سماج میں پیسے کا رواج

Corruption

Corruption

تحریر : افضال احمد
جس برق رفتاری سے سماج ترقی کی طرف گامزن ہے بالکل اسی طرح ہم برق رفتاری سے موت کی طرف بھی بڑھ رہے ہیں لیکن بات صرف سمجھنے کی ہے جو ہم نہیں سمجھ رہے’ دنیا میں عیش و آرام کی زندگی گزارنے کیلئے دن رات مصروف ہیں۔ پیسہ جمع کرنے کی فکر نے ہمیں موت سے غافل کر دیا ہے’ ہمیں آج کی فکر نہیں بلکہ اگلے 50 برسوں کیلئے بھی پیسہ اکٹھا کرنے کی فکر کھائے جا رہی ہے حالانکہ موت نے بڑے بڑے رئیس لوگوں کو بھی اپنا لقمہ بنا لیا۔ پیسے کے حصول نے ہمیں درندہ بنا دیا ‘ عمروں کا لحاظ بھلا دیا ‘ بڑے چھوٹے’ ماں باپ’ بہن بھائی سب رشتے پیسے کی وجہ سے دفن ہو کر رہ گئے ہیں۔ اولاد ماں باپ سے پیسوں کی امید لگائے بیٹھی ہے’ ماں باپ اولاد سے پیسوں کی امید لگائے بیٹھے ہیں’ پیسے نے کوئی رشتہ سلامت نہیں چھوڑا’ سنا ہے قیامت کے روز کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا یہاں تک کہ ماں باپ اپنی اولاد کے کام نہیں آئیں گے’ یہ کیا ہو گیا قیامت سا منظر زمین پر برپا ہو گیا؟ صرف پیسہ پیسہ اور بس پیسہ۔

آہ! سماج میں پیسے کو رواج بنا ڈالا’ سماج میں جس کی جیب میں پیسہ ہے لوگ اُس سے جھک کر ملنا رواج سمجھتے ہیں۔ سڑکوں پر جو بھکاری مانگ رہے ہیں یہ غریبوں میں شامل نہیں ہیں’ ارے غریب کیلئے تو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا موت ہے’ بلا ناغہ اخبارات بھرے ہوتے ہیں ”فلاں نے غربت سے تنگ آکر خودکشی کر لی’ فلاں سے غربت سے تنگ آکر اپنے بچے ذبح کر ڈالے” آج تک کبھی کسی نے یہ سنا کہ ایک بھکاری نے غربت سے تنگ آکر خود کشی کر لی؟ ہاں یہ ضرور سنا ہو گا فلاں بھکاری نشے کے ٹیکے لگاتے لگاتے جان سے گیا’ ارے یہ ہمارے سماج کو کون کھا گیا؟ میرے ملک کے ننھے ننھے بچوں کے سر سے ماں تو کبھی باپ کا سایہ اُٹھ رہا ہے’ غریب لوگوں کے گھر موت کے خیمے لگ گئے ‘ ہم نے اپنے سماج میں روائتی بھکاریوں پر پیسہ لٹانا ہی ثواب سمجھ لیا۔ غریب کے بچے دودھ کا ذائقہ چکھے بغیر قبروں میں جا سوئے’ امیروں کے بچے مہنگے سے مہنگا جوس بھی نوش فرما رہے ہیں’ حوا کی بیٹی نے بچوں کے دودھ کی خاطر اپنی عزت امیروں کے ہاتھ نیلام کر ڈالی’ میرے سماج کے ”عارضی امیر” لوگو خدا کو تم نے کون سا منہ دکھانا ہے۔ یہی منہ جس سے پیسوں کی خاطر جھوٹ بول کر سچے کو جھوٹا اور جھوٹے کو سچا ثابت کر دیا؟ خدا کے بنائے ہوئے انسان کو دھوکہ دے کر خدا کا سامنا کس منہ سے کرو گے؟۔

