تحریر : عبدالحنان کسی بھی معاشرے ،ملک ،یا پھر قوم کا مستقبل اس معاشرے ،ملک یا پھر قوم کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ دنیا بھر کی آبادی کا چھٹا حصہ جبکہ پاکستان میں کل آبادی کا نصف نوجوانوں پر مشتمل ہے، ہمارے ہاں آبادی میں سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے یعنی 15 سے 30 سال کے افراد کی عمر کی تعداد 40 فیصد سے زائد ہے۔وہ تمام افراد جن کی عمریں 15ـ29 برس کے درمیان ہوں ، یوتھ یعنی نوجوان کہلاتے ہیں۔ انھیں معاشرے کا سب سے فعال اور چاق و چوبند طبقہ سمجھاجاتا ہے کیونکہ عمر کے اس حصے میں انسان مسلسل زیادہ ذہنی وجسمانی محنت کرسکتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ نوجوان نسل ملک و قوم کا بیش بہا اثاثہ ہوتا ہے۔ اسے فرض شناسی اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاکر صحیح سمت کی طرف رواں کیا جائے تو نہ صرف ہر شعبہ ہائے زندگی اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے بلکہ ملک کی معاشی و معاشرتی ترقی میں نئی تاریخ رقم کرسکتا ہے۔پاکستان کو یوتھ کی تعداد کے اعتبار سے خوش قسمت ملک تصور کیا جاتا ہے کیونکہ ملک کی کل بادی کا ایک بڑا حصہ یعنی 25 ملین نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی کا ہر پانچواں فرد 15ـ25 سال کے درمیانی عمر کا ہوتا ہے اس عمر میں کچھ کرنے کا وقت ہوتا ہے نوجوان ملک کے مستقبل کے لئے کوشاں ہوتے ہیں ۔ملک پاکستان کی بنیاد کلمہ طیبہ لاالہ اللہ پر رکھی گئی تھی۔تاکہ ہم علیحدہ ملک حاصل کرکے اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرہ ہو گئیں۔ اوراسلام کی اور اپنے اسلاف کی تاریخ کو روشن رکھیں گئیں۔
لیکن آج ہمیں پاکستان میں چندگنتی کے اداروں کے علاوہ کہیں اسلام کی تعلیم کے ادارے نظر نہیں آتے ہم دشمن کی سازشوں کاشکار ہوگئے ہیں اور دن بدن ہوتے جارہے ہیں ۔بھارت ،امریکہ ،اور مغربی ملکوں کا آپس میں اتحادخطے کے لئے خطرے کا باعث بن گیا ہے ۔ یونیورسٹیوں ،کالجز میں لڑکے ،لڑکیاں اکٹھی تعلیم حاصل کررہے ہیں ،جوطریقہ ہم میں مغرب نے رائج کیا ہے اور آج ہم اس کے مطابق چل رہے ہیں اسکی وجہ کرکے گرل فرینڈ،بوائے فرینڈ ،کی بیماری ہم میں عام ہورہی ہے اور یہ بیماری ہمارے نوجوانوں کو تعلیمی اداروں سے تحفے کے طور پر لگائی گئی ہے ایک نہیں ایسی کتنی ہی بیماریاں ہیں جو ہمیں اس مخلوط تعلیم حاصل کرنے کے وقت لگی ہیں اور جو ہماری رگوں میں خون کی طرح گردش کررہی ہیں۔چند ر وز قبل ذرائع ابلاغ میں ایک دردناک رپورٹ شائع ہوئی جس کے مطابق قائداعظم یونیورسٹی کے طلبا شراب، چرس، ہیروئن اور دیگر منشیات کا استعمال کر رہے ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں قائداعظم یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر وسیم احمد نے انکشاف کیا کہ قائداعظم یونیورسٹی میں ہر قسم کی منشیات سپلائی ہو رہی ہیں۔ طلبہ شراب، چرس، ہیروئن کے علاوہ لاہور میں تیار ہونے والی 5 سے 15 ہزار مالیت کی نشہ آور گولی استعمال کر رہے ہیں۔ استعمال کرنے والا پانچ سے چھ گھنٹے بے ہوش رہتا ہے۔
