تحریر : اقبال زرقاش رات کا ایک بج چکا ہے۔ دنیا والے میٹھی نیند کے مزے لے رہے ہیں۔ میری بیوی اور میرے ننھے منے بچے نیند کی پر سکون وادیوں میں جا چکے ہیں۔ سارا جہاں طمانیت کے احساس کے ساتھ نیند کی آغوش میں ہے لیکن میں اس ننھی منی سی۔۔۔۔۔۔ پیاری سی ۔۔۔۔چنچل اور۔۔۔۔ نٹ کھٹ بچی کی یاد میں بلک بلک کر رو رہا ہوں۔ میں نے لاکھ خوش رہنے کی کوشش کی مگر میں خوش نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ میں نجمہ کی یاد کا اسیر ہوں وہ بہت پیاری بچی تھی۔ اس کے ماں باپ اسے پیار سے نجمی کہتے تھے۔ اس کی آنکھیں نیلی نہیں تھیں لیکن اسکی ننھی سہلیاں اور ہم جولیاں اسے نیلی کہا کرتی تھیں۔ میرے پڑوس میں رہتی تھی۔ اکثر اوقات میرے پاس سو جاتی میں اسے بے انتہا چاہتا تھا۔ وہ بھی مجھ سے بے حد مانوس تھی۔ میں نے اس کا نام نجمہ کی بجائے غزل رکھ دیا تھا۔ میں اسے غزل کہہ کر پکارتا تووہ بہت خوش ہوتی۔ ایک روز میرے پاس آئی تو اسکے ہاتھ میں ایک کاپی تھی ۔” اس پر کوئی پیارا سا شعر لکھ دیں ” اس نے بڑے معصومانہ انداز میں کہا۔ میں نے کہا کہ تمہارے نام کا لکھ دوں ؟؟؟؟ وہ خوش ہو کر بولی جی جی ضرور لکھیں۔ میں نے کاپی کے صفحات کھولے , ابتدائی صفحہ پر لکھا تھا “فاطمہ چورہدی”، جماعت دہم۔ میں نے پوچھا یہ کاپی کس کی ہے؟وہ بولی سامنے والے مکان میں جو باجی رہتی ہیں ان کی ہے۔ میں نے قتیل شفائی کا یہ شعر لکھ دیا۔
میری نظر سے نہ ہو دور ایک پل کے لیے تیرا وجود ہے لازم میری غزل کے لیے
وہ کاپی لے گئی تیسرے روز پھر آئی کاپی پر شعر لکھوانے پر اصرار کرنے لگی۔ میں نے فاروق روکھڑی کی غزل کے چند اشعار لکھ دیئے
خوبصورت مشغلے میں کٹ رہی ہے زندگی نیند جب دشمن بنی میں رت جگے بُنتا رہا سب تمہارے مے نواز آنکھوں میں تھے ڈوبے ہوئے میں تمہاری گفتگو کے ذائقے بنتا رہا!
اگلے روز جب وہ آئی تو کاپی میرے پاس رکھ کر خاموشی سے بیٹھ گئی۔ کچھ بولی نہیں میں نے اس سے کہا اور شعر لکھ دوں تمہارے نام والا؟ وہ افسردگی سے بولی آپ باجی کے نام والا تو لکھ کر نہیں دیتے۔ میں بے خیالی میں کاپی کے اوراق پلٹ رہا تھا کہ اچانک ایک صفجے پر میری نظریں جم کے رہ گئیں۔ لکھا تھا۔
وسیم! کس قدر جسارت کر رہی ہوں آپ سے مخاطب ہونے کی۔ دراصل مجھے آپ جیسے ادبی ذوق والے ساتھی کی تلاش اور تمنا تھی۔نجمی کہتی ہے آپ بہت اچھے ہیں۔ میرا اپنا خیال بھی اس سے مختلف نہیں۔نجمی مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے اور آپ بھی اس سے ازحد پیار کرتے ہیں۔ آپ کی مداح۔۔۔۔۔فاطمہ چوہدری میں نے خط پڑھ کر کاپی غزل کو واپس کر دی اور اسے کہا یہ واپس لے جائو۔ وہ کہنے لگی باجی کے نام والا شعر نہیں لکھیں گے؟ میں نے سرد مہری سے کہا مجھے شعر یاد نہیں ورنہ ضرور لکھ دیتا بس اب تم جائو وہ چلی گئی ۔ دوسرے روز کاپی پھر اسکے ساتھ تھی۔ ایک صفحہ کھول کر کہنے لگی۔ باجی نے یہ لکھ کر دیا ہے ۔ میں نے پڑھا۔ پہلے روز والے سے زیادہ رومانوی خط تھا۔ آخر میں اس نے لکھا تھا”مجھے آپ کی بے حسی سے شکایت ہے”۔
