آرمی چیف کی سعودی حکام سے ملاقاتیں اور داعش کا درپیش چیلنج

Qamar Javed Bajwa and Shah Salman

Qamar Javed Bajwa and Shah Salman

تحریر : سید توقیر زیدی
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز اپنے دورہ سعودی عرب کے موقع پر سعودی حکام سے اعلیٰ سطح کی ملاقاتیں کیں’ اس سلسلہ میں آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق آرمی چیف نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی اور اس موقع پر اتفاق کیا گیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دیرینہ برادرانہ تاریخی تعلقات ہیں جو اب ایک دائمی شراکت داری میں ڈھل چکے ہیں اور علاقائی سلامتی کے معاملہ میں پاکستان اور سعودی عرب کا اہم کردار ہے جبکہ اسلامی امہ کے حوالے سے بھی دونوں ملکوں پر اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ملاقات میں اس بات کو محسوس کیا گیا کہ دہشت گردی کی لعنت کے تدارک اور شدت پسندی کو ختم کرنے کی کوششوں میں مزید جوش و خروش پیدا کرنے کی ضرورت ہے’ سعودی ولی عہد اور وزیر خارجہ بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ آرمی چیف جنرل باجوہ نے سعودی وزیر دفاع اور ولی عہد شہزادہ محمد سلمان سے بھی ملاقات کی۔ اس موقع پر شہزادہ محمد نے کہا کہ ان کا ملک پاکستان کی سلامتی اور پائیدار امن کے قیام کی مکمل حمایت کرتا ہے اور ہم پاکستان کی ہر طرح کی مدد جاری رکھیں گے۔ آرمی چیف جنرل باجوہ نے حرمین شریفین اور سعودی عرب کی جغرافیائی سالمیت کے تحفظ کیلئے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ بعدازاں انہوں نے سعودی چیف آف سٹاف جنرل عبدالرحمان سے ملاقات کی اور دفاع و سلامتی کے امور پر ان سے تبادلہ خیال کیا۔ دونوں عسکری رہنمائوں نے دہشت گردی کیخلاف جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ انتہاء پسندی سے زیادہ موثر انداز میں نمٹنے کے طریقہ کار کو مضبوط بنایا جائیگا۔

یہ حقیقت ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان برادر مسلم ہڈ کے ناطے بھی اپنی سلامتی اور ترقی کے حوالے سے ایک دوسرے کے ہم آہنگ ہیں جبکہ خطے میں دونوں کے مفادات بھی یکساں ہیں۔ پاک سعودی دھرتی حرمین الشریفین کی سرزمین ہونے کے ناطے ہر مسلمان کیلئے جان و دل سے بھی زیادہ عزیز ہے اور اس ناطے سے سعودی عرب کے جغرافیائی تشخص اور اسکے تقدس کی حفاظت مسلم امہ کا ہر فرد اپنا مذہبی فریضہ بھی سمجھتا ہے جبکہ اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت ہونے کے ناطے پاکستان کو اسلام کا مضبوط قلعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس تناظر میں یقیناً دونوں ممالک کی حیثیت مسلمہ ہے جبکہ مسلم امہ کے اتحاد و یکجہتی کیلئے بھی مسلم دنیا کی سعودی عرب اور پاکستان کے ساتھ ہی توقعات وابستہ ہیں’ چنانچہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے فطری اتحادی ہیں اور ہر مشکل گھڑی اور آزمائش کے ہر مرحلہ میں وہ باہمی اعتماد پر پورے اترے ہیں۔ پاکستان کو جب بھی کسی قدرتی آفت کا سامنا ہوا یا اسکی سالمیت کو کسی بیرونی جارحیت کا خطرہ لاحق ہوا تو برادر سعودی عرب اسکے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا نظر آیا۔

