تحریر : محمد اشفاق راجا پاناما لیکس کے حوالے سے دائر درخواستوں کی عدالت عظمیٰ کے بڑے بنچ کے روبرو سماعت جاری ہے اور اس کے ساتھ ہی عدالت کے باہر میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے کو مطعون کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہے، حیرت تو اس بات پر ہے کہ سماعت شروع ہونے سے پہلے اورپھر بعد میں بھی فریقین کھل کر ایک دوسرے پر تنقید کرتے اور عدالتی کارروائی کا ذکر اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق کرتے ہیں، گزشتہ روز بھی یہی کچھ دہرایا گیا تحریک انصاف اور درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ سب ثبوت دے دیئے گئے، حکومتی حضرات بار بار یہی کہتے ہیں کہ ثبوت دیئے اور اب گیند حکومت کی کورٹ میں ہے کہ عدالت میں ہی وزیر اعظم کے وکیل اسلم بٹ نے دلائل شروع کئے اور کچھ جواب دستاویزات کے ذکر کے ساتھ دیئے ہیں لیکن ایک طرف تو میڈیا رپورٹرز نے ٹکر اور گفتگو کے ذریعے عدالتی کارروائی کا ذکر کیا تو دوسری طرف فریقین نے باہر حسب سابق پریس کانفرنسیں کر ڈالیں، یہ خود تو رک نہیں رہے کہ زیر سماعت مقدمات پر بولا نہیں جاتا، ان کو عدالت ہی روک سکتی ہے لیکن عدالت بھی نرم سلوک کررہی ہے۔
اس سماعت کے دوران ہی اندازہ ہو رہا ہے کہ یہاں ترکی بہ ترکی الزام اور جواب الزام کا سلسلہ جاری ہے اور کسی کو عوام یا ملک کے بارے میں فکر نہیں اور یہی وہ مسئلہ ہے جس کے باعث سیاست اورسیاست دان بدنام ہوتے ہیں ان حضرات کو کچھ عوامی مسائل کابھی ادراک ہونا چاہیے، کہ شہر یوں کو جو مشکلات اور مسائل درپیش ہیں ان کی طرف توجہ ہی نہیں دی جارہی، تحریک انصاف ” کرپشن مکاؤ” مہم کی بات کرتی ہے اوربڑے پیمانے پر مبینہ کرپشن کے خلاف اپنی طرف سے تحریک چلا رہی ہے لیکن جو کرپشن مائیکرو لیول پر ہے اور جس سے عوام براہ راست متاثر ہیں اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا، کون سا سرکاری محکمہ ہے جس کے ملازمین کی بھاری اکثریت کرپشن اور بدعنوانی میں ملوث نہیں، کچہری سے پٹواری اور ٹاؤن انتظامیہ سے پولیس تک کون سا شعبہ ہے جس سے عوام کو سکون مل رہا ہے، ہر جگہ بد انتظامی اور کرپشن ہے۔
اوپر جب ایسی محاذ آرائی ہو تو کسی کو یہ فکر کیوں ہوگی کہ موسم اورپانی بھی بہت بڑے مسائل ہیں اور ان پر مستقبل کا انحصار ہے، پانی کے حوالے سے بھارتی جارحیت سامنے آچکی، مودی سندھ طاس کی مخالفت پر آمادہ ہے، سندھ طاس معاہدے کی ضمانت ورلڈ بنک نے دی تاہم اب تک بھارت نے عالمی بنک کی بھی نہیں مانی اور معاہدے کی خلاف ورزی کرکے ڈیم بھی بناچکا اور بنارہا ہے اب مودی نے دھمکی دی ہے کہ وہ پاکستان کے لئے پانی بند کردے گا، اس حوالے سے پورے سینٹ پر مشتمل کمیٹی کا اجلاس ہوا اور وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے بتایا کہ حکومت پانی کے مسئلہ پر ایک عالمی کانفرنس بلانے کا ارادہ رکھتی ہے ، انہوں نے پانی کے ضیاع کو روکنے کی بات بھی کی ہے۔
Water War
اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ ماہرین عرصہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ پانی کی قلت بھی ہوتی جارہی ہے اور مستقبل میں جنگیں بھی پانی کے مسئلہ پر ہوں گی، تو پھر ہم نے اب تک بھارتی آبی جارحیت کے خلاف مہم کیوں نہیں چلائی، ہم مقبوضہ کشمیر کے مظلومین کے لئے آواز بلند کئے ہوئے ہیں، ہم افغان صدر کی ہرزہ سرائی پر احتجاج اور مذمت کرتے ہیں لیکن آبی وسائل اور بھارتی رویے کے حوالے سے اتنا کام نہیں کرتے جتنی شدید ضرورت ہے، بلکہ الٹا ہم سب بحیثیت مجموعی سیاسی محاذ آرائی میں الجھے ہوئے ہیں۔ جہاں تک موسمیاتی تبدیلیوں کا تعلق ہے تو اس سے پوری دنیا متاثر ہے، ترقی پذیر ملک زیادہ ہیں، ترقی یافتہ تو پھر بھی کچھ روک تھام شروع کر چکے ہیں لیکن ہم تو آلودگی بڑھانے کے لئے کوئلے کے پاور سٹیشن لگا رہے ہیں، اس سلسلے میں خصوصی طور پر محکمہ ماحولیات بالکل ناکارہ اور بے کار ثابت ہو ا ہے کہ صنعتی علاقوں اور غیر قانونی اور قواعد کے خلاف بنائی گئی صنعتوں کے حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی، یہ صنعتیں نہ صرف فضلے اور آلودہ پانی کے ذریعے ماحول کو برباد کر رہی ہیں بلکہ چمنیوں سے گاڑھا دھواں خارج کر کے فضا کو بھی بد سے بدتر بنا رہی ہیں۔ پچھلے دنوں جب ” سموگ” کا حملہ ہوا اور میڈیا نے شور مچایا تو کہا گیا تھا کہ بھارتی پنجاب میں چاول کا بھوسہ جلانے کی وجہ سے دھواں دھند کے ساتھ مل کر دہلی تک بھی پھیل چکا اور ”سموگ” کے طوفان کی وجہ بنا۔
اس پر وزیر اعظم نے نوٹس لیا، پنجاب حکومت نے چند سٹیل ملیں بند کرادیں، پھر کچھ بھی نہ ہوا وزیر اعظم کی ہدائت اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا حکم ہوا ہی میں رہ گیا اور سموگ کی شدت ختم ہونے کے بعد سلسلہ وہیں سے شروع ہو گیا جہاں سے چھوڑا تھا، اب دو تین روز سے پھر ”سموگ” حملہ آور ہے، اب تک بھوسہ نہیں جلایا گیا، یہ سب کارستانی تو خود ہماری صنعتوں کے دھوئیں، گاڑیوں کے گاڑھے ”سموگ” اور کوڑوں کے جلانے سے ہو ا ہے، اوپر سے قدرت بھی مہربان نہیں ہو رہی، بارش اور برف باری بھی نہیں، چنانچہ صبح اور شام کے بعد گہری ”سموگ ” نے ڈیرے ڈال لئے اور کسی کو فکر نہیں اور نہ ہی سابقہ احکام کے بارے میں پرسش ہوئی کہ کون سے حفاظتی انتظامات کئے گئے اس طرح تو یقیناًقوم امراض میں مبتلا ہوتی رہے گی۔
مریض بڑھتے جائیں گے ہسپتال پہلے ہی مریضوں کا بوجھ برداشت نہیں کررہے، مریضوں میں اضافہ کیسے برداشت کریں گے۔اپنے میڈیا کے دوستوں سے بھی گزارش مقصود ہے کہ سیاست اپنی جگہ موضوع ہوگا لیکن انسانی صحت اور ماحول بھی مستقبل کے لئے لازم ہے یہی حالت رہی تو کھانے کو روٹی نہیں ملے گی کہ اب تک چنے کی فصل تباہ ہو چکی اور گندم کی بوائی متاثر ہورہی ہے، بالائی علاقوں والے دن رات بارش کی دعا مانگ رہے ہیں جس کا دور دور تک پتہ نہیں، اس لئے سب کے لئے فکر کرنا لازم ہے ، بہتر ہوگا کہ عوام کے لئے آگاہی اور شعوری مہم چلائی جائے اور جو شعبے کارکردگی میں ”ڈنڈی” مارتے چلے جارہے ہیں ان کی قلعی بھی کھولیں۔