حوا کی بیٹی کو ہم نے کھلونا بنا ڈالا’ اپنے گھروں میں کام کرنے والی ملازمہ کو ہم نے اپنی حوس کا نشانہ بنا ڈالا’ حوا کی بیوہ بیٹی اپنے بچوں’ بیمار ماں باپ کی دوائی کی خاطر عزت گنوانا بھی برداشت کر گئی’ ہمارے معاشرے میں بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے گھروں میں کام کرنے والی عورتوں کو ہم تنخواہ اچھی نہیں دیتے مثلاً تین سے چار ہزار روپے ‘عورت ان پیسوں میں اپنے گھر کو کیسے چلائے؟ یہی امیر زادے بازارِ حسن میں جا کر بیس بیس ہزار روپے میں لڑکی کی عزت کو چند منٹوں کیلئے خرید لاتے ہیں لیکن اپنے گھر میں کام کرنے والی عورتوں کو مہینے بعد چند ٹکوں میں گزارا کرنے کو کہتے ہیں’ ہاں اگر کوئی ملازمہ ان امیر زادوں کی حوس کی پیاس بجھا دے تو اُس ملازمہ پر یہ امیر زادے ضرور مہربان ہو جاتے ہیں۔

Corruption

Corruption

شیطان ہمارے نفس پر حکومت کرنے لگا ہے’ شیطان ہمیں کہہ رہا ہے ارے میاں رشوت میں مزا ہے’ سود میں مزا ہے’ زناکاری میں مزا ہے’لڑکیوں کو شادی کا جھانسا دے کر ان کی عزت دی دھجیاں اُڑا دے’ جھوٹ بولنے میں مزاہے’ ماں باپ کی نافرمانی میں مزا ہے’ شراب پینے میں مزا ہے’ بیوی کو مارنے میں مزا ہے’ بازاروں میں جا کر نئی نئی لڑکیوں سے منہ کالا کر’ بیوی تو گھر کی کھیتی ہے’ غریب عورتوں کی مجبوری سے فائدہ اُٹھا کر ان سے زنا کر’ تیرا بھائی تجھ سے زیادہ امیر ہو رہا ہے اُسے قتل کر دے پھر سب کچھ تیرا ہو گا’ جوانی ہے عیش کر لے’ بد نظری کر لے’ ننگے ناچ دیکھ لے’ پڑھے لکھے نوجوانوں سے نوکری کے بدلے رشوت وصول کر اور اگر نوجوان لڑکی نوکری کیلئے تیرے پاس آئے تو اسے اپنی حوس کا نشانہ بنا ڈال’ پیسہ جہاں سے آئے جیسے آئے جمع کر’ یہی شیطان جب ہم برے اعمال کے ساتھ قبر میں دفنائے جا رہے ہوں گے تو قہقہے لگا کر ہنسے گا اور کہے گا اے انسان ہمارا ساتھ یہاں تک تھا اب تو اپنے برے اعمال کی سزا اکیلا قبر میں بھگت’ شیطان اللہ سے دور کر رہا ہے، جنت سے دور کر رہا ہے۔

استاد کریم بخش صاحب کی کتاب میں یہ واقعہ لکھا ہے: عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمۖ سے ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں سات مرتبہ یہ بات سنی کہ کفل ایک گناہ گار آدمی تھا اور اسے بدکاری اور زنا کی عادت تھی’ ایک عورت کو اس نے ساٹھ دینار دے کر گناہ پر تیار کیا۔ جب گناہ کے لئے بیٹھا تو عورت رونے لگی’ اس کو کپکپی شروع ہوئی اس نے پوچھا کیوں روتی ہے؟ اس نے کہا آج تک میں نے یہ گناہ نہیں کیا’ فقرو فاقہ نے مجھے مجبور کر دیا۔ اس نے کہا تو اللہ سے اتنا ڈر رہی ہے تو میں اللہ سے کیوں نہ ڈروں۔ ساٹھ دینار اس کو دے دیئے اور ہٹ گئے اور توبہ کی۔ یہ فیصلہ کیا کہ آج کے بعد میں کبھی گناہ نہیں کروں گا۔ رات کو سویا فوت ہو گیا’ صبح دروازے پر لکھا ہوا تھا ”اللہ نے کفل کو معاف کر دیا” علماء بہتر جانتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بہت سے مالدار ایسے ہیں جن کی نیکیوں کی وجہ سے ہمارا سماج باقی ہے لیکن زیادہ تر امیر زادے میرے سماج کی بچیوں کی عزت کی بولی لگا رہے ہیں’ انہوں نے لڑکیوں کو اپنے ہاتھ کا ریمورٹ کنٹرول بنا رکھا ہے ‘ جب چاہا ان کے ساتھ منہ کالا کر لیا اور جب چاہا ان کو دھکے دے کر بھگا دیا’ کوئی پوچھنے والا نہیں’ بہت سی خبریں تو ایسی ایسی پڑھنے کو ملتی ہیں کہ امیرزادوں نے لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے بعد اُس بیچاری کو قتل کر دیا۔ پیسے کو میرے سماج کا رواج نہ بنائو۔ غریب بچیوں کو تلاش کرو اُن کے والدین سے چھپ کر ملاقات کرو کسی کو پتہ نہ چلنے دو اُن کی حوصلہ افزائی کرو اُنہیں کہوہم آپ کی بیٹی کا جہیز بنوا دیتے ہیں’ اُس غریب باپ سے تو پوچھو جو ساری ساری رات اپنی جوان بیٹیوں کا غم لیے آنکھ نہیں جھپکتا اور اسی حال میں صبح ہوتے ہی مزدوری پر لگ جاتا ہے۔ امیر زادوخدا کے بنائے انسان کو اچانک خوشخبری دو’ اللہ کی قسم خدا تمہیں خوش کر دے گا۔