گزشتہ اور موجودہ ادوار میں توانائی کے جاری بحران سے عہدہ برا? ہونے کیلئے سعودی عرب نے پاکستان کی بے لوث اور فراخدلانہ امداد کی اور اسی جذبے کے تحت پاکستان نے بھی سعودی عرب کی جغرافیائی سرحدوں اور حرمین الشریفین کے تحفظ کیلئے اپنے کردار میں کبھی کوئی کمی نہیں آنے دی اور آزمائش کی ہر گھڑی میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز اپنے سعودی بھائیوں کے شانہ بشانہ اپنی حربی استعداد و صلاحتیں بروئے کار لاتی رہی ہیں چنانچہ سعودی عرب کے ساتھ احترام و بھائی چارہ کے رشتہ میں کبھی کوئی دراڑ پیدا نہیں ہوئی۔ پاک سعودی گہرے تعلقات کا اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال 42 مسلم ممالک کی اتحادی فوج تشکیل دی گئی تو پاکستان کے اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اتحادی افواج کی قیادت کی پیشکش کی گئی اور پاکستان کے حوالے سے اتحادی افواج میں یہ جذبہ آج بھی موجزن ہے۔ اسی ناطے سے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی اپنے دور میں متعدد مواقع پر سعودی عرب گئے اور پاک سعودی دفاعی معاہدوں کی تجدید کی جبکہ اب موجودہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے بھی اپنا منصب سنبھالنے کے بعد پہلا بیرونی دورہ سعودی عرب کا کیا ہے جس سے پاک سعودی تعلقات کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

Terrorism

Terrorism

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت مسلم دنیا کو انتہاء پسندی اور فرقہ واریت کے ناطے سے ہونیوالی دہشت گردی کے چیلنج کا سب سے زیادہ سامنا ہے جس سے صحیح معنوں میں عہدہ برآ ہوئے بغیر مسلم امہ کے اتحاد کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کیا جا سکتا جبکہ الحادی قوتیں مسلم دنیا کے اس کمزور پہلو کو ہی انتشار امت کیلئے استعمال کرتی ہیں جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہیں۔ بدقسمتی سے اسی بنیاد پر برادر مسلم ممالک سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی کی فضا مستحکم ہوئی ہے چنانچہ یمن میں یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کیخلاف صف آرائ ہوئے تو پاکستان کیلئے اس ناطے سے مشکل صورتحال پیدا ہوئی کہ اسکے دونوں برادر مسلم ممالک کے ساتھ یکساں برادرانہ تعلقات ہیں۔ یمن جنگ کے تناظر میں ہی اسلامی ممالک کی مشترکہ اتحادی فوج کا قیام عمل میں آیا تو سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو بھی اس کا لازمی حصہ قرار دیا گیا جو ایک طرح سے سعودی عرب کا پاکستان پر بے پایاں اعتماد کا اظہار تھا تاہم پاکستان کیلئے اپنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے مشکل صورتحال پیدا ہوئی اور اس نے دونوں ممالک میں مصالحت کنندہ کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا جس میں ایران کی طرف سے پیش رفت بھی ہوئی تاہم دوسری جانب سے اس معاملہ میں زیادہ گرمجوشی پیدا نہ ہونے کے باعث معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ دونوں برادر مسلم ممالک کے مابین کشیدگی کی فضا آج بھی قائم ہے جس میں گزشتہ ایام حج میں ایران کی جانب سے سعودی پالیسی کا ساتھ نہ دینے پر زیادہ تلخی پیدا ہوئی تھی۔ اب ایران کی جانب سے اتحاد و یکجہتی امت کا ایک فارمولہ بھی پیش کیا گیا ہے جس پر پاکستان کی معاونت سے سلسلہ جنبانی شروع ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف کے حالیہ دورہ سعودی عرب کو اسی سلسلہ کی ایک کڑی سمجھا جارہا ہے۔

