تحریر : ماورا طلحہ الحمد اللہ رب العلمین وا لصلوة و السلام علیٰ سیدنا محمد خاتم النبیین و علیٰ اللہ وا صحب اجمعین و من تبیعھم با احسان الٰی یوم الدین۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ پر لاکھوں صفحات لکھے جا چکے ہیں مگر سیرت کے ایک ایک پہلو پہ قیامت تک لکھا جاتا رہے گا۔ دنیا کے سارے درخت کاٹ کے قلم بنا دیے جائیں اور سمندر کا پانی دوات کا روپ دھار لے تو بھی سیرت کے باب کا حق ادا نہیں ہوتا۔ نبی کریم کی سیرت اس قوت ایمانی اور جوش ِاسلامی کے طاقتور ترین سر چشموں میں سے ہے جس کو امتِ مسلمہ نے دل کی انگیٹھیوں کو سلگانے اور دعوتِ ایمانی کے شعلے کو تیز تر کرنے میں استعمال کیا۔سیرت اک ایسا پاکیزہ آئینہ ہے جس کے عکس میں ہر انسان اپنی زندگی سوار سکتا ہے۔
انسانیت کفریہ نیند میں سوئی ہوئی تھی۔جہالت کے لبادے اوڑھے اصلاحی موسموں سے بے نیاز تھی۔مشرق سے مغرب تک رحمٰن و رحیم سے نا آشنائی تھی اور کفاریت کا راج تھا۔ ہر طرف جنوب سے شمال تک ، عرب سے عجم تک ، زمین سے آسمان تک نافرمانی کا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ آنکھیں نور حقیقت سے محروم تھیں ، سماعت کلمہ حق سے نا آشنا تھی ، خالقِ کل دو جہاں کا فرمان کسی بوسیدہ کوٹھری کے اندھیروں میں چھپا دیا گیا تھا ، مذہب ، وحدانیت ، خدا ، سب مو ضوعات قصہ ِپارینہ بن چکے تھے۔ حقوق العباد اپنی موت مر چکے تھے۔انسانیت بے جا ن لاشہ بن چکی تھی ۔جس کو ہر انسان بڑے فخر سے اپنے کندھوں پہ اٹھا ئے ہوئے تھا۔ الغرض ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔
ایسے طوفان ِ کفریہ میں پر سکون صبا چلی تھی ، اندھیروں میں ہدایت کی شمع جلی تھی۔ حضرت محمدۖ کو داعِی اعظم بنایا گیا اور شمعِ ہدایت کو چہار سو بکھیر دیا گیا۔ہدایت کا جگنو دستِ مبارک میں پکڑا دیا گیا اور اہلِ عرب و عجم پروانوں کی طرح نثار ہو ئے۔ تعلیماتِ نبوی کو سینوں میں جگہ دی اور جنت کے امید وار ٹھہرے۔بندے بندوں کی غلامی سے نکل کر اللہ کی بندگی میں داخل ہو گئے۔ اسی رحمت کا نتیجہ تھا کہ پیرو کار گھروں سے نکلے ، چپّے چپّے کی خاک چھانی ، راحت و سکون کو خیر باد کہا اور دین کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ داعِی اعظم کے نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے دعوتِ کا حق ادا کیا اور اس کا یہ اثر ہوا کہ ا یمان کے جاں فزا جھونکے چلے۔ جنت کی راہیں ہموار ہو گئیں ، دشتِ جہنم سمٹ گیا اور اسلام مکہ کی گھاٹیوں سے نکل کر فارس کے آ تش کدوں ، ہند کے بت کدوں اور مصر کے اہراموں تک پہنچ گیا۔ریت زاروں نے، پہاڑوں نے کلمہ توحید سنا اور ویرانوں میں اذانیں گونجنے لگی تھیں۔یہ سب دعوت کا سر چشمہ تھا اور اس سر چشمے کی بنیاد محبوبِ خدا حضرت محمد ۖتھے۔
