تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری گلگت سے اسلام آباد روانہ ہونے والا طیارہ اگر پرواز کے لائق نہ تھا تو پھر اسے کیوں فضائوں میں بھیجا گیا یہ ایسی کیا کیا مصلحتیں ہیں جن کی وجہ سے ایسے کھٹارا طیاروں میں سفر لازمی قرار پا چکا ہے بیورو کریسی کو اپنی تنخواہوں کے لیے اور اپنی بھر پور مراعات کے حصول کے لیے ان طیاروں کی مرمت کروانے انھیں اوور ہال کرنے یا انھیں گرائونڈ کرکے دوبارہ اصلی حالت میں لا کر چلانے میں عار ہے۔
خدارا س کی تحقیقات شفاف کروانے کے لیے کسی ایماندار پینل کے افراد کو اس کی زمہ داری سونپ دو اب ایم ڈی پی آئی اے اعظم سہگل جس نے تبصرہ کرتے ہوئے یہاں تک فرما ڈالا ہے کہ “ہم نے خیال کیا کہ ایک انجن پر جہاز چترال سے اسلام آباد پہنچ ہی جائے گا” یہ خود اعتراف جرم ہے کہ ان 47افراد کو موت کی وادی میں دھکیلنے میں میرا ہی ہاتھ نہیں بلکہ وہ تمام افراد بھی ذمہ دار اور برابر کے حصہ دار ہیں جو کہ طیارہ چیک اپ کرنے اور اسے پرواز کے لیے کلئیر کرنے پر مامور ہیں پی آئی اے میں ایک جہاز کے لیے غالباً 137ملازم تعینات ہیں تواس کو فٹ فاٹ کرکے روانہ کروانے والے لازماً چار یا پانچ درجن سے کم نہ ہوں گے۔عوام بجا طور پر پوچھ رہی ہے کہ47افراد کے بہیمانہ قتل پر کیابیورو کریسی اور ذمہ داران کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہیں اس مقصد کے لیے وصول کرنے والے قابل گردن زدنی نہیں ہیں تو پھر اور کون ہو گا۔
اعظم سہگل صاحب صرف اپنے ائیر کنڈیشنڈ دفتر میں بیٹھتے اور الاٹ شدہ بنگلے میں رہتے ہی نہیں بلکہ ستر لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہوں گی۔ اس طرح یہ بھاری بھرکم شخصیت ہمیں کروڑ سوا کروڑ ماہانہ میں پڑ رہی ہے”مجھاں مجھاں دیاں بہناں ہوندیاں نے “کی طرح یہ تنخواہیں اورمراعات ان کے لیے دیگر بیورو کریٹس ساتھیوں ہی نے مقرر کر رکھی ہوں گی۔اور جو اس کو تنخواہیں غریبوں کے خون کو چوس کر خزانہ میں جمع شدہ رقوم میں سے ڈاکہ ڈلوارہے ہیں وہ کتنا مشاہرہ اور مراعات خود وصول کرتے ہوں گے۔مال مفت دل بے رحم کرپٹ بیورو کریسی نے دونوں ہاتھوں سے لوٹ مچا رکھی ہے ادھر یہ اعلان کہ ہر فرد جواس پر سوار تھا کے لواحقین کو پانچ پانچ لاکھ روپے دیے جائیں گے بھی ان مظلوموں کے لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکنے نہیں بلکہ تیزاب پھینک کر مکمل جلاڈالنے کے مترادف ہے کیا انسانی جان کی قیمت پانچ لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے ؟کم ازکم حرام تنخواہیں وصول کرنے والے بیورو کریٹوں اور ایم ڈی پی آئی اے کے 15کروڑ سالانہ کے وصول کیے جانے کے برابر بھی معاوضہ فی کس ادا کیا جاتا تو کم تھا۔کہ ان 47افراد کو تو انہوں نے خود آسمانوں میں بھسم کرڈالنے میں مکمل حصہ لیا ہے۔
Azam Saigol