اگر مسلم دنیا میں فروعی معاملات پر ہم آہنگی کی فضا پیدا ہو جائے تو امت واحدہ کی شکل میں اس میں اتنی قوت و استعداد ہے کہ کسی بھی طاغوتی طاقت کو اپنے آگے پر نہ مارنے دے اور قدرت کے ودیعت کئے ہوئے اپنے وسائل باہمی طور پر بروئے کار لا کر مسلم دنیا خود کفالت کے سارے مراحل بھی آسانی سے طے کرلے۔ یہی مسلم دشمن قوتوں کو خطرہ ہے کہ مسلم امہ متحد ہو گئی تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسکے آگے ٹھہر نہیں سکے گی۔ چنانچہ مسلم دشمنوں نے باہمی گٹھ جوڑ کے تحت اتحاد امت کی کوئی فضا پیدا نہ ہونے دینے کی پالیسی طے کی اور اس مقصد کیلئے فروغی اختلافات کو ہوا دے کر مسلم دنیا کو باہم لڑانے کی راہ اختیار کی جس میں وہ اب تک کامیاب ہیں۔ اسی پس منظر میں انتہاء پسند تنظیموں نے دہشت گرد تنظیموں کی شکل اختیار کی جنہیں الحادی قوتوں نے مسلم دنیا کو منتشر کرنے کے مقاصد کے تحت استعمال کیا۔ ایسی بعض تنظیمیں جن میں اب داعش سرفہرست ہے مسلم دشمن قوتوں کی ہی ساختہ ہیں جنہیں مسلم حکمرانوں کو کمزور کرنے اور مسلم امہ کو انتشار سے دوچار کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ اگر یہی ایک نکتہ مسلم قیادتوں کے پلے پڑ جائے اور وہ مسلم امہ کے اتحاد کی صورت میں الحادی قوتوں کی ان سازشوں کا توڑ کرلیں تو انکے دامن پر دہشت گردی کے کسی ناسور کا کوئی داغ رہے نہ الحادی قوتوں کو اس معاملہ میں مسلم دنیا کو بلیک میل کرنے کا موقع ملے۔ اگر آج داعش پوری دنیا کے امن و سلامتی کیلئے خطرہ بنی نظر آرہی ہے تو مسلم دنیا اس سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کرکے اسکی سرپرستی کرنیوالی غیرمسلم قوتوں انکی خانہ ساز شرارت کا ٹھوس جواب دے سکتی ہے اور آج اس کیلئے فضا ہموار بھی ہوچکی ہے۔

گزشتہ روز یمن میں اسی دہشت گرد تنظیم داعش نے فوجی اڈے پر خودکش حملہ کیا ہے جس میں 49 اہلکار ہلاک اور 84 زخمی ہوئے ہیں تو اس سے داعش کے خوفناک ایجنڈے کا مسلم دنیا کو بخوبی اندازہ لگالینا چاہیے اور اسی بنیاد پر داعش سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں کے قلع قمع کی مشترکہ ٹھوس حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔رپورٹ بی این پی کے مطابق اگرچہ ہمارے حکمرانوں کی جانب سے اب تک داعش کی پاکستان میں موجودگی سے انکار کیا جاتا رہا ہے تاہم یہاں دہشت گردی کے بعض واقعات میں داعش کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تو دہشت گردی کی جنگ میں اس تنظیم کو بھی فوکس کیا گیا۔ گزشتہ روز ڈیرہ غازی خان میں سی ٹی ڈی سے جھڑپ میں داعش سے تعلق رکھنے والے پانچ دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں تو پاکستان میںداعش کی موجودگی کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے اس لئے آج مسلم اتحادی فوجوں کے ناطے اتحاد امت کی فضا ہموار ہورہی ہے تو پاکستان اور سعودی عرب کو اپنے دفاعی اشتراک عمل میں داعش کی سرکوبی کو بھی اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرنا چاہیے۔ توقع رکھی جانی چاہیے کہ آرمی چیف جنرل باجوہ کی برادر سعودی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں دہشت گردی کے تدارک کی حکمت عملی میں داعش اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کو بھی فوکس کیا گیا ہوگا۔ بلاشبہ دہشت گردی کیخلاف اتحاد ہی میں بطور امہ ہماری بقائ ہے جس کیلئے پاکستان سعودی عرب باہمی تعاون دوررس اثرات پر منتج ہوسکتا ہے۔

Syed Tauqeer Zaidi

Syed Tauqeer Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی