آہ ! جنرل اشرف، پاکستانی کمیونٹی جہاندیدہ شخصیت سے محروم

General Ashraf

General Ashraf

تحریر : سید سبطین شاہ
سوشل میڈیا نے آج انسان کو بہت ہی مصروف کردیاہے۔اسکا بہت سا وقت سوشل میڈیاکی نظرہورہاہے۔جہاں اس کے نقصانات ہیں، وہاں فائدے بھی ہیں۔ سوشل میڈیاخاص طورپر فیس بک نے ہرکسی کورپورٹر اور فوٹوگرافر بنادیاہے۔ پل پل کی خبرسامنے آرہی ہے۔ اب کوئی خبر رہ نہیں سکتی۔ اگرپرنٹ اورالیکٹرانیک میڈیا سے کوئی خبر رہ جاتی ہے تو سوشل میڈیاپرآجاتی ہے۔اب کسی چیز کا پنہاں رہ جانادشوارہوگیاہے۔چند دن قبل فیس بک سے ہی راقم کو مذکورہ بالاشخصیت کی وفات کا علم ہوا۔ اسلام آباد۔راولپنڈی ویلفیئرسوسائٹی کے فیس بک پیج پر اچانک ہی یہ خبر آئی کہ جنرل اشرف کا انتقال ہوگیاہے۔ ان کی وفات اور نمازجنازہ کے مابین دوتین دن کاوقفہ تھا۔ اپنے دوست جناب علی اصغرشاہد، جناب مرزا انوربیگ، جناب جاوید اقبال اور دیگراحباب کاشکرگزارہوں جنہوں نے اس موقع پرراقم کوتازہ ترین صورتحال سے مطلع رکھا۔انہی اطلاعات کی بناپرمرحوم کی وفات کا تذکرہ سوشل میڈیاکے ہی ذریعے چیئرمین پاکستان یونین ناروے چوہدری قمراقبال کے ساتھ بھی ہوا۔مرحوم کانام تو محمد اشرف تھا لیکن وہ جنرل اشرف کے لقب سے مشہور تھے۔

راقم کی ان سے پہلی ملاقات 2000 ؁ء کے عشرے کے اواسط میں مرکزی جماعت اہل سنت اوسلو کی مسجد میں ہوئی جب وہ اس مسجد تنظیم کے جنرل سیکرٹری تھے۔ انہیں جنرل بھی اسی وجہ سے کہاجاتاتھاکیونکہ وہ مسجد کی انتظامیہ کے جنرل سیکرٹری تھے۔ ان دو الفاظ کے عہدے میں لوگوں نے مختصراً پہلے لفظ جنرل سے استفادہ کیااور دوسرے لفظ سیکرٹری کو چھوڑدیا۔جنرل صاحب سے راقم نے ایک دفعہ پوچھا کہ اپنے اس نام کے حوالے سے کوئی دلچسپ واقعہ سنائیں۔ انھوں نے فرمایاکہ جب وہ ایک دفعہ اسلا م آباد میں ایک محفل میں شریک تھے تو کسی دوست نے انہیں جنرل کہہ کر پکاراتو وہاں موجود کچھ دوسرے لوگوں نے پوچھ ہی لیاکہ آپ کس کورکے کمانڈررہے ہیں؟ جنرل صاحب ، حاضردماغی سے مگر از راہ مذاق جواب دیا، ’’ میں ناروے کی کورکا کمانڈررہاہوں‘‘۔سوال پوچھنے والے نے ان کا جواب سن کر خاموشی اختیارکرلی۔شاید وہ سمجھ ہی نہ سکاکہ ناروے میں کس فوج کی ، کون سی کورہے؟ اسی لئے وہ مزید سوالات سوال نہ پوچھ سکااوراس نے خاموشی میں ہی مصلحت سمجھی۔ بہرحال راقم کے ناروے میں قیام کے دوران جنرل اشرف سے بہت نشستیں ہوئیں۔

واقعاً وہ کسی کورکمانڈر سے کم نہ تھے۔ وہ محبت اور خلوص رکھنے والے انسان تھے اور ان کاحلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ راقم کے محسن اوراین جی اوٹائمزکے چیف ایڈیٹر مرحوم چوہدری محمدریاض گوندل سے جنرل اشرف کی دوستی تھی۔دونوں کو کئی مواقع پر اکٹھاپایا۔راقم کی جنرل اشرف سے پاکستان میں بھی ملاقات ہوتی رہیں۔ مرحوم کے آبائی گاؤں ’’ پیت مست‘‘ جانے کا بھی اتفاق ہوا۔یہ گاؤں ضلع جہلم کی تحصیل سوہاواکے مرکز سے چند کلومیٹر کے فاصلے پرہے۔ ایک دفعہ گیاتو مرحوم کی والدہ حیات تھیں اور دوسری دفعہ مرحوم کی والدہ کی وفات پر فاتحہ خوانی کے لئے اس گاؤ ں جاناہوا۔جنرل اشرف ناروے میں مسلمانوں کے دینی مراکز کی تاریخ پر کام کررہے تھے۔ یہ مراکز کس طرح معرض وجودمیں آئے اوران کے قیام میں کون لوگ کوشاں رہے، وغیرہ وغیرہ ان تحریروں کا موضوع ہیں۔

