قبائلی پختونخواہ

Pakistan Tribal Areas

Pakistan Tribal Areas

تحریر : شکیل مومند
قبائلی علاقہ جات پاکستان کے چند پسماندہ ترین علاقوں میں شامل ہے۔ فرنگی کے دور کا گورا صاحب تو چلا گیا مگر جاتے جاتے انہوں نے ایسا نظام چھوڑا کہ اب قبائلی ملکان اسکو اپنا رواج مانتے ہیں۔ ایف۔سی۔آر کے حامی سوچ والے یہ کہتے ہیں۔ جبکہ نئی اصلاحات کے حامی سوچ رکھنے والے ایف۔سی۔آر کو کالا قانون سمجھتے ہیں۔ اور اس میں ترقی ناممکن ہے۔ قبائلی علاقہ جات کے کل رقبے کا 3.4فیصد ہے۔ اورکزئی ایجنسی کے سوا تمام ایجنسیوں کی سرحد افغانستان سے متصل ہے۔ اس کی سرحد کو ڈیورنڈ لائن کہاجاتا ہے۔ جو مورٹی مورڈیورنڈ کے نام سے موصوم ہے۔ برطانوی راج کے دوران 1890ء سے 1894ء تک اس سرحد کا تعین کیا گیا ۔فاٹا کے عوام کو تعلیم ،صحت،نکاسی آب اور پینے کے صاف پانی کا بنیادی سہولتیں میسر نہیں۔ آبادی کی اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ جہاں کی معیشت کا دارومدار ذراعت اور قدرتی وسائل کے روزمرہ استعمال پر ہے۔ یہاں زرعی پیداوار کم اور قدرتی زرائع خستہ حال ہے۔

صنعت اور تجارت کے شعبے یہاں کے رہائشیوں کو محدود مقدار میں ملازمتیں فراہم کرتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں بہترین سیاسی لیڈر شپ اور سیاسی ورکر موجود ہے۔ صنعت کار ، بزنس مین، ڈاکٹر ، انجنئیرز اور صاحب علم موجود ہے۔ 97فیصد آبادی کچے گھروں میں رہتی ہے۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کیوجہ سے لوگ دوسرے شہروں یا ملکوں میں ہجرت کرجاتے ہیں۔ کیا قبائل اس پرانے نظام کے تحت پرسکون زندگی گزار سکیں گے۔ قبائل کے آپس میں جو رنجشیں ،بدگمانیاں اور دشمنیاں پیدا ہوئی۔ اسکے لئے ایک مضبوط قانونی،انتظامی مشینری کی ضرورت ہے۔پاکستان کے تمام بڑے جماعتیں متفق ہیں فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں شامل کیا جائے۔

FATA

FATA

قبائلی عوام نے فاٹا اصلاحات کا جو نعرہ بلند کیا ہے اسکو عملی جامہ پہنایا جائے فاٹا کو تین فیصد این۔ایف۔سی ایوارڈ سے رقم دی جارہی ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں فاٹا کو خیبر پختونخواہ اسمبلی میں نشستیں ملے گی۔ تو این۔ایف۔سی ایوارڈ سے سات فیصد رقم ملے گی۔ خیبر پختونخواہ کے انضمام کے مخالفین کے ذاتی مفادات ہے۔ فاٹا کے انضمام سے ایک بڑا صوبہ بننے پر پختونخواہ سے بھی ملک کا صدر اور وزیر اعظم بن سکے گا۔ پختونخواہ کو فاٹا سے اور فاٹا کو پختونخواہ سے فائدہ ہے۔ فاٹا کو مین سٹریم میں لانے کیلئے فاٹا پارلمنٹرین کی طرف سے پیش کئے گئے سات نکاتی ایجنڈا میں این۔ایف۔سی ایوارڈ میں فاٹا کو نمائندگی کرنے کی بات کی گئی ہے۔ این۔ایف۔سی ایوارڈ میٹنگ کے دوران فاٹا کے حوالے سے کسی نے بات نہیں کی۔

فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کے رپورٹ کے مطابق فاٹا کی آبادی 4.8ملین ہے۔ جبکہ فاٹا کی آبادی سات ملین سے بھی زیادہ ہیں۔ کمیٹی نے فاٹا کی آبادی کو غلط دکھا ہے۔ کیونکہ جب آبادی کم ہوگی تو قومی اسمبلی کی نشستیں کم ملے گی۔ ترقیاتی منصوبے جو آبادی کے تناسب سے تقسیم ہوتے ہیں وہ بھی کم ملیں گے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ ہدایات کے مطابق وفاقی حکومت اپریل2017ء سے ملک بھر میں مردم شماری کا ارادہ رکھتی ہے۔مردم شماری کا آغاز فاٹا سے کیا جائے۔ فاٹا اصلاحاتی رپورٹ اب سینٹ میں زیر بحث ہے ۔ جہاں سے منظوری کے بعد اصلاحات پر تیزی کے ساتھ عمل کیا جائے گا۔ اگلے سال فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے علاوہ 2018ء کے انتخابات کیلئے صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں بھی مختص کرائی جائے۔ بلدیاتی انتخابات کے بعد ہر ایجنسی کے بلدیاتی اداروں کو چار سے پانچ ارب روپے تک ترقیاتی فنڈز دیے جائیں گے۔ اسکے علاوہ بھی ترقیاتی فنڈز کی مد میں ہر ایجنسی کو سات اور آٹھ ارب روپے دئیے جائیں گے اس سلسلے میں اگلے دس سال کے دوران 120ارب روپے خرچ کئے جائیں گے۔ بلدیاتی انتخابات کرانے کیلئے وفاق نے مجوزہ لوکل گورنمنٹ آرڈنینس کی تیاری پرکام تیز کرتے ہوئے یونین کونسل کے بجائے وارڈ کا نظام رائج کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔ لوکل گورنمنٹ آرڈنینس میں رودوبدل کرکے اس کو مجوزہ 2016-17کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں شامل کیا جائے گا۔

اس ایکٹ کی درجہ بندی کے مطابق فاٹا میں لوکل گورنمنٹ نظام یونین وارڈ تحصیل یا ٹائون وارڈ اور ایجنسی کونسل پر مشتمل ہوگا۔ حکومت کی کوشش ہے کہ قبائلی نسبتاً کم تعلیمیافتہ ہے اس لئے ملک کے دیگر صوبوں خصوصاً خیبر پختونخواہ کے لوکل گورنمنٹ نظام جیسا تلخ تجربہ سے دور رکھا جائے۔ ہر یونین وارڈ سے ایک نمائندہ یا کونسلر منتخب کرنا ہوگا جو تحصیل یا ٹائون اور ایجنسی کونسل میں عوام کی نمائندگی کرے گا۔ اس نظام کے تحت ہر ایجنسی میں میونسپل کمیٹیاں اور ایجنسی سطح پر ایک میونسپل میٹرو پولٹین کارپوریشن بنانے کی تجویز بھی زیر غور ہے جسکو جلد ختمی شکل دی جائے گی۔ خوشحال فاٹا خوشحال پاکستان۔

Shakeel Momand

Shakeel Momand

تحریر : شکیل مومند