تحریر : قادر خان افغان پاکستان سمیت پوری دنیا میں 20 دسمبر کو انسانی یک جہتی کا دن منایا جاتا ہے۔بنیادی طور پر یہ دن اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی نے 20 دسمبر 2005ء کو عالمی دن کے طور پر منظور دیتے ہوئے قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کی مدد، غربت اور تنگ دستی کے خاتمے کیلئے انسانوں کی باہمی یک جہتی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔غربت اور تنگ دستی کے خلاف بڑے بڑے دعوے اور تقاریر اور مہنگے ترین ہوٹلز اور ہالز میں سمینار تو منعقد کئے جاتے ہیں، لیکن عملی طور پر اس پر کتنا عمل ہوتا ہے، اس سے کوئی لاعلم نہیں ہے۔ ہم یک جہتی کے حوالے سے مختلف اور سیاسی جماعتوں سمیت این جی اوز کی ریلیاں اور سمینار دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کی جانب سے غربت اور تنگ دستی کے خاتمے کیلئے ان کی جانب سے وہ اعداد و شمار دیکھتے ہیں ، جو ان کے بقول پاکستان میں غربت کے خاتمے کیلئے ان کی جانب سے کئے گئے ہیں، لیکن عمومی طور پر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کی غریب عوام ہر سال مسلسل غربت کی کم ترین سطح پر نظر آتے ہیں۔
ہمارے نزدیک امریکہ ایک آئیڈیل ملک ہے ، جہاں ہر کوئی جا کر اپنی زندگی کو پُرتعیش اور غربت سے نکال کر آرام دہ زندگی بسر کرنے کا خواہش مند نظر آتا ہے ، لیکن عالمی سروے کے مطابق امریکاکے کروڑوں عوام غربت کی کم ترین سطح پر زندگی بسر کررہے ہیں ، جس میں سب سے زیادہ تعداد سیاہ فام باشندوں کی ہے ، اس کی بنیاد وجہ امریکہ میں نسلی امتیاز ہے ، لہذا امریکا میں سیاہ فاموں کے ساتھ نسلی امتیاز ختم کئے بغیر امریکا میں بھی غربت کا خاتمہ ممکن نہیں ، امریکا کی ترقی ایک ایسا دھوکا ہے جیسے چھپانے کیلئے اس نے جنگ کا سہارا لیا ہوا ہے اور دنیا بھر میں مختلف ممالک میں جنگ کی وجوہات بن کر اپنی اسلحہ ساز کمپنیوں سے ہتھیار فروخت کرکے اپنی گرتی معیشت کو سنبھالنے کیلئے پوری دنیا میں امن کے قیام میں سب سے بڑی رکائوٹ کے طور پر ابھر کر آیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ امریکی حکومت سب سے زیادہ قرض دار مملکت ہے اور نو منتخب صدر کی جانب سے غیر امریکی کو امریکہ بد رکرنے سمیت مختلف ایسے بیانات جاری کئے گئے تھے کہ امریکہ عوام نے ان کی تمام منفی سر گرمیوں کے باوجود انھیں بھرپور ووٹ دیئے۔ دنیا بھر میں ستر کروڑ افراد غربت کی انتہائی کم سطح پر اپنی زندگی بسر کررہے ہیں۔
جنگ ے ذریعے امن کے فارمولے نے انسانوں کی طرز زندگی کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ، جنگ میں مذہبی عنصر شامل کرکے مسلم ممالک میں جنگ مسلط کردی گئی اور اپنی غربت کم کرنے کیلئے انھیں مہنگے داموں اسلحہ فروخت کئے جانے لگا ۔ لازمی امر ہے کہ مغرب کے پاس ایسی کوئی اور ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ وہ اپنی عوام کی خوشحالی کیلئے اربوں ڈالرز خرچ کرسکے ، اس لئے دولت مند ملکوں میں اسلحے کی فروخت ، اور ترقی پذیر ممالک کو بھاری سود پر قرضے فراہم کرکے ترقی یافتہ ممالک اپنی عوام کی تنگ دستی اور غربت کو دور کرنے میں مصروف ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کے سال کے آخری عالمی دن منانے کا مقصد ، اگر مغرب کو یہ سمجھانا ہے کہ وہ جنگ بند کر دیں ، تاکہ جن ممالک میں خانہ جنگیوں کی وجہ سے ، عوام مشکلات کا شکار ہیں تو یہ اسلحہ ساز ممالک کبھی بھی یہ ماننے پر تیار نہیں ہونگے ۔ عوام کی تنگ دستی اور غربت میں ترقی پذیر ممالک کی پالسیوں کا بھی عمل دخل ہے ، کیونکہ اپنے پڑوسی ممالک کی شر انگیزیوں کی وجہ سے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسلحہ کی دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں ، جسکی وجہ سے اربوں کھربوں ڈالرز جو عوام کی فلاح کیلئے خرچ کرنا چاہیے تھا۔وہ ہتھیاروں کی تیاری اور دفاع میں خرچ ہوجاتا ہے۔ بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ بھارت دنیا کی بڑی آبادی والا ملک کی عوام سطح غربت سے بھی کم زندگی بسر کررہے ہیں ، لیکن بھارت کے جنگی جنون کی وجہ سے آج بھارتی عوام بھوکی مر رہی ہے۔
بھارتی معیشت کی شرح نمو اوسطاً9 فی صد رہی ہے، خطِ غربت کے نیچے ایک ڈالر یومیہ پر گزارہ کرنے والے افراد کی تعداد 770ملین سے بڑھ کر 860ملین ہوچکی ہے۔ پلانگ کمیشن آف انڈیا نے اپنی سالانہ رپورٹ میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی ایک نئی تشریح پیش کی ہے، جس کے مطابق شہروں میں یومیہ 28.65 روپے (فی فرد) خرچ کرنے والے جب کہ دیہات میں 22.42روپے خرچ کرنے والے افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے کے زمرے میں نہیں آتے۔ اگر ان اعدادوشمار کو ماہانہ ضرب کیا جائے تو فی شہری 859.6 روپے (مہینہ) جب کہ 672.8 روپے کی کھپت کرنے والی دیہی آبادی غریب نہیں ہے۔یہ بھارت کی جانب سے ایسے اعداد و شمار ہیں کہ جس پر کسی قسم کی تبصرے کی ضروت ہی نہیں جاتی ، بھارتیوں کے پاس سونے کے لئے بستر نہیں ، رہنے کو گھر نہیں، بھارت کی نصف سے زیادہ آبادی ، فٹ پاتھوں پر سوتی ہے ، علیحدگی پسند تحریکیں بھارت میں متشدد ہوتی جا رہی ہیں ۔ عالمی ادارہ کے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ غربت ، ایشیا اور افریقی ممالک میں ہے ، لیکن کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا کہ ان ممالک میں بھوک افلاس و قحط کی دوری کیلئے ترقی یافتہ ممالک نے کیا کردار ادا کیا ہے ،اس کے علاوہ قدرتی آفات کی وجہ سے ان ممالک میں عوام کو دوہری پریشانیوں و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جن کا بچا کچا سرمایہ جو چند برتن اور کچھ کپڑوں اور کم متاع پر مبنی ہوتا ہے۔
International Human Solidarity Day
ان کے کچے ناپختہ گھر بھی اس آفات کا شکار ہوجاتے ہیں۔عالمی بینک کے مطابق ایسے افراد، جن کی روزانہ کی آمدنی تقریبا دو سو روپے (1٫9 ڈالر) ہے، ان کا شمار دنیا کے انتہائی غریب افراد میں ہوتا ہے۔ اس سے پہلے تک انتہائی غریب افراد کی فہرست میں وہ لوگ شمار ہوتے تھے، جن کی روزانہ کی آمدنی 1٫25 ڈالر سے بھی کم ہوتی تھی۔ زیادہ تر غریب افراد جنوبی اور مشرقی ایشیا یا پھر افریقہ میں رہتے ہیں تاہم یہ تبدیلی ضرور آئی ہے کہ غریب افراد کا جغرافیائی مقام تبدیل ہوتا جا رہا ہے دنیا میں پچاس فیصد انتہائی غریب افراد ایسے افریقی ملکوں میں رہتے ہیں، جو اس براعظم کے جنوب میں واقع ہیں اور بارہ فیصد مشرقی ایشیا میں۔سب سے زیادہ غربت ان ممالک میں ہے، جو تنازعات کا شکار ہیں اور ان کا انحصار درآمدات پر ہے۔
