدا کر لی تھی۔اپنے عروج کے دور کو خیر باد کہہ دینا اورڈُرویشی اپنا لینابڑے دل گردے کی بات ہوتی ہے۔
جب جنید جمشید نے موسیقی کو خیر باد کہہ دیا تو اسی سال میرے نبیِ محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح اور شان میں نعتوں کا پہلا البم پیش کیا اور اس میں شہرت دوام حاصل کی اسی سال اپنی نعت خوانی پر جنید جمشید کو تمغہِ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔نعتوں کا اگلا البم 2005 میں آیا تو اس نے بھی شہید جنید کو ایسی شہرت بخشی کہ لوگ حیرت زدہ ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنید جمشید کے دل میں آقائے دو جہاں کی محبت مضبوط گھر بنا چکی تھی۔اس عاشقِ رسول کی شہرت سے ان کے مخالفین نے سیخ پا ہو کر کیا کچھ الزامات اس سچے عاشقِ رسول اور مواحد مسلمان پرنہ لگائے کہ اس کو مجبوری کی حالت میں وطن چھوڑنا پڑ گیا مگر پھربھی اس نیک طینت شخص نے اپنے مخالفین کو معاف کر کے سنتِ رسول کو زندہ رکھا۔
Junaid Jamshed
یہ عظیم انسان تبلیغ دین میں کیا مصروف ہو ا کہ شیطان تو سیخ پا ہو کر رہ گیا۔اب جنید کااوڑھنا بچھونا تبلیغِ دین اور سنت نبوی صلی اللہُ علیہ وسلم کی پیروی بن چکا تھا۔قُرآنِ پاک کی قراء ت جنید کے منہ سے اس قدر خوبصورت لگتی تھی کہ دل چاہتا تھا کہ اس کو سُنتے ہی رہیں ۔قدرت نے ان کے لہن میں ایسا حُسن بخشا تھا جو کم لوگوں کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ اس سال جب جنید حجِ بیت اللہ پر گئے تو ان کے ایک دوست سعید انور جن کا تعلق چترال سے تھا نے دوران حج درخواست کی تھی کہ جس طرح آپ پچھلی مرتبہ تبلیغِ دین کے سلسلے میں چترال تشریف لائے تھے ۔اسی طرح کا ایک دورہ اور چترال کا کریں ۔تو جنید نے ان سے وعدہ کر لیا تھا کہ وہ چترال ضرور آئیں گے۔لہٰذا ماہ دسمبر 2016کو وہ اپنے وعدے کے مطابق اپنی بیگم کے ہمراہ تبلیغی دورے پر چترا ل پہنچے اور چترال کے لوگوں کو میرے نبیء محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغا م پہنچایا اور چترال کے مدرسے میں 7 دسمبر کودو پہر 12بجے درسِ قراں اور تبلیغِ دین کے بعدچترال کی مسجد میں ظہر کی نماز کی امامت کی اس کے بعد لوگوں کی فرمائش پر شیخ سعدی کاکلام اور اپنا پسندیدہ قصیدہ بردہ شریف آخری مرتبہ پڑھ کر لوگوں سے خوب داد وصول کی۔
اس سچے عاشقِ رسول کو اس بات علم ہی نہ تھا کہ وہ اس کے بعد اس دنیا میں اپنے بنیء محترم کی مد ح پڑھ ہی نہ سکے گا،اور شہادت کے رتبے پر فائز ہو جائے گا۔مسجد کے امور سے فارغ ہوکر جنید اپنی اہلیہ کے ساتھ پی آئی اے کے بد قسمت طیارے PK-661 میں ریزئوسیٹ پر طیارے کے درمیانے حصے میں جا کر بیٹھ گئے۔طیارے میں دیگر ملکی اور غیر ملکی مسافروں کے ساتھ ہی ڈی سی چترال اُسامہ وڑائچ اپنی بیٹی اور اہلیہ کے ساتھ موجود تھے۔بد قسمت طیارہ اپنے شہید ہونے والے مسافروں کو لے کر 3.30 بجے ہوئی مستقر سے فضائوں میں بلند ہوا جس کی منزل اسلام آباد تھی۔جہاں اس کو 4بجکر 46میٹ پر لینڈ کرنا تھا۔ مگر لینڈنگ سے دس منٹ پہلے ہی یہ طیارہ حویلیاں کے نزدیک پہاڑوں میںانجن کی فنی خرابی کی وجہ سے حادثے کا شکار ہو ہو کر تباہ ہوگیا۔جس نے طیارے میں سوار 42 مسافروں کے ساتھ عملے کے 5 افراد سمیت 47لوگوں کو لُقمہء اجل بنا دیا۔
اس طرح جنید جمشیدکراچی اور پاکستان کا حُس نبنیء محترم کا بے تیغ سپاہی مدحتِ نبویہ سے سر شاریہ مبلغِ اسلام (52سال 3ماہ اور 3دنوں)کی نارمل سے کم مسافت طے کر کے اس دنیائے فانی سے ہمیشہ کے لئے راہی ء جنت ہوا۔جو آخرت میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ جنید جمشید جیسے عظیم انسان اور انسانیت کا پیکر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں”مت سہل ہمیں جانو،پھرتا ہے فلک برسوں ،تب خاک کے پردے سے، انسان نکلتا ہے” اللہ تمام شہدا کے درجات کو بلند فرمائے۔جنید! تم بیس کروڑ مسلمانانِ پاکستان کو بہت یاد آئو گے! تمہارا کام ایسا عظیم تھا کہ ہر کوئی آسانی سے اس راہ کا مسافر آج کے دور میں آسانی سے بننے کو تیار نہیں ہے۔
Shabbir Khurshid
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbirahmedkarachi@gmail.com