ایک دن میں گیلری میں بیٹھا تھا کہ غزل آئی اور کہنے لگی”سامنے دیکھئے باجی آپکو بلا رہی ہیں” میں نے دیکھا ایک لڑکی گلی کے سامنے والے مکان کی بالکونی میں کھڑی تھی ۔ میں نے کہا ! محترمہ کاپی والا ڈرامہ آپ ہی اسٹیج کر رہی ہیں۔ وہ مسکرا پڑی اور کہنے لگی ڈرامہ نہیں حقیقت ہے میں کچھ کہنے بھی نہ پایا تھا کہ دوسرے ہی لمحہ وہ جھپٹ کر تیسری منزل کی سیٹرھیاں چڑھ گئی۔دراصل ا س کی اماں اوپر آ رہی تھی اور وہ ڈر کے مارے اوپر بھاگ گئی تھی۔ میں لڑکیوں کے اس چوری چھپے کھیل پر خوب ہنسا۔ ایک روز نجمی مجھے کہنے لگی آپ کو باجی پیاری نہیں لگتی؟ مجھے تو بہت پیاری لگتی ہے۔میں نے کہا”مجھے تم پیاری لگتی ہوننھی منھی سی گول مٹول گڑیا”۔ وہ لاڈ میں آکر میرے گلے سے چمٹ گئی اور پھر تھوڑی دیر بعد گھر بھاگ گئی۔
Memories
کئی دن گزر گئے غزل میرے پاس نہ آئی تومعلو م پڑا کہ وہ بیمار ہے۔ میں تڑپ اُٹھا۔ اسکے گھر گیا۔ننھی سی جان بستر پر لیٹی تھی مجھے دیکھتے ہی اُٹھ بیٹھی گلے سے لپٹ گئی میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ چند دنوں میں ہی پھول سے گال کملا گئے تھے۔بولی آپ باجی سے پیار کریں وگرنہ میں آپ سے نہیں بولوں گی۔میں نے کہا تم جلدی سے اچھی ہو جائو پھر باجی سے پیار بھی کر لیں گے۔
وہ بولی وعدہ رہا نا میں نے جواب دیا پکا وعدہ سو پیسے والا۔پھر اسکے بعد کتنے ہی دن گزر گئے اور میں کس طرح یہ بتائوں کہ پھر کیا ہوا وہ کھلونا کس طرح ٹوٹ گیا۔ وہ کلی شاخ سے کیونکر ٹوٹی؟ میری غزل کہاں چلی گئی؟ میری ننھی سی ہمدرد کیوں مجھ سے روٹھ گئی ؟وہ آخری سانسیں لے رہی تھی جب اُس کا بھائی مجھے بلانے آیا، نجمہ آپ کو بلا رہی ہے۔ اسکی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ رو رہا تھا میں اسکے ساتھ گیابستر مرگ پر تھی مگرمسکرا رہی تھی۔ میں نے اسکے مرجھائے ہوئے گال چوم لیے۔ میری آنکھیں اشکوں سے بھر گئی تھیں۔ سرگوشی کے لہجے میں بولی آپ نے بہت بُرا کیا جو باجی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔تم اچھی ہو جائو گی تب تمہاری باجی کو بھی اچھا سمجھنے لگوں گا۔
میں نے دیکھا کہ اس وقت نجمہ کی آنکھوں میں ڈھیروں سارے آنسو تھے ۔ میرا گلا رند گیا میں نے سرکے اشارے سے “ہاں” کہہ دیا۔ حلق سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔ وہ ننھی سی بچی اپنی حالت اور اپنے دکھ کو بھول کر کسی کی راہوں میں پھول بکھیرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کے جذبے کی شدت کو محسوس کر کے میں نے اسے گلے سے لگا لیا۔ میرا دل درد سے بھر گیا تھااور تھوڑی دیر بعد ہی وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی اور اس کے گھر والوں کو سکتہ سا ہو گیااور میں سسکیاں لے لے کر رو رہا تھا۔
میری ننھی منھی سی دولت مجھ سے روٹھ کر کہیں دور چلی گئی تھی۔ مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ فاطمہ چوہدری آج میرے بچوں کی ماں ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔اپنے ننھے منھے پیارے بچوں کے ہوتے ہوئے بھی ۔۔۔۔نجمہ آج مجھے شدت سے یاد آ رہی ہے۔ سب سو رہے ہیں لیکن میں ننھی منی سی دوست کی یاد میں آنسو بہا رہا ہوں اور میرا کلیجہ منہ کو آ رہا ہے اور میرا تکیہ میرے آنسوئوں سے تر ہو رہا ہے۔ اور مجھے احمد فراز کا یہ شعر یاد آ رہا ہے۔
وہ ساعتیں تو ہوائوں کے ساتھ جا بھی چکیں نظر میں اب بھی ہے منظر چراغ جلنے کا