اب اگر پاکستان کی معیشت کا جائزہ لیں تو عالمی بنک کی رپورٹ کی مطابق پاکستان ترقی کی منازل طے کررہا ہے۔پچھلے ریکارڈز ٹوٹ چکے ہیں ۔ پاکستان انتہا پسندی اور دہشت گردی کا شکار رہا ہے ، اور اس وجہ سے اس کے سرکاری قرضوں میں بھی ریکارڈ توڑ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ، ملک میں قرض حاصل کرنے کے ریکارڈ بھی پاکستان نے توڑ ڈالے ہیں ۔ پاکستان اپنی معاشی ترقی کیلئے پاک ، چائنا اقتصادی راہدی کو مملکت کی ترقی کیلئے توقعات وابستہ کرچکا ہے ، اس کی مکمل توجہ اس منصوبے کی کامیابی پر ہے ، یہی وجہ ہے کہ پاک فوج سمیت تمام ادارے تو اس عظیم منصوبے کی کامیابی کیلئے کام کررہے ہیں ، لیکن بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس منصوبے پر تحفظات اور راہداری پر ملک دشمن عناصر اور ایجنسیوں کی جانب سے سازشیں بھی تواتر سے جاری ہیں، جس کے لئے ضرورت ہے کہ سب سے پہلے ان وعدوں پر حکومت عمل کرے جو آل پارٹیز کانفرنس میں مشترکہ اعلامیہ کی صورت میں تمام سیاسی جماعتوں سے کیا گیا ، یہ ایک صوبے کا منصوبہ نہیں ہے ، بلکہ اس سے تمام صوبے مستفید ہونا چاہتے ہیں ، لیکن اب بھی کچھ ایسے معاملات ہیں ، جس کی وجہ سے مقامی افراد کو روزگار ملنے کے مواقع نہ ملنے کے خدشات ابھر کر سامنے آ رہے ہیں ۔پاکستان میں معاشی ترقی کی رفتار اور اعتماد بڑھ رہا ہے، پاکستان میں معاشی ترقی و غربت کے خاتمے کے لئے عالمی بنک کی رپورٹ پر معاشی ماہرین نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ یہ کروڑوں عوام کے لئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا دعوی درست معلوم نہیں ہوتا ، عالمی بنک کی جانب سے پاکستان کا مالی بحران سے نکل جانے کا دعوے حیقت پر مبنی دکھائی نہیں دیتا ، کیونکہ عوام کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نظر نہیں آتی۔
اقتصادی راہدری کے گیم چینجر کے طور پر لیا جارہا ہے اور پاکستان کے ساتھ کئی ممالک نے اس منصوبے میں شراکت کیلئے پیش کش کیں ہیں ، لیکن یہ سب دعوے کب عملی طور پرسڑکوں میں بیٹھے ان لوگوں کے لئے تبدیلی کا باعث بنیں گے جو خیراتی اداروں کی جانب سے کراچی کے مفت دستر خوانوں سے اپنے پیٹ کی آگ بجھا رہے ہیں ، بھوک و افلا س کی وجہ سے لوگ خود کشیاں کررہے ہیں ، دولت کیلئے اپنی بیٹیاں فروخت کررہے ہیں ۔ جب پاکستانی قومی پیداوار (جی ڈی پی) ابھی 3فیصد کی کمزور شرح نمو کے ساتھ ترقی کر رہی تھی اور اہل خانہ معمولی جزوقتی 250 روپے یومیہ اجرت پر بڑی مشکل سے گزر بسر کر کرتے ہیں۔سرکاری اجرت ماہانہ14000روپے مہینہ رکھا گیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں وزرا ء و سرکاری افسران کی تنخواہوں میں کئی سو فیصد اضافہ کردیا گیا ہے ، اب حکومت کو یہ دیکھنا تھا کہ 14000روپے میںکیا کم ازکم پانچ افراد کا کنبہ عزت مندانہ زندگی بسر کرسکتا ہے۔