تحریر : سید توقیر زیدی عید میلاد النبیۖ کی وجہ سے سیاسی سرگرمیاں کچھ ماند پڑ گئی ہیں، عدالت عظمیٰ میں پاناما گیٹ کی سماعت سے لگی رونق بھی جنوری کے پہلے ہفتے تک چلی گئی ہے، مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں کو بات کرنے کا موقع بھی ملا اور خان صاحب بھی عوام کے پاس جانے کا کہہ کر بنی گالا چلے گئے البتہ انہوں نے مشروط کیا کہ اگر انصاف نہ ملا، وہ کہتے ہیں کہ پاناما گیٹ کے معاملے کی سماعت وہی بنچ کرے جس نے شروع کی تھی وہ بھول گئے کہ اس بنچ کے سربراہ چیف جسٹس مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی کی ریٹائر منٹ کی وجہ اور عدالتی کمیشن بنانے پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے تو یہ التوا ہوا ہے اور اب یہ بنچ مکمل نہیں ہو سکتا کہ مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی تو نہیں ہوں گے لہٰذا کپتان کو اب پھر سے سوچ لینا چاہیے کہ ان کو کیا کرنا ہے، تو نئے سرے سے سب کچھ ہوگا۔
وکلاء کو تیاری کا وقت تو مل ہی گیا ہے، خوب بحث ہوگی، بہر حال جنوری کی ابتدا میں معلوم ہوجائے گا، کپتان کو مایوسی ہوئی ہے کہ ان کے نزدیک کیس مکمل اور فیصلہ ان کے حق میں تھا جو نہ ہوسکا۔ دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری بھی چار نکات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ کے لئے 27 دسمبر کے منتظر ہیں انہوں نے تیاری کے لئے جو کمیٹی بنائی اس کی رپورٹ پر بھی محترمہ کی برسی کے موقع پر نوڈیرو میں ہونے والے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں غور اور فیصلے ہوں گے اس عرصہ میں حکومت کی طرف سے رابطے کا بھی انتظار رہے گا اگرچہ بظاہر اس کے آثار نہیں حالانکہ اسحق ڈار کہہ چکے ہیں کہ بعض مطالبات مانے جاسکتے ہیں، اگر یہی تصور ہے تو پھر یہ بھی مذاکرات ہی کے دوران معلوم ہو سکتا ہے کہ کون سی بات مانی جاسکتی ہے اور کون سی تسلیم کرنے میں کوئی عذر مانع ہے، 27دسمبر کو محترمہ کی شہادت کو نو سال ہو جائیں گے، برسی پر جو جلسہ ہوگا، بلاول کو اپنے اعلان کے مطابق وہاں لائحہ عمل کا اعلان کرنا ہوگا، دیکھنا ہوگا کہ اس وقت کیا صورت حال بنتی ہے اور کیا کوئی نئی تحریک شروع ہوتی اور ہوتی ہے تو پیپلز پارٹی کا طریقہ کیا ہوگا۔۔۔؟
PTI and Pakistan Awami Tehreek
اب ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو کی خواہش کے مطابق وسیع تر اتحاد کے لئے ان کی جماعت کے بعض رہنماؤں نے بیک چینل کے طور پر کچھ رابطے کئے ہیں، مثبت رپورٹ اور رد عمل پر ہی بلاول ملاقاتوں کے لئے آگے بڑھیں گے تاحال تو تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے درمیان بھی مفاہمت نہیں ہوپائی اگرچہ دونوں ایک دوسرے کی تائید کرتے ہیں تاہم ڈاکٹر طاہر القادری نے عمران خان کی حکمت عملی سے عدم اتفاق کرتے ہوئے دھرنے میں شرکت سے صاف انکار کردیا تھا اور وہ پاناما گیٹ میں عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کے خلاف تھے۔
اب دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے کہ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں، یوں بھی ان تینوں جماعتوں کے نظریات ہی میں بہت فرق ہے جو نمایاں بھی ہے، بہر حال وقت آگے بڑھے گا تو یہ اسرار بھی ختم ہو ہی جائے گا۔ بات مکمل کرنے سے قبل یہ بھی عرض کردیں کہ عوامی نیشنل پارٹی کے اپنے دھڑے کی سربراہ بیگم نسیم ولی خان نے بہت بڑی بات کی،کہتی ہیں کہ ان کو کالا باغ ڈیم کی مخالفت ترک کرنے اور حمایت کے لئے ایک ارب روپے کی پیش کش کی گئی جو انہوں نے ٹھکرا دی تھی، یہ پیشکش کس نے اور کب کی یہ نہیں بتایا ان کو بتانا چاہیے تھا، ویسے اس سال کی خشک سالی اور بھارتی وزیر اعظم مودی کی دھمکیوں نے کالا باغ کی ضرورت کا احساس پیدا کیا اور اس کی ضرورت مزید بڑھتی جائے گی، بیگم نسیم ولی خان اپنے موقف پر قومی ضرورت کے باعث نظر ثانی کرلیں، ملک وقوم کا بھلا ہو گا۔