تحریر :حاجی زاہد حسین خان اللہ تعالیٰ کو پڑھنا لکھنا اس قدر محبوب تھا کہ اس نے اپنے محبوب محمد مصطفےۖ کو نبوت کے ساتھ جو پہلا حکم دیا وہ پرھنا لکھنا ہی تھا۔ تب ہمارے آقا ۖ نے پرھا اور خوب پڑھا کلام خالق کا تھا استاد جبرئیل آمین تھے اور شاگرد اعظم محبوب خدا محمد مصطفےٰ ۖ تھے تب اس شاگرد عظیم نے دنیا کا پہلا مدرسہ مسجد نبوی کے اصحاب صفہ چبوترے پر قائم کیا جہاں اسلام کی نعمت سے بہرہ مند ہونے والے اصحاب جن میں غریب بھی تھے اور امیر بھی چھوٹے بھی تھے اور بڑے بھی مہاجرین بھی تھے اور انصار بھی سب اپنے استاد اعظم سے علم و دانش کی دولت سے مستفید ہونے لگے جن میں صدیق اکبر بھی تھے اور عثمان غنی بھی علی المرتضی ٰ بھی تھے اور معاویہ بن سفیان بھی زید بن حارث بھی تھے اور ابو ہریرہ جیسے نابغہ روزگار شاگرد بھی جو بعد میں حافظ القرآن ار حافظ الحدیث بنے کاتب قرآن اور کاتب وحی بھی پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان شاگردان عظیم نے صرف چند برسوں میں ان اصحاب صفہ والوں نے اس علم نور کی روشنی سے دنیا بھر کو روشن کر دیا۔
اللہ اکبر۔ ان شاگردان خاص نے اپنے اپنے گھروں میں باپ نے بیٹوں کو بھائیوں نے بہنوں کو اور خاوندوں نے اپنی بیویوں تک کو یہ علم کی روشنی پھیلانی شروع کی اور مردوں کے ساتھ ساتھ نساء المسلمین نے بھی بھی علم کی دولت حاصل کر کے کوئی معلمہ بنی تو کوئی مسیحا کوئی عابد ہ بنی تو کوئی زاہدہ جنہوں نے اپنے اپنے گھروں میں اپنی اولادوں اور نسلوں کی تعلیم و تربیت کا بیڑا اٹھایا۔ اس دور میں علیحدہ سے عورتوں کے نہ سکول مدرسے تھے نہ مخلوط تعلیم و تربیت کا رواج ۔اور نہ ہی عورتوں کا حافظہ قاریہ اور معلمہ بننے پر پابندی ۔ عورتوں کا تعلیم حاصل کرنا صرف اپنے گھروں تک ہی محدود تھا۔ اور یہ سلسلہ خلافت عباسیہ کے نصف آخر تک جاری رہا پھر جب خلافت عباسیہ میں ایرانی ، ترکی اور عجمی النسل لوگ عباسی اقتدار مٰن شامل ہوئے تب مردوں کے ساتھ ساتھ بچیوں عورتوں کے علیحدہ سے سکول اور مدرسے قائم ہوتے گئے جہاں عورتیں گھروں سے باہر آکر تعیم حاصل کرنے لگیں۔ یہ سلسلہ بر صغیر میں مغلیہ دور حکومت میں جاری و ساری رہا۔ مگر انگریز جب ہندوستان پر قابض ہو ئے افریقہ پر بھی فرانسیوں اور دلنذیریوں ، اتالویوں نے قبضہ کیا تب پھر مخلوط تعلیمی ادارے قائم کر دیئے گئے۔
Education
پرائمری تا سکولوں کالجوں میں اور یونیورسٹیوں میں بچے بچیاں جوان مرد عورتیں اگھٹے تعلیم حاصل کرنے لگے۔ جس کی کسی بھی ادوار میں اسلامی معاشرے نے اجازت نہ دی بلکہ عرب ممالک میں آج بھی عورتوں کے لئے علیحدہ سکول کالج اور یونیورسٹیاں قائم کر دی گئیں اور تعلیم کا سلسلہ جاری ہوا۔ ان ممالک میں مخلوط تعلیم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی تعلیم نسواں پر پابندی ہے۔ وہاں آج بھی عورتیں اپنے علیحدہ تعلیمی اداروں میں علم حاصل کر کے۔ ڈاکٹرز بنکرز اور معلمات بن کر اپنی نوجوان نسل کو علم کے نور سے بہر ہ مند کر رہی ہیں۔ بات تعلیم نسواں پر قدغن کی نہیں اور نہ ہی یہ ہیومن راٹس کا مسئلہ ہے۔ اصل مسئلہ اسلامی ممالک اور اسلامی معاشرے میں مخلوط تعلیم کا ہے۔ اسلامی معاشرہ اور اسلام قطعا عورتوں اور مردوں کے مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دیتا چاہے وہ عرب ممالک ہوں یا ہمارا پاکستان ہم کسی بھی صورت میں یورپ کے کفریہ معاشرے کی تقلید میں مردوزن کی مخلوط تعلیم کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کون کہتا ہے کہ تعلیم نسواں یا عورتوں کی تعلیم پر پابندی ہو بات صرف بچیوں عورتوں کیل ئے ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں کا الگ ہونا اشد ضروری ہے۔
ہمارا مذہبی طبقہ ہو یا نیم تعلیم یافتہ طبقہ کوئی پاگل ہی ہو گا جو بچیوں عورتوں کی تعلیم کے خلاف ہو ۔ ہمارے پاکستان میں کوئی بھی ایسی آواز اگر اٹھ رہ ہے تو وہ صرف و صرف سکول کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم کی ہے کوئی بھی مسلمان اپنی جوان بچیاں ایسے مخلوط تعلیمی اداروں میں بھیجنے سے ہچکچا رہا ہے ہمارے حکمرانوں کو ہیومن راٹس والوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو اسلام بیزار طبقے کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسے مسئلہ نہیں بنا لینا چاہیے۔ بلکہ اس اسلامی معاشرے میں نبی آخر الزماں کی تعلیم و سنت کے مطابق تعلیم نسواں کے فروغ کے لئے گھر گھر تعلیم اور آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کے لئے مردوں اور عورتوں کے علیحدہ علیحدہ تعلیمی ادارے زیادہ سے زیادہ وجود میں لانے کی ضرورت ہے۔
مخلوط تعلیمی اداروں کی تمام بیماریوں بربادیوں سے اپنے ملک و قوم کو بچایا جا سکے۔ جہاں تک ذمہ داریوں کا تعلق ہے تو حکومت اور تعلیمی ادارے بچیوں کو تحفظ دیں تعلیمی معیار بڑھائیں اور والدین بلا امتیاز لڑکوں کے ساتھ ساتھ بچیوں کو برابر کے مواقع مہیا کریں۔ پابندی کریں تاکہ کوئی بچی علم وہنر سے محروم نہ ہو سکے۔ اسطرح نوجوان نسل ملک و قوم کا گھروں اداروں کا بہتر طور پر ؛نظم ونسق سنبھال سکے گی۔
Haji Zahid Hussain Khan
تحریر :۔ حاجی زاہد حسین خان پلندری سدہنوتی آزاد کشمیر hajizahid.palandri@gmail.com 03465214526