تحریر : شاہ بانو میر گھر میں چہل پہل ہے ـ ایک بھائی آ رہا ہے وہ ڈرائینگ روم میں سے کوئی ڈیکوریشن پیس اٹھا کر لے جا رہا ہے ـ عام طور پے ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے ـ مگر آج کے دن سب بھائیوں کو کھلی چھوٹ ہے ـ کبھی شربت بنوا کر لے جا رہے ہیں اور کبھی کچھ کھانے کیلئے ـ صرف ہمارا گھر نہیں پورا ہمارا محلہ ہی ایسا با رونق ہے آج ـ جشن عید میلاد النبی ہے آج ـ ہمیں بار بار منع کیا جا رہا ہے کہ ابھی نہیں کام مکمل نہیں ہوا آپ سب خواتین شام کو پارک میں آئیں گی ـ بھاگتے دوڑتے تِمتماتے چہروں کے ساتھ نجانے فجر کے وقت سے یہ سب کیا کر رہے ہیں کہ اپنی ہوش نہیں ـ رات گہری ہوئی تو ہمیں جانے کی اجازت ملی ہم سب بہنیں کزنز مل کر گئیں تو سبحان اللہ تمام لڑکوں نے کیا خوب محنت کی ہوئی تھی پہاڑیاں ان کے آس پاس فوارے بنا کر باقاعدہ بجلی سے پانی نکل رہا تھا ـ گھر کے مختلف ڈیکوریشن پیسسز اس خوبصورتی سے سجائے گئے کہ وہ اسی ماحول کا حصہ لگ رہے تھے ـ ایک طرف شربت کا بڑا سا ٹب تھا ساتھ ہی نجانے پورے محلے سے آئی ہوئی ان کے لئے سوغاتیں تھیں جو دراصل ان کی محنت سے خوش ہو کر سب نے بھیجی تھیں کہیں حلوہ تھا کیں پوریاں کہیں قتلمے تو کہیں متنجن یہ تھا ماضی کا سادہ سا عید میلاد النبی ﷺ پیارے نبی کا جشن ولادت ـ جس کو کسی بھی پہلو سے دیکھیں تو اس میں سادگی نفاست احترام اور محبت ہی محبت کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔
زمانہ تیزی سے ترقی کے نام پر تیزی کے ادوار عبور کرتا ہوا اس طرح آگے بڑھا کہ “” سادگی”” تو برباد کر کے فنا کر دی ہم نے ـ اور کچھ فرقہ واریت کی گھناؤنی تاریک جنگ نے پاکستان میں فرقوں کے خاموش بین القوامی سپورٹر پیدا کر دیے جنہوں نے محض اپنی اجارہ داری کو ثابت کرنے کیلئے خفیہ طور پے خاص مواقع پر اپنے فرقے کی اتنی سپورٹ کی کہ وہ دینی دن پیسے کی بدولت پورے کرو فر سے منا کر سچے ہمدردوں کی بجائے ادائیگیوں پر لوگوں کو اکٹھا کیا جانے لگا ـ دوسری جانب دوسرے فرقے کا کوئی خاص دن آیا تو ان کی ہمدردی رکھنے والوں نے باہر سے اس فراوانی سے پیسے بھیجے کہ جو پورا سال دال روٹی پر گزر بسر کرنے والے تھے انہں ایسے مرغن کھانے کھانے کو ملے کہ وہ سال بھر اگلے سال کا انتظار کرنے لگے ـ یہ کیا ہے؟ مومن جسد واحد ہیں؟۔
اسی مبارک محترم اعلیٰ شان رکھنےو الے پیارے نبیﷺ نے کہا تھا کہ جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم اس کو محسوس کرتا ہے ـ سوچیں کیا محسوس کیا ہم سب نے؟ عید میلاد النبیﷺ کی سادگی کو احترام کو ہماری آپ سے وابستگی کو کیا سے کیا بنا دیا ہم نے؟ طاقت کا پیسے کاکھیل؟ وہ بھی اُس وقت جب آپ کی امت مسلمہ پوری دنیا میں ذلیل و رسوا ہو رہی ہے؟ اس سال محرم میں پیسے کا استعمال اس طرح سے دیکھا کہ فیس بک پے ایک وڈیو کسی نے اپ لوڈ کی حویلی کے باہر ہجوم ہے ایک جانب شہنائی بجائی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی ڈھول والا ڈھول بجا رہا ہے جیسے ہی شہنائی بجائی جاتی ہے اور ڈھول پے تھاپ پڑتی ہے تو ہجوم چھریوں سے خود کو پیٹنا شروع کر دیتا ہے جیسے ہی وہ رکتے ہیں تو ما حول میں آہ و بکاہ شروع ہو جاتی ہے ـ اللہ اکبر محرم کی اذیت ناک تکلیف جو ہر محرم میں کربلا کی یاد کو تازہ کر دیتا ہے اس کا یہ حال ؟ ہماری سادگی ہے یا اصل دین سے لا علمی؟ اسی نیٹ پر ایک اور وڈیو دیکھی جو نہ دیکھتی تو اچھا تھا اللہ اکبر کس قسم کی گفتگو کی جا رہی تھی؟۔
