تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر برما کے مظلوم مسلمان بھیڑ بکریوں کی طرح روزانہ ذبح ہو رہے ہیں جن کو سرعام برہنہ کر کے ان کے حلقوم پر خنجر چلائے جا رہے ہیں جہاں مسلمان بیٹیوں کی عصمتوں کو درندے نما انسان نوچ رہے ہیں جن کے معصوم بچوں کے لاشے گلیوں بازاروں میں بے گورو کفن پڑے ہوئے تمام نام نہاد مسلم دنیا سے مدد مانگ رہے ہیں کیونکہ ان مظلوموں کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ آقائے دوجہاں ۖ کا کلمہ پڑھتے ہیں اور سرکار ختمی مرتبت ۖ کے امتی ہیں اسی جرم کی پاداش ہی میں تو انکے جسموں کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جارہا ہے کیا بر ما کی مائیں بہنیں بیٹیاں امت رسول ہونے کے ناطے ہماری کچھ نہیں لگتیں ؟برما ہی کی ایک بے بس و بے کس مظلوم بیٹی کا وہ واقعہ جو مجھے پڑھے ہوئے ایک ہفتے سے زائد ہو چکا ہے جس واقعے کو بیان کرتے ہوئے زبان لڑ کھڑا جاتی ہے۔
قرطاس پہ رقم کرتے ہوئے قلم رک جائے ایک ہفتے سے اسی کشمکش میں تھا کہ اس بیٹی پر ہونے والے ظلم کو کیسے بیان کروں اور کس سے بیان کروں ان لوگوں سے بیان کروں جو قرآن پر حلف اٹھا کر مکر رہے ہیں یا ان مسلمانوں کو بتائوں جن کو اپنی اقدار سے اب کوئی واسطہ ہی نہیں اسی شش و پنج میں کتنے دن بیت گئے بالآخر اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے آج قلم کو اٹھا تو لیا ہے مگر قلم کو قرطاس پر چلاتے ہوئے بخدا میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی ہیں اور پورا وجود جیسے سن ہو کر رہ گیا ہے بات کچھ ایسے ہے کہ برما کہ بے غیرت اور انسانی شکل میں درندے بدھ بھگشو ایک دختر اسلام کو اٹھا کر گھسیٹتے ہوئے ایک مسجد میں لے گئے اور مسجد کے سپیکر کھول کر اس مظلوم مسلمان بیٹی پر جنسی مظالم کی انتہائوں پر پہنچے اس بے بس مسلم زادی کی چیخوں سے علاقہ گونجتا رہا وہ اللہ کا گھر اس بیٹی کی زبان بن کر تمام عالم اسلام سے مدد کی بھیک مانگتا رہا مگر افسوس اس بیٹی کی عزت و عفت کو بچانے کوئی نہ آیا ظالم خدا کے گھر میں اپنا شیطانی کھیل کھیلتے رہے۔
ایک مسلمان بیٹی کو لوٹتے رہے اور اپنی شیطانی ہوس کی تکمیل کر کے ایک کلمہ پڑھنے والی کو اس کے خدا کے گھر میں مردہ حالت میں چھوڑ کر بے غیرت اپنا کام کر گئے اور پوری دنیا کے سوئے ہوئے مسلمانو ں کی غیرت کو للکارتے ہوئے چلے گئیاور عالم اسلام میں بسنے والے نام نہاد مسلمانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی بلکہ بے حسی کی انتہا دیکھیں کہ کبھی ہمارے میڈیا نے بھی برما کے مظالم پر بات کرنا گوارا نہیں کیا برما میں زیادتی کا نشانہ بننے والی صرف ایک بیٹی کا میں بڑے حوصلے کیساتھ اپنے قارئین کو بتا پایا ہوں ورنہ جو سلوک برما میں میری مسلمان مائوں بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہو رہا ہے اسے رقم کرنے کے لئے سینے میں دل کی جگہ پتھر نہیں بلکہ چٹان کا ہونا ضروری ہے۔
کیسے لکھوں کہ وہ بدھ بھگشو کس طرح برہنہ کر کے درختوں کے ساتھ الٹا لٹکا کر ایک دوسرے کی آنکھوں کے سامنے ذبح کر کے بوٹیوں میں بانٹ کر ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ انسانی گوشت بکھیر رہے ہیں اور کتنے مجبور و بے بس ہیں برمی مسلمان جہاں باپ کی آنکھوں کے سامنے اس کی اولاد کاٹی جا رہی ہے بھائیوں کے سامنے انکی جوان بہنوں کی عصمتیں تار تار کی جا رہی ہیںمائوں کی آنکھوں کے سامنے انکی گود سے بچے چھین کر معصوم گلے کاٹے جا رہے ہیں ۔کتنے عظیم ہیں وہ قربان ہونے والے مسلمان جو کسی بھی قیمت پر اپنا ایمان چھوڑنا گوارا نہیں کر رہے سچی بات یہی ہے کہ ان کا قتل عام ہو رہا ہے تو صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے برما کی مائوں کی گودیں ویران ہو رہی ہیں تو فقط اس جرم میں کہ وہ خاتم الانبیاء ۖ کے امتی ہیں بیٹیوں کی عزتیں پا مال ہو رہی ہیں تو اسی جرم میں کہ وہ رحمت دوجہاں کی نام لیوا ہیں۔
Myanmar Muslim Killing