حضرت محمد ۖ کو اللہ کی طرف بلانا اور ہدایت کی دعوت دینا سب سے زیادہ محبوب تھا۔ حضور اکرم ۖ نے مخلوق کو خالق سے جوڑنے کی زبر دست کوششیں کی۔مخلوقِ خدا کو فلاح کی دعوت دیتے ہو ئے بہت سے مشکل مرحلوں سے نبرد آزما ہوئے۔کبھی جادو گر اور ساحر کہلائے اور کبھی گھاٹیوں میں قید کر دییگئے ۔عورت ، پیسہ ، حکمرانی الغرض ہر طرح کا لالچ دیا گیا۔ دعوت کے سفر میں پتھر کھائے اور تلوؤں تک لہو لہان ہو ئے مگر کلمِہ حق کہتے رہے۔ حضرت ۖکو اس بات کی بہت تڑپ تھی کہ تمام لوگ ایمان لے آئیں۔
حضرت محمدۖ کی ہمہ گیر کو ششوں کا نتیجہ تھا کہ دینِ محمد آسمان جتنا وسیع ہو گیا اور ہدایت پانے والے اس کے آغوش میں آتے چلے گئے۔ اس بارے میں احادیث بھی ملتی ہیں۔ ” حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اقدس کو یہ فرماتے ہو ئے سنا کہ جہاں تک دن رات پہنچتے ہیں( یعنی کہ ساری دنیا میں) یہ دین ضرور پہنچے گا ، ہر کچے پکے گھر میں اللہ تعالیٰ اس دین کو ضرور داخل کریں گے ، ماننے والے کو عزت دے کر اور نہ ماننے والے کو ذلیل کر کے۔۔۔حضرت تمیم داری فرمایا کرتے تھے کہ میں نے یہ منظر اپنے خاندان میں دیکھا ، جو مسلمان ہو ئے خیر و شرافت اور عزت نے ان کے قدم چومے اور جو کافر رہے وہ ذلیل ہوئے اور ان کو چھوٹابننا پڑا اور جزیہ دینا پڑا۔” بحوالہ اخرجہ احمد و الطبرانی کذا فی فی الجمع(ج6 ص 14) و ( ج 8ص262 ) قال الہشیمی (ج 6ص14 ) رجال احمد الصیح امنتہیٰ۔ حضرت محمد ۖ نے فرداًفرداً بھی لوگوں کو دعوتِ اسلام دی۔ ہدایت کا چراغ لے کر اک اک انسان کے پاس گئے تاکہ ان کی امت عذابِ جہنم سے بچ سکے۔ آفتابِ کائنات نے دعوت کے عمل کو سر انجام دینے کے لیے اور کفر کو مٹانے کے لیے کھلے عام بھی دعوت دی اور اس فرض کو لے کر ہر غلام ، وحشی ، حبشی ، سردار ، چور ، شرابی ، جواری ، زانی ، منافق ، یہودی ، آتش پرست اور عیسائی کے پاس گئے۔
Allah
حضرت محمد ۖ نے حضرت عمر ، حضرت ابو بکر ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت عمرو بن عتبہ ، حضرت خالد بن سعید بن العاص ، حضرت ضماد ، حضرت حسین ، حضرت معاویہ بن حیدہ ، حضرت عدی بن حاتم ، حضرت ذوالجوشن ، حضرت بشیر بن خصامیہ ، حضرت ابو قحافہ ، حضرت ابو سفیان اور ایسے کئی نام جن کا احاطہ کرنا مشکل ہے دعوت ِ رسولِ مقبول ۖسے دائرہ اسلام میں داخل ہو ئے۔ ” احادیث میں آتا ہے کہ حضور اکرم ۖ حضرت ابو بکر کے اسلام لانے سے اس قدر خوشی کے ساتھ واپس ہو ئے کہ کوئی مکہ کی ان دو پہاڑیوں کے درمیان جن کواخبثین کہتے ہیں ، آپ سے زیادہ خوش نہ تھا ” بحوالہ اخرجہ الحافظ ابو الحسن الاطرابلس کذافی البدا ی? (ج 3 ص 29 ) حضرت محمد ۖ نے رشتے داروں اور عزیز و اقارب کو بھی دعوتِ حق دی۔