طیارہ ناکارہ انجن خراب اور پرواز کی اجازت دے ڈالنے جیسے سراسر قتل عمدکی کم ازکم سزا روائیتی پھانسی نہیں بلکہ 47 ذمہ داروں کو شہروں کے بڑے چوکوں خصوصاً انہی شہروں کے چوکوں پر جہاں جہاںان مظلوم شہدا کے تابوت بھجوا کر دفنائے گئے الٹا لٹکا کر کئی روز جان کنی کی حالت میں مبتلا کرڈالنا ضرور ی ہے پاکستانی عوام ایسے مجرموں کو لٹکتا ہوا دیکھنا ہی نہیں چاہتے بلکہ ان پر جوتیوں کی برسات بھی کرناچاہتے ہیں اگر اب یہ نہ ہو سکا تو آئندہ بھی پاکستانی مظلوم جانیں اسی طرح ہوائوں فضائوں میں تلف ہو تی اور جل کر راکھ بنتی رہیں گی کہ بیورو کریٹ ٹولہ جو کہ کروڑوں کی تنخواہیں سرکاری خزانہ سے وصول کرتا ہے اسے کسی انسانی جان کی پرواہ تک نہیں ہو سکتی اور ہو بھی کیوں کہ” مال حرام بود بجائے حرام رفت “کی طرح وہ تو ان پیسوں سے عیاشیانہ شب و روز گزار رہے ہوتے ہیں اور نیم مدہوش کرنے والے ” شربتوں ” کو پی ہی نہیں رہے ہوتے بلکہ نہا رہے ہوتے ہیں تو ان کو کہا ں سے ہو ش آئے گی کہ کیا ہوا قوم پر کیا بیت گئی جنید جمشید اور ڈی سی او گلگت اور باقی مظلومین کے لواحقین پر کیا بیت رہی ہے اور وہ مستقبل میں کن کن کن مشکلات کا شکار ہوں گے کوئی پرسان حال تک بھی نہ ہو گا 47خاندانوں کی تباہی کے ذمہ دار کم ازکم 47افراد اگر تختہ دار پر نہیں کھینچے جاتے تو پھر یہ تفتیش کس کام کی۔
اب نیا وقوعہ ملتان سے کراچی جانے کے لیے ایسا ہی طیارہ جونہی اڑا ایک انجن میں آگ بھڑک اٹھی تمام مسافروں کو بخیریت اتارلیا گیا یہ توہ وہی ہو انہ کہ” چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے” کی طرح ان کو بھی ابھی ہوش نہیں آیا کہ یہ کھٹارا طیارے اب وقت گزار چکے ہیں ان کو گرائوند ہی نہیں بلکہ انڈرگرائونڈ کرڈالنا چاہیے اگر ہو سکے تو شریف خاندان کی بالخصوص اور بقیہ 200پانامہ لیکس والے ،وکی لیکس والے سابق صاحب بہادرر اور دیگر لیکس والے 440مجرموں کی باہر بنائی گئی جائدادیں ہی بیچ کر پی آئی کو نئے طیارے منگوا دیے جائیں تو” ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ چو کھا آوے “کی طرح ان قاتل طیاروں سے مفت میں جان چھوٹ جائے گی نواز شریف خاندان کے پانامہ لیکس والے مقدمہ میں اگر یہ لوگ اپنے عزیز و اقارب اور بیٹوں بیٹی کی ساری وہ جائدادیں جو یہاں سے اگر لوٹ کر باہر دفنائی گئی ہے اور کئی ملکوں میں ملیں اور فلیٹ خرید رکھے ہیں اگر وہ پاکستان میں واپس ایماندار ی سے لادیویں تو انھیں بقیہ زندگی آرام سے گزارنے کی اجازت جاتی امراء میں ہی دے ڈالیں کہ باہر بھاگ گئے تو” رُل “جائیں گے۔یہ ہمارے پیارے تین دفعہ وزیر اعظم اور ان کے بھائی وزیر اعلیٰ رہے تھے اور ہیں اس طرح نئے طیارے بھی خرید لیے جاسکیں گے اور ملکی سیاست کی روز روز کی بک بک چخ چخ بھی ختم ہوجائے گی نئے انتخاب ہو کر پرانے گھسے پٹے جغادری سیاستدانوں کا بوریا بستر گول اور ملک اسلامی فلاحی مملکت کا روپ دھار سکے گا۔