تحریر : سید توقیر زیدی قیام پاکستان سے آج تک بھارت نے اور افغانستان نے کبھی دل سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ افغانستان نے ڈیورنڈ لائن اور پشتونستان کے نام پر قوم پرستوں کو شہ دی تو بھارت نے مشرقی پاکستان کے بنگالیوںکو مغربی پاکستان والوں سے بدظن کیا اور اپنے لے پالک ایجنٹوں کے ساتھ مل کر 1971ء میں بالآخر مشرقی پاکستان پر حملہ کرکے وہاں کے زرخرید ایجنٹوں کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش کے قیام کو ممکن بنایا۔ اب بھارتی وزیراعظم بڑی ڈھٹائی سے ڈھاکہ میں کھڑے ہوکر بھارت کے اس مکروہ کردار پر فخر کا اظہار کرتا ہے۔ اسی طرح افغانستان نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان میں دہشت گردی کا جو بازار گرم کر رکھا ہے’ 16 دسمبر 2015ء کو آرمی پبلک سکول پشاور میں انہی بدبخت دہشت گردوں نے جس طرح معصوم بچوں کو خاک و خون میں نہلایا’ اس سے پوری قوم غم و غصے اور صدمے میں ڈوب گئی اور ہماری حکومت’ سیاستدانوں اور عسکری اداروں کو مل کر دہشت گردی کے خلاف متحد ہوکر ایکشن لینا پڑا۔ ضرب عضب نے اسی صدمے کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ہمارے ہزاروں فوجی اور سویلین شہید ہوئے’ اربوں کی املاک کا نقصان ہوا مگر عالمی سطح پر ہماری قربانیوں کو تسلیم کرنے کے باوجود بھارت اور افغانستان ابھی بھی ہم پر دہشت گردوں کی سرپرتی کے الزامات لگا رہے ہیں۔
حیران کن بات ہے کہ ہماری بے بہا قربانیوں کے باوجود ہم پر سے دہشت گردی کا لیبل نہیں اتر رہا۔ کچھ ممالک نے تو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے کہ پاکستان پر دہشتگردی کے اتنے زیادہ اور اتنے تسلسل سے الزامات لگائے جائیں کہ دنیا بالآخر پاکستان کو ایک د ہشتگرد ریاست سمجھنے پر مجبور ہو جائے اور یوں خدانخواستہ پاکستان کو دہشتگرد قرار دلوا کر پوری دنیا میں تنہا کر دیا جائے۔ مزید حیران کن بلکہ پریشان کن بات امریکی رویہ ہے جس کیلئے ہم فر نٹ لائن اتحادی بنے۔ افغانستان کی جنگ خواہ مخواہ اپنے گلے ڈال لی اور افغانستان سے جنم لینے والی د ہشتگردی کے خلاف آج تک لڑرہے ہیں۔ وہ بھی ہم پر دہشتگردی کے الزامات لگانے سے باز نہیں آتا۔ چند روز پہلے امریکہ نے ایک دفعہ پھر پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کا الزام لگایا جس وجہ سے افغانستان میں امن قائم نہیں ہورہا اور نیٹو فورسزکو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ محکمہ خار جہ کے ترجمان مارک ٹو نر نے واشنگٹن میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ حقانی نیٹ ورک پاکستانی سرزمین استعمال کر رہا ہے۔ پاکستانی سرزمین دہشتگردوںکی پناہ گاہ ہے اور اسِ سلسلے میںامریکی حکام پاکستانی حکام کو بار باراپنی تشویش سے آگاہ کرچکے ہیں۔ پاکستان کو یہ بھی باور کراچکے ہیں کہ خطے میںاستحکام لانے کیلئے پاکستان اور افغانستان کو تعاون کرنا ہوگا۔
امریکی وزیردفاع نے بھی کہا کہ پاکستان کو دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے بند کر نے ہوں گے۔ اِس الزام سے دس روز پہلے افغانستان میں نیٹوفورسز کے کما نڈر جنرل جان نکلسن نے پینٹا گان میں ایک پریس کانفرس کی اور اَس نے افغانستان میں نیٹو اور امریکی فورسز کی ناکامی کا تمام تر ملبہ پاکستان پر ڈال دیا۔ جنرل نکلسن نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی سرزمین پر محفوط پناہ گاہیں مہیا کر رکھی ہیں جہاں سے وہ افغانستان میں حملے کرتے ہیں اور امن قائم نہیں ہونے دیتے۔ لہٰذا وہ افغان اور نیٹو فورسز کیلئے مسلسل خطرہ ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ امریکہ اور افغانستان دونوں عرصہ دراز سے اپنی تمام ناکامیوںکا الزام پاکستان کے سر تھوپنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اْن کی نظر میں پاکستان کے شمال مغربی علاقے دہشتگردوں کی جنت ہیں جہاں وہ کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حالانکہ پاکستان نے پچھلے اڑھائی سالوں سے ضرب عضب کی شکل میں یہ کارروائی شروع کر رکھی ہے اور یہ کارروائی بلا تخصیص جاری ہے۔