Media

Media

میرے سماج کے امیرزادو! اگر تمہیں پرنٹ میڈیا میں تصویریں چھپوانے کا یا ٹی وی پر آنے کا شوق ہے تو میں میڈیا سے ہاتھ جوڑ کر گزارش کرتا ہوں کہ آپ ان امیرزادوں کا فوٹو سیشن کریں کہ شاید اسی فوٹو سیشن کی آڑ میں میرے سماج کے غریب لوگوں کی کچھ مدد ہو جائے۔ پرنٹ میڈیا والے مہینے میں اخبار کا ایک صفحہ ایسے لوگوں کے لئے مختص کر دیں ”فوٹو سیشن کرائو غریبوں کی مدد کرو”۔ والدین غربت کے مارے اپنے بچے ذبح کر رہے ہیں امیرزادو ! ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کر ان کی مدد کرو’ غریب کا علاج کرا دو’ میں پچھلے 10 سال سے ایک بھکاری کو ایک ہی ”ڈاکٹری نسخے” کے ساتھ مسلسل بھیک مانگتے دیکھ رہا ہوں لوگ اسے دس سال سے غریب سمجھ کر پیسہ دے بھی رہے ہیں’ ہم نے خود اسے بھکاری بنایا ہے جب مفت کا پیسہ ملے تو کوئی محنت کیوں کرے؟ امیرزادو! بھکاری پیدا مت کرو میرے سماج کے غریب لوگوں کو تلاش کرو’ پریشان مت ہو تلاش میں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی ہر محلے میں آپ کو ایک ایسا گھر ضرور ملے گا جو واقعی ہی حقدار ہونگے’ حقدار کو حق پہنچائو۔ اللہ بہت خوش ہوتے ہیں جب ایک امیر زادا کسی غریب کی مدد کرنے کیلئے اُس کی تلاش میں نکلتا ہے۔

میں نے ”سماج رواج” کے نام سے جو چراغ روشن کیا ہے اس کی روشنی میں آپ سب نے مل کر اضافہ کرنا ہے’ میں سیاست کی بات کرنے نہیں آیا’ میں آپ کو زندگی کی حقیقت دیکھانے آیا ہوں۔ آپ کی زندگی میں روشنیاں بھرنے آیا ہوں۔ میری زندگی بہت کٹھن گزری ہے’ بہت سے لوگ میری گزری ہوئی زندگی کو سننا چاہتے ہیں’ اُن قارئین سے گزارش ہے کہ آپ کے پاس وہ دل نہیں کہ آپ میری زندگی کی کہانی سن سکو’آپ لوگ تو چھوٹی چھوٹی ٹینشن کے پیچھے خود کشی کر جاتے ہو’ ہاں اتنا بتا دیتا ہوں کہ اگر میری جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید وہ آج نہ ہوتا’ میں رہوں نہ رہوں آپ سب ”سماج رواج” کی روشنی کو روشن رکھنا اور دوسروں تک اس کی روشنی کو ضرور پہنچانا۔

آخر میں سب قارئین سے گزارش ہے کہ نماز نہ چھوڑیں ‘ نماز برائی سے روکتی ہے تو اگر آپ سماج کے اچھے انسان بننا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے نماز کی طرف آئیں اور اچھی اچھی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ دعا کی درخواست ہے ‘ اہل علم میری اصلاح ضرور کریں۔

Afzaal Ahmad

Afzaal Ahmad

تحریر : افضال احمد