Welfare

Welfare

ناروے کی مرکزی جماعت اہل سنت کی تنظیم اورمسجد کے قیام میں ان کا کردارکسی سے پوشیدہ نہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان میں اپنے آبائی گاؤں کے لوگوں کی فلاح کے لئے چھوٹے چھوٹے فلاحی کام شروع کررکھے تھے۔ ان میں خواتین کے لئے دستکاری سکول قابل ذکر ہے۔ باقاعدہ سلائی اور دستکاری کے ماہر اساتذہ کی زیر نگرانی یہ سکول چل رہاہے۔ اس کے علاوہ مرحوم کے فرزند محمدطارق اشرف نے سوہاوا شہرمیں صفائی کانیانظام متعارف کروایاہے جس سے شہرکی صفائی کے ساتھ ساتھ صفائی کے دوران برآمد ہونے والی پلاسٹک اور دیگر کارآمد اشیاء کو دوبارہ قابل استعمال لانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔غرضیکہ جنرل اشرف ایک قیمتی انسان تھے جنہوں نے اپنا وقت ضائع نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ مصروف رہے۔ آخری بارجب ان کے گاؤں جانے کا اتفاق ہواتو ان دنوں سردیوں کا موسم تھا۔ انھوں نے اپنے باغ سے مالٹے توڑراقم کو پیش کئے ۔ان کے باغ میں مختلف ا قسام کے پھل تھے۔ان زوجہ محترمہ کہتی ہیں ، ناروے جانے سے قبل جب وہ پاکستان میں ایک بنک میں ملازم تھے تو تنخواہ پر گزارا مشکل تھا ، اسی لئے ساتھ ساتھ کاروبار کرتے تھے اورفلاحی کاموں میں ان کی شروع ہی سے دلچسپی تھی۔بہتر ذرائع معاش کی تلاش میں ستر کی دہائی وہ ناروے آگئے۔

ناروے میں نارویجن پاکستانی کمیونٹی میں سماجی اوردینی حوالے سے بہت متحرک رہے۔دارالحکومت اوسلوویسے بھی متحرک لوگوں کا شہرہے۔ نارویجن پاکستانی کمیونٹی ایک ایسی محکم بنیادپر استوار ہے جس کیلئے سترکی دہائی میں پاکستان سے ناروے آنے والے لوگوں نے بہت محنت کی اور ایمانداری اورمشقت سے اپنے آبائی وطن پاکستان کا نام روشن کیا۔آج جس طرح ناروے میں پاکستانیوں کے کاروبارنظرآتے ہیں اوران لوگوں کی بڑی تعدادبیوروکریسی اور سیاست میں اہم عہدوں پر فائز ہے، یہ ان کے بزرگوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔مرحوم جنرل اشرف سے راقم کی آخری ملاقات اس سال اگست میں اوسلوکی ’’اولیوال‘‘ ہسپتال میں ہوئی جہاں ان کی تمارداری کے لئے ان چھوٹے بیٹے تنویراشرف اوران کی زوجہ محترمہ موجودتھیں۔اس سے چند دن قبل ان سے ملاقات اوسلوشہرمیں بھی ہوئی ۔وہ چند سالوں سے سرطان کے عارضے میں مبتلاتھے۔ وہ بیمارہونے کے باوجودباہمت انسان تھے۔

اپنے کاروبارکی نگرانی خود کرتے تھے۔ کبھی کبھارہسپتال میں چیک اپ کرانے جاتے تو ڈاکٹرانہیں داخل کرلیتے تھے۔ وہ سرطان جیسی پریشان کن مرض میں مبتلاہونے کے وجہ پریشان نظر نہیں آتے تھے بلکہ اپنی زندگی کے موجودہ حالات اور ماضی سے مطمئن دکھائی دیتے تھے۔ان کی وفات پرلوگو ں کی بڑی تعدادنے نماز جنازہ ودیگر تعزیتی اجتماعات میں شرکت کی اورہردل ان کے لئے افسردہ تھا۔اشک بارآنکھوں کے ساتھ مرحوم کودارفانی سے رخصت کیاگیا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جواررحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبرجمیل عطاء فرمائے۔امین

Syed Sibtain Shah

Syed Sibtain Shah

تحریر : سید سبطین شاہ