Gen. John Nicholson
جنرل جان نکلسن نے یہ بھی اعتراف کیا کہ افغان فورسز کئی وجوہات کی وجہ سے ایک موثر جنگی مشین نہیںرہیں۔ فوج میں کرپشن عام ہے۔ گولہ بارود بھی مناسب مقدار میں موجود نہیں۔ بہت سی دور دراز پوسٹوں پر فوج کے پاس راشن اور پانی کی کمی بھی ہے۔ ان میں جنگ کا جذبہ بھی مفقود ہے اور جنگی جذبے کے بغیر کوئی فوج میدان جنگ میں فتح حاصل نہیں کر سکتی۔کرپشن کے ساتھ ساتھ افغان فوج کی ناکامی کی ایک بہت بڑی وجہ فوجی قیادت کا بحران بھی ہے۔ فوج کو کسی بھی مرحلہ پر مناسب قیادت مہیا نہیں کی جا رہی۔ اس لئے سولجرزطالبان سے لڑنے سے گھبراتے ہیں۔ ایسی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں کہ سولجرز ہتھیار پھینک کر بھاگ جاتے ہیں۔ بعض اوقات ہتھیار طالبان کے ہاتھوں بیچ کر خود اپنے آپ کو طالبان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ جب افغانی فورسز بے جگری سے لڑنے کے لئے تیار ہی نہ ہوں۔ گولہ بارود، پانی اور راشن وغیرہ کی بھی کمی ہو۔ قیادت بھی اپنا کردار ادا کرنے میں سنجیدہ نہ ہو تو پھر جنگی نتائج کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی انتظامی اور جنگی مشینری نہ تو جنگ کے قابل ہے نہ جنگ کے لئے سنجیدہ ہے۔ وہ امریکہ اور نیٹو فورسز کے ساتھ تعاون بھی نہیں کررہی۔ انہیں حقانی نیٹ ورک کے خلاف غلط اطلاعات دے کر اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کر لیتی ہے۔ پاکستان پر سب سے زہریلی الزام تراشی بھارت کی طرف سے ہو رہی ہے۔
مودی سرکار ہر صورت میں پاکستان کو ایک دہشتگرد ملک ثابت کرنے میں بر سر پیکار ہے۔ بھارت ہر بین الاقوامی فورم پر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا ہے۔ یہ Gـ20کانفرنس ہو یا آسیان، برکس سمٹ ہو یا ہارٹ آف ایشیا کانفرنس بھارت نے پاکستان پر کھل کر دہشتگردی کے الزامات لگانے اور پاکستان کو ایک دہشتگرد ملک ثابت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اب تو بھارت نے پاکستان کے دس ٹکڑے کرنے کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ بھارت کی دیکھا دیکھی افغان صدر جناب اشرف غنی نے بھی پاکستان کے خلاف بہت سنجیدہ نوعیت کے الزامات لگائے۔ ان کی نظر میں بھی افغانستان میں عدم استحکام اور دہشت گردی کی وجہ سرزمین پاکستان سے آپریٹ کرنے والے دہشت گرد گروپس ہیں۔ افغان صدر نے تو یہاں تک الزام تراشی کی کہ افغانستان میں دہشتگردی میں حکومت پاکستان خود ملوث ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے مشیر خارجہ ہارٹ آف ا یشیا کانفرنس میں موجود تھے۔ سمجھ نہیں آتی کہ انہوں نے بھارت اور افغانستان کی طرف سے ان الزامات کا جواب کیوں نہیں دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہے۔ بھارت اور افغانستان مل کر پاکستان میں دہشت گردی کرا رہے ہیں۔ بھارت اور افغانستان کے جاسوس اور دہشتگرد بھی پکڑے گئے۔ یہاں تک کہ اب تو پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے اپنی ایک پریس بریفنگ میں باور کرایا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کررہی ہے۔ حقانی نیٹ ورک، داعش، القاعدہ ،جماعت الاحرار اور دوسری تنظیمیں افغانستان کے اندر سے پاکستان کے خلاف اپریٹ کررہی ہیں۔ اتنے واضح ثبوتوں کی موجودگی میں اس موضوع پر خاموشی اختیار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس پس منظر میں ہمارے مشیر خارجہ کو دونوں ممالک کے خلاف سخت موقف اختیار کرنا چاہیے تھا۔ انہیں آئینہ دکھانا چاہیے تھا مگر بد قسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ وجہ کوئی بھی ہو ملکی مفادات ہمیشہ مقدم رہنے چاہیں۔ اسی لئے امریکہ بھی ہر ناکامی کا الزام ہم ہی پر لگاتا ہے اور بھارت اور افغانستان بھی۔ ہماری بے جان اور بزدلانہ خارجہ پالیسی نے ہمیں خوامخواہ مجرم بنا دیا ہے۔