Islam
اسلام جس نے جاہلیت کو علم کا نور دیا اسی اسلام کے نام پر ایک صاحب پورے مبلغانہ حلیے میں ایک جم غفیر کے سامنے اس قدر نفرت انگیز گفتگو فرما رہے تھے ـ ہندو ازم بدھ مت کیلئے نہیں اپنے ہم منصب کسی عالم دین کیلئے سامنے بیٹھنے والے گالیاں سن رہے تھے جو وہ اسلام کی محبت میں دیگر علماء کو دے رہے تھے اللہ پاک ہم پر رحم کرے آمین اسی طرح جشن میلاد پر ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا پاؤں میں موٹے موٹے گھنگھرو اور تھرکتے ہوئے جھومتے ہوئے ڈھول کی تھاپ پر وہ شخص نعرے لگا رہا ہے آپﷺ کا نام لے رہا ہے ؟ یہ میرے محترم نبیﷺ کی شان اقدس میں تعریف و توصیف ہے؟ وہ ہاتھ جو دن کو قرآن کے اوراق تھام کر سبق لیتے تھے وقت آنے پر یہی اسباق انہیں مجاہد بنا کر اسلام کیلئے وسعت اور کشادگی کا باعث بنا دیتے تھے ـ اتنے بھوکے پیاسے کہ اونٹ ذبح کئے جائیں کہ ان کی اوجھری اور پسلیوں میں محفوظ پانی کو نکال کر پیاس بجھائی جائے ـ اللہ اکبر یہ کون لوگ ہیں جو اسلام کے متضاد سب کام بآسانی کر کے ہر غلط بات پر داد اس لئے پاتے ہیں کہ نام پیارے نبیﷺ کا لیتے ہیں؟ سوچیں یہ کونسا اسلام ہے؟ اگر اسلام میں بینڈ باجا ہی بجانا تھا تو پھر آپ ﷺ کی 23 سالہ تعلیمات کیا تھیں؟۔
اسلام اور پاکستان کے ساتھ ہم نے یکساں سلوک کیا پہلے جانیں دیں کہ ملک چاہیے شناخت چاہیے دین کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی چاہیے جب نعمت مل گئی آزادی کی صورت تو اسی پاکستان کو ہم نے دشمن کے آگے ٹکوں میں بیچ ڈالا ـ یہی حال اسلام کے ساتھ کیا کہ آج درست دین ہے نہ اس کی شناخت کی فکر ہے آج تو اغیار کی ہر فاسقانہ سوچ کا منبع میرا ملک اور قوم ہے ـ نادانیوں کو فرزانگی عطا کرنے والا میرا دین آج ایک بار پھر باطل کے دھندلے گہرے بادلوں میں گم کیا جا رہا ہے ـ آج یورپ کے کسی ملک میں کوئی حادثہ ہو جائے تو سب مل کر چٹان بن کر اس ملک کی امداد کیلئے کھڑے ہوتے ہیں صرف زبانی جمع خرچ نہیں کرتے بلکہ عملی اقدامات سے ان کے ٹوٹے ہوئے حوصلوں کو بھرپور امداد سے واپس بحال کرتے ہیں۔
ذرا سوچئے دوسری طرف ہم سب کہاں کھڑے ہیں؟ اگر اس سال ہم جشن میلاد کیلئے عبادت کو اپنا اظہار بناتے اور تمام رقوم جو سجاوٹ ،کیلئے اکٹھی کی گئی اس کو کسی اور فرقے پر اپنی برتری کیلئے بے دریغ خرچ نہ کرتے تو نجانے کتنے شامی مسلمانوں کا پیٹ بھر دیتے ؟ پتہ نہیں کتنے بے بسی سے زخموں سے نڈھال سسکتے لاچار بہن بھائی معصوم فرشتے ہم بچا لیتے؟ ایک طرف تو امت کا جسم جلایا جا رہا ہو مارا جا رہا ہو پھر کیسے اس دکھ کو اس تکلیف کو اس درد کو ہم نے محسوس نہیں کیا؟ کافر کی بیٹی کو دوپٹہ اوڑھانے والے پیارے نبیﷺ زہر دینے والی عورت کے لئے سراپا رحمت عفو درگزر کا عالمی سبق دینے والے میرے پیارے نبیﷺ کیا اس سادگی پر وہ ہم سے ناراض ہوتے؟۔