اگر برمی مسلمانوں کو اپنی زندگیاں پیاری ہوتیں تو کب کے اسلام کو چھوڑ کر بدھ مت اپنا چکے ہوتے اور چین و سکون سے اپنی زندگی بسر کرتے مگر انہوں نے کسی بھی قیمت پر دین کی سودے بازی نہیں کی کس قدر صاحب عظمت ہیں برمی مسلمان اور کتنے بے حس ہیں پوری دنیا کہ نام نہاد مسلمان جو انکی مدد کو جانا تو درکنار انکی حمایت میں زبان کھولنا بھی عیب سمجھتے ہیں اس بے حسی میں سارے ہی مسلمان برابر کے شریک ہیںکہ ہمارے ہاں وزیر اعلی کو نزلہ ہو جائے تو ہمارا گلیمر زدہ میڈیا فو ری طور پر نیوز بریک کردے گا ،کسی اداکارہ کا راہ چلتے جوتا ٹوٹ جائے تو بریکنگ نیوز بنا کر پیش کر دی جائے گی ،اگر سپیکر اسمبلی کو ان کے سیدھے نام سے پکارا جائے تو ہمارا میڈیا شور مچا دے ، ابھی رات کو پشاور سے ایک خبر بریک کی گئی کہ لمبے بندے کا بڑے سائز کا جوتا تیار کر لیا گیا کاش یہ میڈیا یہ بھی دکھا پاتا کہ ہمارے مسلمان بھائی اور مائیں بہنیں کلمہ رسول ۖ پڑھنے کی پاداش میں جیتے جاگتے انسانوں سے گوشت کے ڈ ھیروں میںتبدیل ہو رہے ہیں ،مگر افسوس میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انہوں نے اپنی زبان سے کبھی برما میں جاری انسانیت سوز مظالم پہ کبھی بات بھی کی ہو ۔مسلم حکمرانوں کا یہ عالم ہے کہ اپنی عیاشیوں کی تسکین کے لئے دوسرے مسلمان ملک میں تلور کے علاوہ ہر قسم کا شکار کھل کر کھیل رہے ہیں۔
قطر والے تو ایک قطار میں پہلے ہی سے یہاں موجود ہیں اب مرکز اسلام سعودیہ سے بھی چند شہزادے شکار کی لذت سے آشنائی کے لئے آ رہے ہیں اور ہمارے اسلام کے جانثار حکمران ان کو یہ سب سہولتیں مہیا کر رہے ہیں ان مسلمان ملکوں کے عیاش شہزادوں نے کبھی اسلام کے نام پر کٹ مرنے والوں کے بارے میں کبھی زبان کو حرکت دینے کی زحمت گوارا کی ؟ معذرت کے ساتھ ایک بات کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ ہمارے معزز حکمرانوں کا نام پانامہ لیکس میں آیا تو ہر طرف ایک حشر برپا ہو گیا اپوزیشن نے اپنے لائو لشکر صف آرا کئے تو حکرانوں نے بھی اپنی سیاسی فورس کو پوری طرح سرگرم کر دیا لیکن میں جو بات یہاں کرنا چاہ رہا ہوں وہ ہے کہ پانامہ پیپرز میں جہاں صاحب حکومت کا ذکر تھا وہاں انکی صاحب زادی کا نام بھی گردش کرنے لگا جب اپنی بیٹی کا نام آیا تو ان کی عزت کی خاطر ہمارے صاحب اختیار محترم وزیر اعظم اور ان کی ساری کابینہ نے یک جان ہو کر زور لگانا شروع کر دیا۔
یہ کوئی بری بات بھی نہیں ایک بیٹی کے لئے ایسا کرنا بھی چاہئے دیکھا نہ اپنی بیٹی کے لئے کہاں کہاں سے ثبوت ڈھونڈ کر لانے پڑے خالق کائنات ہر بیٹی کی عفت و عصمت کو محفوظ فرمائے میں صرف یہاں ایک عرض کرنا چاہتا ہوں کہ الحمدوللہ پاکستان دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی قوت کا اعزاز رکھتا ہے اور اسلام کے نام پر ویسے تو ہمارے دعوئے بڑے بلند وبانگ ہیں مگر برما میں لٹنے والی کسی مریم کی وجہ سے کبھی حکمرانوں کے چہرے عرق آلود نہیں ہوئے دنیا بھر میں کسی بھی پلیٹ فارم پر حکومت پاکستان نے کبھی برما میں ہونے والے مظالم کے خلاف کوئی احتجاج درج نہیں کروایا اگر ہمیں مسلمان ہونے پر ناز ہے تو یہ ناز کرنیتب ہی ہم کرنے کا حق رکھتے ہیں جب کسی مصیبت زدہ مسلمان کے کام آئیں بحثیت مسلمان ہم سب ایک ہیں تو کیوں برما کے مسلمان لاوارثوں کی طرح مارے جا رہے ہیں انہیں کون یقین دلائے گا کہ اگر وہ دین کی حرمت کے لئے اپنی جانیں ، اور عزتیں نچھاور کر رہے ہیں تو ہم ان برمی مسلمانوں کے بھائی ہیں ہر برمی مسلمان ماں کے بیٹے ہیں اور ہر برمی مسلمان بیٹی کے وارث ہیں ۔ خدا کے لئے اپنے اسلاف کی روش کو بروئے کار لاتے ہوئے اٹھ کھڑے ہو ں ارے مسلمان تو اللہ کی اس طاقت کے امین تھے کہ ایک ہندو لڑکی اگر مدد کے لئے پکارے تو اس کی عزت کی بھی حفاظت خود پر فرض سمجھتے تھے آج کا مسلمان کیوں اتنا بے حس اور احساس سے محروم ہو گیا کہ اسے اپنی چیختی چلاتی روتی بلکتی مسلمان بیٹیوں کی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی وہ برما کی بیٹیاں تجھے مخاطب کر کے کہہ رہی ہیں کہ۔۔۔۔۔
بولتے کیوں نہیں میرے حق میں آبلے پڑ گئے زبان پہ کیا
Dr M H Baba
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر Mobile ;03344954919 Mail; mhbabar4@gmail.com