اگر پیغمبرِِ خدا سفر میں ہو تے تب بھی انہیں امت ِمحمدیہ کی فکر لاحق ہو تی۔ وہ سفری مصیبتوں کے باوجود بھی اپنا فریضہ سر انجام دیتے تھے۔سفر و خضر میں بھی وہ اپنے مقصد سے نہیں چونکتے تھے۔سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ دعوت ِ حق کے لیے کئی کئی میل پیدل سفر کرتے۔طائف والوں کو دعوت دینے کے لئے پیدل تشریف لے گئے۔ حضرت محمدۖکی امت سے محبت کا یہ عالم تھا کہ میدانِ جنگ میں جب تک کسی قوم کو دعوت نہ دے لیتے اس وقت تک ان سے جنگ کرنے کا حکم نہیں دیتے تھے۔
” حضرت عبد الرحمٰن بن عائد فرماتے ہیں جب حضور اکرم ۖ کوئی لشکر روانہ فرماتے تو ان کو یہ نصیحت فرماتے کہ لوگوں سے الفت پیدا کرو۔” بحوالہ و اخرجہ ابن مندہ و ابن عسا کر کذافی الکنز ( ج 2 ص 294 ) واخرجہ ایضا ًابن شاہین والبغوی کحا فی الاصابہ ( ج 3 ص 152 ) والترمذی (ج 1 ص 195 )۔ حضرت محمد ۖنے دعوت و تبلیغ کا فریضہ صرف خود تک محدود نہیں رکھا بلکہ صحابہ اکرام کو بھی اس مقصد کو پورا کرنے کا حکم دیا۔ دین سمجھانے کے لیے صحابہ کو دور دراز کے علاقوں میں بھیجتے تھے۔ حضرت محمدۖاپنی امت کے اتنے خیر خواہ تھے کہ صحابہ کرام کے وفود اور خطوط کے ذریعے تمام ملکوں کے بادشاہوں کو توحید کی دعوت دی ، حق کی طرف بلاتے رہے اور کفر و نجات سے بچانے کے لیے داعِی اعظم بنے رہے۔ ” حضرت جابر فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ۖنے اپنے انتقال سے پہلے کسریٰ اور قیصر اور ہر ظالم اور سر کش بادشاہ کو ( دعوت کے ) خطوط بھیجے تھے۔”
( بحوالہ اخرجہ احمد الطبرانی قال الہشیمی (ج5 ص305 ) وضیہ ابن لہیعتہ وحدیشہ حسن و بقیہ رجالہ رجال الصیحیح ) الغرض ہمارے پیارے نبی ۖسرور کائنات ، محبوب خدائے ساری زندگی دعوت و تبلیغ کا عمل جاری رکھا۔سیرتِ سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے سے اس بات کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ دینِ محمدیۖبزو ر طاقت نہیں پھیلا بلکہ اس دین کی ترقی و ترویج حضرت محمدۖکے اعلیٰ اخلاق و کردار اور دعوت کے عمل کی مرہون ہے۔ یہ بات چمکتے سورج کی طرح عیاں ہیں کہ آپ ۖ کے کردار و عمل کو دیکھتے ہوئے پتھر دل لوگ بھی مشّرف با اسلام ہوئے۔ دعوت و تبلیغ نے دین کا پرچم سبزہ زاروں ، ریگستانوں اور برف زاروں تک پہنچا دیا۔ دین ِ محمد دعوت ِ تبلیغ کے ذریعے دلوں کی اندھیری وادیوں تک پہنچا اور دعوت کے اصول و ضوابط ہمیں سیرت محمدی ۖسے ملتے ہیں۔ آپ ۖ کی سیرت ہر انسان کے لیے رہنمائی کا سر چشمہ ہے۔ آپ ۖ داعی ِ اعظم ہیں اور ابد تک رہیں گے۔ سرور کونین ۖکے حضو ر دل کے نہاں گوشوں سے نذرانہِ عقیدت پیش کرتی ہوں اور امید رکھتی ہوں کہ قبولیت کا شرف حاصل کر سکوں۔
انہی سے ہیں میری نسبتیں ، انہی سے میری راہبری بھی وہ ہی ظلمتوں میں ہیں راہنماء وہ ابد تک وہ ازل سے ہیں