تحریر: ساجد حبیب میمن 16 دسمبر 2014 صبح 10 بجے پاکستان پر قیامتِ صریٰ گزر گئی۔ آرمی پبلک سکول پشاور میں دشمن کی طرف سے خون کی ہولی کھیلی گئی اور مادرِ علمی کو معصوم بچوں کے خون سے نہلا دیا گیا۔ سات مسلحہ دہشت گرد جنہوں نے فرنٹیئر کور کی وردی پہن رکھی تھی تا کہ وہ اپنی پہچان چھپا کر سکیورٹی اداروں اور عام لوگوں کو دھوکہ دے سکیں، سکول کی بیرونی دیوار سے سکول کے اندر داخل ہوئے اور مرکزی ہال میں پہنچے جہاں نویں اور دسویں کلاس کے بچوں کو ابتدائی طبی امداد کی تربیت دی جا رہی تھی۔ سفاک دہشت گردوں نے معصوم طلباء پر اندھا دھند گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔
مرکزی ہال میں نویں اور دسویں کلاس کے بچوں کو نشانہ بنانے کے بعد ان درندوں نے کلاس رومز کا رخ کیا اور مختلف کلاس رومز میں جا کر طلباء و طالبات پر گولیاں برسائیں۔ حملہ کے چند منٹ بعد ہی پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز کا کوئیک رسپونس یونٹ آرمی پبلک سکول پہنچ گیا اور دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا۔ ایس ایس جی کمانڈوز نے 6 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا اور ایک نے خود کو دھماکہ سے اڑا لیا۔ تاہم اس وقت تک ملک و ملت پر سوگ طاری کرنے اور قوم کو ایک نیا ولولہ اور جوش دینے کے لئے کافی نقصان پہنچایا جا چکا تھا۔ حملہ کے نتیجے میں 132 معصوم بچوں، 9 اساتذہ اور 3 فوجی اہلکاروں سمیت 144 افراد شہید اور 113 زخمی ہوئے۔ شہید ہونے والے بچوں کی عمریں 9 سے 18 سال کے درمیان تھیں۔ یہ ایک ناقابلِ تلافی نقصان تھا اور ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اور ہولناک دہشت گردی کا واقعہ تھا۔ اس حادثے کی خبر ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور پورا ملک سکتہ میں آ گیا۔
اس اندوہناک کاروائی کی ذمہ داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے لی۔ ٹی ٹی پی کے جن درندوں نے اے پی ایس کے معصوم بچوں کو شہید کیا ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ ١۔ ابو شامل، اسے عبدالرحمان بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک چیچن جنگجو تھا، جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ ان کا سرغنہ تھا۔ ٢۔ نعمان شاہ ہلمند،یہ ایک افغانی تھا جو صوبہ ہلمند سے تعلق رکھتا تھا۔ حکومت امریکہ نے اس پر 500,000 امریکی ڈالر کا انعام رکھا ہوا تھا۔ ٣۔ وسیم عالم ہرات ،یہ ایک افغانی جو ہرات سے تھا۔ ٤۔خطیب الزبیدی ،عربی بولنے والا، جو مصری شہری تھا۔ ٥۔ محمد زاہدی،عربی بولنے والا، جو مراکشی شہری تھا۔ ٦۔ جبران السعیدی، ایک عرب جس کی شہریت نامعلوم ہے ۔ ان تمام درندوں کو پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز نے حملہ کے دوران ہی جہنم واصل کر دیا تھا۔ سم کارڈ جو اس کارروائی میں استعمال کیا گیا، وہ دیہی علاقے حاصل پور، پنجاب کی ایک خاتون کے نام پر تھا۔ اس واقعہ میں ملوث دیگر سہولت کاروں کو بھی دسمبر 2015 میں پھانسی دی جا چکی ہے۔
Army Public School Tragedy
آرمی پبلک سکول پشاور کا حملہ ملکی تاریخ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے ایک ٹرننگ پوائنٹ سمجھا جاتا ہے اور یہ بات بالکل درست ہے۔ مائوں کی اجڑی گودوں سے نکلنے والی صدائوں اور فریادوں نے قوم کو ایک نیا ولولہ اور ایک نئی ہمت دی ۔ ننھے بچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ تو دیا لیکن وہ سیاسی، فرقی، نسلی اور لسانی بنیادوں پر بکھری ہوئی قوم کو کچھ عرصہ لئے متحد کر گئے۔ سیاست دان بھی وقتی طور پر اپنے سیاسی مفاد ترک کر کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔ پاک فوج نے اس سانحہ کے بعد دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن لائحہ عمل اپنانے کا فیصلہ کیا۔ سیاسی و عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھی اور دہشت گردوں کی لعنت کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے لئے نیشنل ایکشن پلان وجود میں آیا۔ اس نیشنل ایکشن پلان کو تمام سیاسی جماعتوں نے قبول کیا ۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت بہت سے انقلابی اور ناگزیر اقدامات اٹھائے گئے جن میں سرِفہرست فوجی عدالتوں کا قیام اور ملک میں سزائے موت کی سزا کی بحالی تھی۔ اس مقصد کے لئے آئین اکیسویں ترمیم کی گئی۔ مختلف ناموں سے کام کرنے والے مسلحہ گروہوں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشت گردی کو فعال بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ نفرت انگیز تقاریر اور مواد شائع کرنے پر پابندی عائد کی گئی۔ دہشت گرد تنظیموں کے فنڈنگ کے ذرائع روکنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کئے گئے۔
شاختی کارڈز اور موبائل سموں کی نئے سرے سے بائیو میٹرک تصدیق کی گئی۔ملک بھر میں بہت سی جعلی این جی اوز کام کر رہی تھیںجو ایک طرف تو ملک سے پیسہ بٹور رہی تھیں اور دوسری طرف دہشت گردوں کو مالی و تیکنیکی معاونت فراہم کر رہی تھیں۔ پاک فوج کے حال ہی میں ریٹائر سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے دشمن کی ان شاطر چالوں کو سمجھتے ہوئے این جی اوز کی کڑی نگرانی کی اور دہشت گردوں کے ساتھ ان کا گٹھ جوڑ توڑنے میں بہت حد تک کامیاب رہے۔ ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں تیز کی گئیں اور ضربِ عضب کے تحت بھاگنے والے دہشت گردوں کو چن چن کر مارا گیا۔ سب سے اہم مسئلہ جس کی وجہ سے دہشت گردی کنٹرول نہیں ہو رہی تھی وہ پاک افغان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ کا نہ ہونا تھا۔ پاکستان نے بارہا افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کے مسئلہ پر گفت و شنید کی ہے لیکن افغانستان بھارت کی شہہ پر پاکستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا ۔ جنرل راحیل نے پاکستان کی طرف سے افغانستان سے آمدو رفت کنٹرول کرنے کا یکطرفہ انتظام کر دیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ کوئی بھی افغانی پاکستان میں بغیر سفری دستاویزات داخل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان افغان پناہ گزینوں کو افغانستان واپس بھجوا رہا ہے۔
دہشت گرد انہی پناہ گزینوں کی آڑ میں سرحد پار آتے جاتے تھے۔ نیشنل ایکشن پلان کا اگر جائزہ لیا جائے تو کڑے حقائق سامنے آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر صحیح معنوں میں عمل ہوا ہی نہیں۔ یا پھر یوں کہہ لیں کہ سیاسی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد ہونے نہیں دیا۔ اس پلان کی کچھ شقیں تو صرف فیصلہ کی حد تک محدود رہیں۔ انہی ناکامیوں کی وجہ سے دہشت گردی کی لعنت اب بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے اور وقفے وقفے سے ہمیں اس کا احساس ہوتا رہتا ہے۔ دشمن کی خفیہ ایجنسیاں اب بھی ارضِ پاک میں متحرک ہیں اور پینترے بدل بدل کر وار کر رہی ہیں۔ ملک کے اندر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے اندر اب بھی مسلحہ گروہ موجود ہیں اور فعال ہیں۔ این جی اوز کی آڑ میں اب بھی دہشت گردی کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔ جعلی شناختی کارڈز اور موبائل سموں کا دھندا اب بھی جاری ہے۔ دہشت گردی تنظیمیں اب بھی کسی نہ کسی طرح چندہ اکٹھا کر رہی ہیں۔ اگر ہمیں محفوظ رہنا ہے تو نیشنل ایکشن پلان پر مکمل اور بلاتفریق عمل کرنا ہوگا۔ ان تمام عناصر کو شکست دینا ہوگی جو پرامن اور خوشحال پاکستان کے دشمن ہیں۔ اس مقصد کے لئے جنرل راحیل شریف نے جو اقدامات کئے ان کا تسلسل ضروری ہے۔ امید ہے نئے آرمی چیف جنرل راحیل کی پالیسیوں کو جاری رکھیں گے۔ خدا پاکستان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔آمین۔
Sajid Habib Memon
تحریر: ساجد حبیب میمن موبائل: 0321-9292108 ای میل: sadae.haq77@gmail.com