اہل خانہ کی تعداد زیادہ ہونے کے سبب تعلیم چھوڑ کر بچے کم عمری میں کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ، اور اس کو بنیادی تعلیم بھی میسر نہیںہوتی۔فلاحی رہنما عامر سیلانی نے بتایا کہ ہمارے مرکز آنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ لوگ بھکاری نہیں مگر غریب ہیں جو اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں۔سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر کراچی میں سینئراکنامسٹ محمد صابر نے کہاکہ غربت میں کمی لانے کیلیے مسلسل 5 سال تک 6 فیصد کے قریب پائیدار ترقی کی ضرورت ہے۔
International Human Solidarity Day
ہم اگر قدرتی آفات کے نتیجے میں تھر سمیت سندھ ، جنوبی پنجاب ، قبائلی علاقوں اور بلوچستان کی حالت زار دیکھیں تو ہمیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی عوام کی زیادہ تعداد غربت کی انتہائی سطح سے بھی زندگی گزار رہی ہے۔ ہم اپنے ارد گرد کے مناظر دیکھیں تو غربت ، افلاس زدہ چہرے ، زندگی میں قدرت کی جانب سے مہیا کردہ نعمتوں سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے ، ان کا بھی حق ہے کہ وہ قدرت کی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھائے جو بنی نوع انسان کے لئے مختص کئے گئے ہیں، لیکن ان پر 2فیصد طبقے کے قبضے نے 98فیصد عوام کو محروم کردیا ہے ، بچہ کیا ، بوڑھا کیا ، سب کو انتہائی محنت کرنا پڑتی ہے ، کیونکہ ایک فرد پورے گھر کی ضروریات پوری نہیں کرسکتا ،۔ گذشتہ دنوں نے ایک عالمہ کی تحریر نظروں سے گزری ، جس میں انھوں نے جوائنٹ فیملی سسٹم کو ہندوانہ نظام قرار دیا تھا ، مجھے اس بات پر نہایت حیرانی ہوئی کہ ، اسلام کی دینی تعلیم حاصل کرنے والی ایک ایسی عالمہ نے کن وجوہات کی بنا پر ایسی تحریر لکھی ، میں نے ان سے کچھ سوالات اور حوالے جات دریافت کئے ، لیکن ہنوز مجھے ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا ، اسلام تو ایک ایسا دین ہے جو بکھرے ہوئے لوگوں کو جوڑتا ہے ۔ جس کی سب سے بڑی مثال ، مہاجر ین مکہ ، اور انصار مدینہ کی ہے ۔ پھر اسلام رشتوں کو مضبوط بنانے کیلئے ان کا سب سے اہم مسئلہ مالیات کا حل کرتا ہے اور دولت کو ایک جگہ جمع کرنے سے منع کرتے ہوئے ،ایسے تقسیم کرنے کی مختلف اقسام متعارف کرتا ہے ۔اور سب سے پہلے رشتے داروں کا حق ، پھر پڑوسیوں کا ، پھر دیگر احباب کا حق قرار دیتا ہے۔ نظام ربا، کے مقابلے نظام زکوة سب سے بڑا معاشرتی اور مالیاتی نظام ہے ، سود کو اللہ اور اس کے رسول ۖ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے ، لیکن پوری دنیا صہیونی نظام کی اس گورکھ نظام میں غلام بن چکی ہے۔