Mohammad SAW
سوچیں نئی نسل کو ہم کونسا دین دے رہے ہیں ؟ مقابلہ بازی کا دین ؟ اخلاص سے عاری محض نمائشی دین؟ خُدارا سوچیں جشن میلاد لاکھوں کروڑوں خرچ کرنے سے خوشی یا عقیدت کا اظہار نہیں ہے بلکہ سیرت کا جان کر اپنے اوپر اس کو لاگو کرنا اصل محبت ہے ـ سیرت النبی کا مطالعہ ہمیں یہ شعور دیتا ہے کہ وقتی خوشیاں اور دوسرے روز وہی زندگی کی تاریکیاں آپﷺ سے اصل محبت نہیں ہے ـ بلکہ سوچ سمجھ کر مال کو خرچ کرنا اور ارد گرد ضرورت مندوں کی اس سے مدد کر کے ان کے مسائل کے حل آپﷺ کیلئے خوشی کا باعث ہوگا ـ اسلام کا نفاذ کن حالات سے گزر کر ہوا اگر علما اکرام سیرت النبی ﷺ کے روشن پہلو بیان کریں تو شفاعت کی خوشی میں میلاد کو حد سے تجاوز کر کے منانے والے ضرور سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ اگر یہ روپیہ فلسطین شام عراق مصر بوسینیا برما کشمیر میں سوختہ جاں لوگوں کی بہبود پر لگایا جاتا تو امت طاقتور ہوتی جس کا اس سے کہیں گنا زیادہ ثواب ملتا جتنا اب ملا ہوگا۔
اسلام ہماری میراث تھا جو آج اہلیان مغرب کے پاس ہم نے گروی رکھ کے ان کے اطوار اپنا لئے اور وہ ممتاز و کامراں ہو گئے اسلام پر ریسرچ سنٹرز قائم کر کے ـ جہاں وہ اسلام کی جزویات پر غور کرتے اور قرآن پاک کا گہرا مطالعہ کر کے اس کی مدد سے ماضی کو کھنگال رہے ہیں اور مدفون حیرت انگیز خزانے تلاش کر رہے ہیں ـ کیا زیر زمین اور کیا آسمان سے اوپر ہر جگہ اسی قرآن کو بنیاد بنا کر وہ ترقی کر رہے ہیں ـ سوچیں ایک روزہ روشنیاں چراغاں کھانے آرائش کیلئے آپﷺ تشریف نہیں لائے تھے آپ بپھرے ہوئے بے قابو بے لحاظ بے مروت انسان کوکو مہذب بنانے آئے تھے ـ سوچ کو نفس پر حاوی کرنے آئے تھے ـ وہ تو 23 سال کی جاں توڑ محنت کر کے اپنا پیغام مکمل کر کے لوگوں کو حجةالوداع پر گواہ بنا گئے مگر ہم نے کیا کیا؟ یہود و نصاریٰ جو امت مسلمہ کے کھلے دشمن ہیں ان کے راستے اپنا کر سادگی سے سچائی سے منہ موڑ کے حاصل کیا کیا؟۔
دنیا دھوکہ ہے اور اسی دھوکے میں آکر اخروی کامیابی کو محو کر کے عارضی کامیابی کیلئے اصل تعلیمات سے ذہن کو دھو دیا ہر فکر ہر ذمہ داری کو؟ امت جوڑ جوڑ درد میں مبتلا ہے اس کا علاج اس پیسے سے نہیں کروا رہے بلکہ ہم شان بے اعتنائی سے اتنا پیسہ لگا کر کس کو خوش کر رہے ہیں؟ جسد واحد ہیں تو اس خوشی میں وہ چیخیں وہ سہمے ہوئے بچے وہ ہراساں چیختی مائیں شام کے اجڑے گل محلے بسانے کا خیال کیوں نہیں آیا ؟ امت کے جسد واحد کے ہرہر عضو کی سوچ واحد واحد کیوں ہو گئی کہ کسی کو کسی کی فکر ہی نہیں؟ اس لئے کہ اسلام میں “”امت”” جسد واحد تھی مگر آج فرقوں نے اس کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ـ یہی یہود و ہنود کی سازش تھی جسے آج ہم نے خود کامیاب بنا کر اسلام کو ناکام کرنے کی کوشش کی۔