تحریر: روشن خٹک کلاس روم طلباء و طالبات سے بھرا ہوا تھا، ہر کوئی خوش گپیوں میں مصروف تھا، کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی،اتنے میں پروفیسر صاحب کلاس روم میں داخل ہو ئے، کلاس روم میں سناٹا چھا گیا۔ پروفیسر صاحب نے بلیک بورڈ پر ایک بڑا سا سفید کاغذ چسپاں کر دیا۔اس کے بعد سفید کاغذ کے درمیان میں مارکر سے ایک سیاہ نقطہ ڈالا اور پھر اپنا رخ کلاس کی طرف کرتے ہو ئے پوچھا ” آپ کو کیا نظر آ رہا ہے …؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا ” ایک سیا نقطہ ” پروفیسر نے مسکراتے ہو ئے کہا ” حیرت ہے ! اتنا بڑا سفید کا غذ اپنی چمک اور پورے آب و تاب کے ساتھ تو تمھاری نظروں سے اوجھل ہے، مگر ایک چھوٹا سا نقطہ تمھیں صاف دکھائی دے رہا ہے۔
زندگی میں کئے گئے لا تعداد اچھے کام سفید کاغذ کی طرح ہوتے ہیں جبکہ کوئی غلطی یا خرابی محض ایک چھوٹے سے نقطے کی مانند ہو تی ہے۔یہ حال ہمارے معاشرے کا ہے جہاں لوگوں کو دوسروں کی غلطی یا خرابی تو بہت جلدی نظر آجاتی ہے مگر اچھائیوں کو وہ نظر اندازکر دیتے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ خوشحال خان خٹک یو نیورسٹی کے وائس چانسلر محمد ابرہیم خٹک ”جو عنقریب سبکدوش ہونے والے ہیں ”کیساتھ یہ معاملہ تو پیش آنے والا نہیں ہے ..؟ خوشحال خان خٹک یو نیورسٹی کرک کی منظوری 2012 ء میں دے دی گئی تو اس یونیورسٹی کے لئے دفتر تھا نہ کوئی فنڈ، ان حالات میں یو نیورسٹی کو چلانا آسان کام نہیں تھا۔
لہذا اس کو چلانے کے لئے ایک ایسے محنتی، با ہمّت اور قابل ،تجربہ کار ماہرِِ تعلیم کی ضرورت تھی جو اس اہم اورمشکل چیلنج سے عہداء بر ا ہو سکے۔قرعہ فال پروفیسر ڈاکٹر محمد ابراہیم کے نام نکلا ،جنہوں نہ صرف امریکہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی بلکہ پاکستان میں معروف یو نیورسٹی میں پڑھانے اور ایگریکلچر یونینیورسٹیٰ پبلک سکول اینڈ کالج جیسے معروف مادرِ علمی کی بنیاد رکھنے اور چلانے کی مہارت بھی حاصل تھی۔لہذا انہیں اس یو نیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کر دیا گیا۔
Khushal Khan Khattak University
اس ذمہ داری کو انہوں نے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کر لیا۔چونکہ انہیں کرک میں ایک کمرے کا دفتر بھی مہیا نہیں کیا گیا تھا ،اس لئے پہلے دو ماہ تک وہ ایگریکلچر یو نیورسٹی کے دفتر سے یو نیورسٹی کی بنیاد رکھنے کے لئے جد و جہد میں مصروف ہو گئے،پھر انہیں موجودہ ڈی سی او ّفس کے قریب اور موجودہ ضلعی ناظم کا دفتر کا کمرہ استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی ،مگر یو نیورسٹی کے لئے بلڈنگ کا ہونا تو لازمی تھا، جس کی تلاش شروع کر دی گئی، ووکیشنل کالج پر نظر پڑی مگر وہاں جگہ بہت کم تھی، ذاتی اثر رسوخ استعمال کرتے ہو ئے وائس چانسلر ابراہیم صاحب کو موجودہ پریس کلب کے قریب ویمن ہاسٹلز کے دو فلیٹ مِل گئے،اب اس میں فرنیچر کی ضرورت تھی جس کے لئے ڈسٹرکٹ گو رنمنٹ سے قرضہ حاصل کیا گیا۔
پی سی ون منظور ہوا ، فنڈ چار ماہ بعد ریلیز ہوا ، لیکن اصل مسئلہ کلاسوں کے لئے کمروں کا تھا ،کوئی موزوں جگہ نہیں تھی ، با حالتِ مجبوری پہلے ووکیشنل کالج اور پھر فروری 2013میں یونیورسٹی کو کرک کے ریو نیو ڈیپارٹمنٹ میں شفٹ کر دیا گیا اور باقاعدہ کلاسوں کا آغاز کر دیا گیا ۔کمپیوٹر سائنس، مینیجمنٹ سائنس، جرنلزم اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ قائم کر دئیے گئے۔مگر وائس چانسلر ابراہیم صاحب کے سامنے اب بھی کئی چیلنجز منہ کھولے سانے کھڑے تھے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن سے این او سی لینا تھا جس کے لئے ہائر ایجوکیشنکمیشن کی بہت کڑی شرائط سامنے تھیں مگر ان کی تدبر اور تجربے نے اسے آسان بنا دیا اور صرف ایک سال کی قلیل مدّت میں انہوں نے ہائر ایجو کیشن کمیشن سے این او سی حاصل کر لی جو کسی بھی یو نیورسٹی کے لئے این او سی حاصل کرنے کے لئے ایک ریکارڈ مدّت ہے۔اب یہ یو نیورسٹی چار سال کے قلیل مدت میں اس یو نیورسٹی کے ہم عمر یو نیورسٹیوں سے کئی قدم آگے ہے۔ جس کا کریڈٹ یقینااس کے روحِ رواں وائس چا نسلر ابراہیم خٹک کو جاتا ہے۔
اسی کریڈِٹ کے اظہار کے لئے اور کرک کے عوام کو کاغذ کا سفید حصہ دکھانے کے لئے یہ چند سطور لکھی جا رہی ہیں ،راقم الحروف جانتا ہے کہ اگر ایک طرف ضلع کرک کے سیاسی قیادت نے خوشحال خان خٹک یو نیورسٹی کرک کے قیام کے لئے کوششیں کی ہیں تو دوسری طرف ان چار سالوں کے دوران سیاسی قیادت نے اس یو نیورسٹی میں اپنے لوگوں کو بھرتی کرنے کے لئے وائس چانسلر پر کتنا دباوء ڈالا ہوگا مگر وائس چانسلر کے سامنے ہمیشہ یو نیورسٹی کا مستقبل سامنے رہا، انہوں نے قابل،اہل اور موزوں سٹاف اور منتظمین کو یو نیورسٹی کی خدمت کا مو قعہ دیا اور سیاسی قیادت کو خوش کرنے کے لئے ناہل لوگوں کو یو نیورسٹی میں بھرتی کرنے کی حامی نہیں بھری ،جس کی وجہ سے شاید ان لو گوں کو کاغذ کا سفید حصہ نظر آنے کے بجائے کالا نقطہ نظر آرہا ہوگا مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ خوشحال خان خٹک یو نیورسٹی کی بنیاد میں پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم خٹک کا خون پسینہ شامل ہے اور انہوں نے گزشتہ چار سال کے دوران جس طرح اس یو نیورسٹی کی آبیاری کی ہے وہ کرک کی تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھنے کے قابل ہے۔