اس نظام کے خلاف ملائشیا کے مہاتر محمد نے اجناس و سونے کی کرنسی کا نظام اسلامی متعارف کرایا تھا کہ جس ملک کو جس اجناس کی ضرورت ہو ، وہ کرنسی کے بجائے اس ملک سے اپنی ضرورت کا سامان ھاصل کرلے ، اس سے ڈالر کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی ، کاغذی کرنسی کے نظام کے بجائے ، سونے کا نظام متعارف کرایا جائے ، اس طرح سونا جمع کرکے دولت کو چند ممالک تک محدود رکھنے کے رجحان کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اب تو کاغذ کے بجائے الیکڑونک کرنسی کا نظام آگیا ہے ، جس میں محض ہندسے آپ کے پاس ہوتے ہیں ، اور ان ہندسوں کو کارڈ ، ای بنکنگ کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن کاغذی کرنسی کے یہودی نظام کچھ اس طرح رائج ہوچکا ہے کہ مملکتوں کو اپنے خزانوں میں زر مبادلہ رکھنا ضروری ہوگیا ہے ، جس کی وجہ سے ڈالرز کے اتار چڑھائو سے براہ راست اثر عوام پر ہوتا ہے ، سود پر حاصل کئے گئے قرضوں پر ہوتا ہے ، کمی واقع ہونے کا امکان کم ہوتا ہے لیکن ڈالرز کی قیمت میں استحکام نہ ہونے کے سبب ہی معاشرے میں غربت اور تنگ دستی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے منائے جانے والے اس دن میں انسانوں کی یک جہتی کا شعور بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود دولت مند ، اگلے سال مزید دولت مند ہوجاتا ہے اور غریب ، غریب سے غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں سب اہم وجہ خانہ جنگیاں اور ترقی پذیر ممالک کی جانب سے ترقی یافتہ ممالک سے توقع وابستہ کرلینا ہے ۔ اگر ترقی پذیر ممالک کے عوام اپنے حکمران ایسے منتخب کریں ، جو عام عوام کے مسائل کو سمجھتے ہوں ، تووہ عوام کی تنگ دستی و غریبی کو دور کر سکیں گے ۔لیکن بی ایم ڈبلیو میں سفر کرنے والے ، پیدل جانے والوں کی تکالیف کو کس طرح سمجھ پائیں گے ، ایک وقت کا کھانا بھی بڑی مشکل اپنے خاندان کو مہیا کرنے والوں کی تنگ دستی کو لاکھوں روپے ایک چھوٹی سے دعوت دینے والے ، کس طرح سمجھ سکیں ، انھیں اسلامی ریاست کے خلافت راشدہ کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
International Human Solidarity Day
غزوہ تبوک میںتمام صاحب استطاعت صحابہ نے دل کھول کر لشکر اسلامی کی امداد کی مگر صدیق اکبر خلیفہ اول رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سب پر اس طرح سبقت حاصل کی کہ آپ اپنے گھر کا سارا سامان لے آئے۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے ابوبکر! گھر والوں کے لئے بھی کچھ چھوڑا ہے؟ تو آپ نے عرض کی گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کافی ہے۔فاروق اعظم خلیفہ دوئم حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے ساڑھے دس سالہ دورِ خلافت میں اسلامی خلافت ایران، بلوچستان، خراسان(سمرقند بخارا وغیرہ) سے طرابلس الغرب (تقریباً 22لاکھ 51ہزار 30مربع میل) تک پھیل گئی جو تاریخ انسانی میں اتنی مدت میں ریکارڈ ہے۔ آپ کا حکمرانی کا یہ عالم تھا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ نیل کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو عمر ذمہ دار ٹھہریگا۔خلافت راشدہ کے تیسرے خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے ۔ ان کی دولت ، ان کی سخاوت سے آج تک کم نہیں ہوئی ، آج بھی سعودی عرب میں ان کی جائیدایں ہیں جن کا ٹیکس دیا جاتا ہے ۔اپنے زمانے کے ارب پتی تھے، سخاوت کی وجہ سے غنی کے لقب سے مشہور ہوئے۔ فروغ اسلام اور استحکام دین کیلئے اپنی دولت کو بے دریغ نچھاور کیا۔اسلام قبول کرنے والے چوتھے مرد حضرت عثمان رضی اللّہ تعالی عنہ کی یوں تو دینی خدمات بے شمار ہیں۔تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ نبوت کے تیرہوں سال میں جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں پینے کے پانی کی بہت قلت تھی،مدینہ منورہ میں ایک یہودی کا کنواں تھا جو مسلمانوں کو پانی مہنگے داموں فروخت کرتا، اس کنویں کا نام”بئرِ رومہ”یعنی رومہ کا کنواں تھااور پریشانی کے عالم میں مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کی، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”کون ہے جو یہ کنواں خریدے اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دے؟ ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں چشمہ عطاء کرے گا۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اس یہودی کے پاس گئے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا،یہودی پہلے راضی نہ ہوا ۔ لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالی سے معاہدہ کرکے آدھا کنواں فروخت کردیا ، مسلمانوں کا مسئلہ حل ہوا ، وہ پانی اسٹاک رکھتے ، جس سے یہودی کی پانی کی فروخت کم ہوگئی تو اس نے پورا کنواں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو فروخت کردیا ۔ بعد میں کئی مالداروں نے لالچ دینے کی کوشش کی لیکن داماد رسول ۖذوالنورین نے منع کرکے کنوئیں کو مفاد عامہ کے وقف کردیا۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ کنواں مسلمانوں کو سیراب کرتا رہا یہاں تک کہ عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں اس کنویں کے اردگرد کھجوروں کا باغ بن گیا اور اسی دور میں ہی اس باغ کی دیکھ بھال ہوئی، بعد ازاں آلِ سعود کے عہد میں اس باغ میں کھجور کے درختوں کی تعداد تقریباً پندرہ سو پچاس ہو گئی۔حکومتِ وقت نے اس باغ کے گرد چاردیواری بنوائی اور یہ جگہ میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر رجسٹرڈ کر دی۔وزارتِ زراعت یہاں کی کھجوریں بازار میں فروخت کرتی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بینک میں جمع کرواتی رہی، چلتے چلتے یہاں تک اس اکاونٹ میں اتنی رقم جمع ہو گئی کہ مدینہ منورہ کے مرکزی علاقہ میں اس باغ کی آمدنی سے ایک کشادہ پلاٹ لیا گیا جہاں فندق عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے ایک رہائشی ہوٹل تعمیر کیا جانے لگا۔اس رہائشی ہوٹل سے سالانہ پچاس ملین ریال آمدنی متوقع ہے جس کا آدھا حصہ غریبوں اور مسکینوں کی کفالت اور باقی آدھا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بینک اکاونٹ میں جمع ہوگا، سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے اس عمل اور خلوصِ نیت کو اللہ رب العزت نے اپنی بارگاہ میں ایسے قبول فرمایا اور اس میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ قیامت تک ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دیا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ عرب و عجم اور سیاہ و سفید کی تفریق کے بغیر سارے مسلمانوں کو بیت المال سے برابر کا حق دیا کرتے تھے۔ اور نہ ہی اپنے کسی عامل کی طرف سے بیت المال میں خیانت اور اسراف کو برداشت کیا۔نھج البلاغہ کے مختلف خطبات اور مکتوبات اس بات پر گواہ ھیں کہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بیت المال میں معمولی خیانت کرنے والوں کی شدید تنبیہ و سرزنش کی ھے اور بہت سے گورنروں کو اس خطا پر معزول بھی کیا ھے۔عالمی دن کے موقع پرایسی ہزاروں مثالیں ہیں ، جن کا مضمون میں احاطہ نہیں کیا جا سکتا ، لیکن کسی بھی مسلم یا غیر مسلم حکمران کے لئے اس میں مثالیں ہیں ، کہ انسانوں سے یک جہتی کیلئے ایک حکمران ، صاحب حیثیت اور مالی استطاعت رکھنے والوں کو کیا کرنا چاہیے ، ہمیں اسلام کے درخشاں اصولوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے ، اپنے ذمے داری ، اپنی قربانی ، اور اپنے حیثیت میں الناس کے مسائل حل کرنے کیلئے ہمیں اسوہ حسنہ اور رفقا ء صحابین رسول ۖ ، جن کے متعلق اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا کہ میں ان سے راضی ہوا ۔ رضوان اللہ اجمعین۔ مسلم امہ باہمی خانہ جنگیوں کی وجہ سے تنگ دستی ، فاقوں اور افلاس کے ساتھ ساتھ زمانے کے سرد و گرم آفات کے شکار ہیں،کروڑوں مہاجرین مشکلات کا شکار ہیں۔
اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہ، سات سالوں سے پاکستان میں شمالی وزیر ستان کے عوام اپنے گھروں میں جانے کے بجائے آپریشن ضرب کے خاتمے کے اعلان اور با عزت طور پر اپنے گھروں کو لوٹ جانے کے منتظر ہیں ، لاکھوں افغان مہاجرین ،افغانستان میں عالمی قوتوں کی چالوں کی وجہ سے پاکستان اور ایران میں 35سالوں سے پناہ لینے پر مجبور ہیں ، ایران کی وجہ سے عراق ، شام ، یمن، لبنان میں امن قائم نہیں ہورہا ۔ مسلم امہ کی اقوام متحدہ کی جانب سے موثر امداد نہیں ہے ، مقبوضہ کشمیر میں بھارت انتہا پسند ہندو ، کشمیریوں پر ظلم و بربریت کی نت نئی مثالیں قائم کررہے ہیںلیکن ان کو روکنے والا اقوام متحدہ خاموش ہے۔ اقوام متحدہ عالمی دن کا اعلان کرکے فرض ادا کررہا ہے یا پھر اپنی ناکامی کا اعتراف کررہا ہے۔اقوام متحدہ کی جان سے عالمی دن کے مقاصد میں شعور آگاہی مہم کے مقاصد ہوتے ہیں ، لیکن حقیقت بیانی سے اگر کام لیا جائے تو اقوام متحدہ کے ادارے کا کردار لیگ آف نیشنزکی طرح ہوتا نظر آرہا ہے ، جہاں ویٹو پاور کے نام پر مغرب نے پوری دنیا کو اپنی جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے ، ویٹو پاور میں کوئی مسلم ملک کیوں شامل نہیں ہے ،مستقل رکن بنانے میں ویٹو پاور والے ممالک میںمسلم ملک کو کیوں شامل نہیں کرنا چاہتے ، تو اس سوال کا جواب دینے کے لئے کچھ لکھنے کی ضرورت اس لئے نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اپنی قراردادوں پر عمل نہیں کراسکتی ، سلامتی کونسل کے مفادات امریکہ و برطانیہ خواہشات پر مبنی ہیں اور ویٹو پاور کا سب سے زیادہ استعمال کرنے والا خود امریکہ ہے، ویٹو پاور کااختیار ختم کئے بغیر اقوام متحدہ کا ادارہ محتاج و فالج زدہ ہے۔