تحریر : راؤ خلیل احمد پیرس میں آج کل خنکی عروج پر ھے درختوں سے پتے ایسے جھڑ چکے ہیں جیسے کبھی ہوئے ہی نہ ہوں۔ خشک ڈالیاں دن میں کسی سحرہ کی خشک سالی سے متاثر جنگل کی ماند نظر آتی ہیں مگر شام ہوتے ہی برقی قمقموں کی آرائش انہی درختوں کو حیران کر دینے والی خوبصورتی میں بدل دیتی ہے۔ عید میلاد آقائے دو جہاں، تاجدار کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور عید میلاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک ہی ماہ میں ہونے کی وجہ سے مسلمان اور عیسائیوں میں یکساں جزبات ہیں۔ جشن میلاد آقائے دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اہتمام پیرس کی اکثر مساجد میں شایان شان انداز میں منایا گیا۔
عید میلاد کا جلوس مسجد قباء سے شروع ہوا ور مقامی شہر ویلیل لابل کی گلیوں سے ہوتا ہوا مسجد قباء ہی میں اختتام پزیر ہو جس میں پیرس کی تمام تنظیمات کے سربراہان کے علاوہ عوام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ منھاج القرآن فرانس نے جشن میلاد کا اہتمام بھی اپنی روایات کے مطابق کیا، منھاج ویلفئیر فاونڈیشن کی جانب سے میلاد کی خوشی میں فری چائے اور تازہ جلیبیوں کا سٹال ہر خاص و عام کے لیے تھا۔ سفیر منھاج القرآن علامہ حافظ نزیر احمد نے رسول خدا کی سیرت پر گفتگو فرمائی۔ مسجد پیری فیت ، مسجد انجمن فلاح دارین ، مسجد حلقہء احباب میں بھی جشن میلاد کے پروگرام ہوئے۔ اور عاشقان رسول یورپ میں بھی گھر گھر پروگرامز کا انعقاد کر رہے ہیں۔
فرانس میں جیسے جیسے خنکی بڑھ رہی ہے وہاں سیاسی درجہ حرارت اپنے عروج کی جانب گامزن ہے ، مئی 2017 میں ہونے والے الیکشن کے لیے صف بندیاں ہو چکی ہیں۔ فرانس کے موجودہ صدر فرانسوا ہولنڈ { François Hollande ] نے اگلے سال ہونے والے صدارتی الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے۔ اپنے اس اعلان میں انھوں نے کھلے دل سے اپنی اس ناکامی کا اعتراف کیا کے فرانس کے صدر کے طور پر جو زمہ داریاں انھیں نبھانی تھیں وہ اس کا حق ادا نھیں کر سکے اس لیے وہ نہیں سمجھتے کہ انھیں الیکشن 2017 میں صدارتی امیدوار ہونا چاہیے۔ فرانس کے 2007 سے 2012 تک وزیر اعظم رہنے والے فرانسوا فیلوں فرانس کے صدارتی الیکش 2017 میں (UMP) کی جانب سے صدارتی امیدوار ہونگے ۔ انٹر پارٹی الیکشن میں وہ پہلے ٹور میں سابق صدر نیوکولا سارکوزی اور دوسرے ٹوور میں معروف رہنما Alain Juppé کو ہرا کر 2017 میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں سب سے تگڑے امید وار بن کے سامنے ہیں۔
François Hollande
فرانس کے وزیر اعظم Manuel Valls [ والز مینول] اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہو کر 2017 کے صدارتی الیکش کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔ 13 مارچ 2014 کو وزارت عظمیٰ کا قلم دان سمبھالنے والے Manuel Valls [ والز مینول] نے 13 اگست 1962 کو سپینش باپ اور سوئس ماں کے بطن سے سپین کے شہر بارسلونا میں جنم لیا۔ آپ کا تعلق سوشلسٹ پارٹی سے ہے ۔ موجودہ صدر فرانسوا ہولند کی صدارتی الیکش میں شرکت سے معزوری کے بعد سوشلسٹ پارٹی کی جانب سے Manuel Valls ایک مضبوط امیدوار ہیں۔
امریکہ میں ڈونلڈ کی جیت سے فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی فرنٹ نیشنل اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ سوشلسٹ پارٹی کے Manuel Valls [ والز مینول] اور ڈیموکریٹ کی جانب سے François Fillon صدارتی الیکشن 2017 میں اپنے کیمپ (UMP) سے امیدوار ہیں ۔ جبکہ فرنٹ نیشنل کی میری لا پن اگلے الیکشن میں حقیقی خطرہ ہیں۔ 2012 میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں موجودہ صدر فرانسوا ہولند پہلے ٹوور میں 28 اشاریہ 63 فیصد ،سابق صدر نیوکولا سارکوزی 27 اشاریہ 18 فیصد فرنٹ نیشنل کی جان میری لاپن 17 ایشاریہ 90 فیصداور فرنٹ لفٹ کے Jean-Luc Mélenchon نے 11 اشاریہ 10 فیصد ووٹ لیے تھے ۔ 13 نومبر 2015 میں ہوئے حملے کے بعد فرانس کی عوام کیا ٹرن لے گی۔ یہ وقت بتائے گا۔ امریکہ میں ٹرمپ کی فتح کے بعد فرانس میں صورتحال کچھ غیر یقینی سی ھے۔ میری لاپن تیسری بڑی طاقت تھیں موجودہ حالات کے تناظر میں وہ دوسری بڑی طاقت بننے کی پوزیشن میں ہیں۔
فرنچ وزیر اعظم Manuel Valls کے مستعفیٰ ہونے کے بعد صدر فرانس فرانسوا ہولند نے Bernard Cazeneuve[برناکازنیو] کو فرانس کے نئے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کر دیا ہے۔ دسمبر کی سردی کے باوجود فرانس میں پاکستانی کمیونٹی شرمندگی کے پسینے سے شرابور ہے ۔اس کی وجہ فرانس خفیہ پولیس کی وہ کاروائی ہے جس میں جعلی کمپنیاں ، ٹیکس میں دھوکہ دہی ، غلط کریڈٹ کارڈ کے استعمال اور منی لانڈرنگ پر 8 پاکستانیوں کو گرفتار کیا ۔ گرفطار ہونے والوں میں کامران گھمن ، گلزار لنگڑیال اور ظفر ملک شامل ہیں ۔ ان جرائم میں ان پکڑے جانے والوں کے علاوہ سیکڑوں لوگ اور بھی شامل ہیں جن کا نمبر بھی جلد ہی آ جائے گا۔ مگر اصل پریشانی کی وجہ پیرس کے وہ فنگشن ہیں جو ان لوگوں کے فنانس سے چلتے تھے۔
کامران گھمن پاکستان پیپلز پارٹی یورپ کے کوارڈینیٹر کا عہدہ استعمال کرتے تھے اور خوب خرچ کرتے تھے۔ چوہدری گلزار لنگڑیال کوارڈینیٹر ، پاکستان تحریک انصاف کے رنگارنگ پروگراموں کی پہچان اور کچھ صحافیوں کی بھی جان تھے۔ ان حالات میں آب کون لوٹائے گا پیرس کے پروگراموں کی رونق ؟ کون کرے گا اب اہتمام ؟ اور کون ہوگا فرنچ پولیس کا اگلا ۔ ۔ ۔