تعینات ڈسپلن کمیٹی نے بعض طلبا کو جرمانے بھی کئے ہیں۔ یونیورسٹی کے ذمہ داران اس حوالے سے کئی بار پولیس کو بھی آگاہ کر چکے ہیں۔ یونیورسٹی کی چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے منشیات کی کھلے عام سپلائی کی جا رہی ہے اور سیکورٹی کے مسائل بھی ہیں اس سے پہلے بھی 24اکتوبر کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ کے اجلاس میں یہ رپورٹ پیش کی گئی کہ اسلام آباد کے نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبا و طالبات میں سے 53 فیصد ایسے ہیں جو منشیات کا شکار ہیں۔ یہ منشیات ادارے کی کینٹین، باہرسے آنے والے ریڑی بان، اساتذہ اور پہلے نشہ کرنے والے طالب علموں سے میسر آتی ہیں۔ نشہ کی لت میں مبتلا اکثر امیر گھروں کے چشم و چراغ ہیں جو جیب خرچ کو نشہ کی عادت کو پورا کرنے کے لیے لگا دیتے ہیں۔ اس خبرنے ملک کے باشعور حلقوں میں ایک ہل چل مچادی ہے۔
Lahore Sheesha Cafe
ایک مخصوص طبقہ جو نوجوانوں کی رگوں میں زہر اتارکر قیمت وصول کر رہا ہے، اس نے ماحول پر بڑے بھیانک اثرات مرتب کیے ہیں۔ جگہ جگہ شیشہ سنٹر کھل گئے ہیں۔ جہاں پر یہ مکروہ کام ہو رہا ہے۔ یہ نوجوان جو ابھی پوری طرح شعور کی منزل تک نہیں پہنچے، جو اپنے نفع اور نقصان کو بھی اچھی طرح نہیں جانتے، وہ بے چینی میں اس مہلک بیماری میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر فیشن کے طور پر منشیات کے عادی ہو رہے ہیں۔ وہ گھرانے جن کے خاندان میں کوئی نشہ کرنے والا نہیں، اُن گھر وں کے بچے اس فعل بد میں شامل ہو رہے ہیں۔ ماں باپ تو اولاد کا مستقبل سنوارنے کے لیے اولاد کو تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں لیکن یہی تعلیمی ادارے ان کے مستقبل کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ اہم بات یہ کہ نام نہاد آزادی، بے حیائی، سیکولرازم اور لبرل ازم کے رنگ میں رنگے ہوئے اور مخلوط ماحول مہیا کرنے والے یہ ادارے خاص طور پر اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ جہاں گرل فرینڈ اور بوئے فرینڈ کا کلچر فروغ پا رہا ہے، جو بعد میں ناکامی، مایوسی اور تعلیمی اداروں میں خود کشی کے واقعات کا سبب بنتا ہے۔گزشتہ پندرہ سالوںسے وطن عزیز دہشت گردی کا شکار ہے اور یہاں خون بہ رہا ہے 50 ہزار کے قریب پاکستانی اس جنگ میںجان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ امریکہ کی اس جنگ نے پاکستان کی معیشت پر بڑے برے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ سارا نقصان ایک طرف، اس سے کئی گناہ بڑا نقصان نسل کا تباہی کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھنا ہے۔ نوجوان طلبا اپنے پیسوں سے موت کو خرید رہے ہیں۔ دشمن سے جنگ کیے بغیر اپنے ہی ہاتھوں تباہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ میڈیا اس میدان میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ میڈیا پر اس کی تباہ کاریوں سے متنبہ کیا جائے ۔9/11کے بعد جب امریکہ نے حملہ کیا تو اس کے بعد امریکی سرپرستی میں کام شروع ہوا اور یہ آج بام عروج پر ہے۔ جو نسلوں کو تباہ کر رہا ہے اور والدین کی امیدوں پر پانی پھیر رہاہے۔
حکومت وقت کو چاہیے جو نوجوان منشیات کا شکار ہو چکے ہیں اُن کو اس بیماری سے آزاد کروانے کے لیے ایسے ادارے کھولے جائیں جو بہترین علاج معالجہ فراہم کریں۔ خاص طور پر وزارت تعلیم اس پر توجہ دے۔ کہیں ایسا نہ ہ و کہ مستقبل کے ڈاکٹر، انجینئر اور بزنس مین ، وہ خودکشی کی اس راہ پر چل پڑیںاور معاشرے میں اپنا کوئی مثبت کردار ادا نہ کر سکیں۔اس سلسلے میں حکومت کو ٹھوس لائحہ عمل اپنانا چاہیے اور یونیورسٹیوں ،کالجز ،اور مختلف تعلیمی اداروں میں تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ ہمارے نوجوانوں کا مستقبل محفوظ ہوسکے اور یہ نوجوان آنے والے وقتوں میں پاکستان کی سالمیت میں اہم کردار ادا کرسکیں۔