تحریر : ظاہر کاکڑ، اسلام آباد جب بھی کسی موضوع پر لکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو ملکی حالات کی طرح ہر بات اہم اور ضروری لگنے لگتی ہے وہ چاہئے پانامہ پیپرز ہو، روسی سفیر کا ترکی میں قتل یا سیرل المیڈا کی لکھی ہوئی سٹوری لیکن اس کے بر عکس اس بار سوچا ایک ملاقات کی کچھ باتیں آپ سے شیئر کرو۔ کچھ دن پہلے ایک پاکستانی نژاد امریکن شہری سے اسلام آباد میں ملاقات ہوئی ملاقات کیا تھی کہ ایک دن بھی اس ملاقات کے لئے کم رہا کیونکہ جب بحث سیاست یاملکی حالات کی ہو پھر تو بحث کی کتاب میں ختم ہونے کا لفظ نہیں ہوتا۔ بحث میں اس نے ڈرون حملوں کی طرح پاکستانی سیاست اور پرویز مشرف پر مزائل برسائے اور میں نے شروع میں انکا موقف جاننے کے لیے Do More ڈو مور کا مطالبہ کیا کبھی ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے سوال کیا ان سے تو کبھی باچا خان بابا کے حوالے سے لیکن جب بحث میں گرما گرمی آئی تو میں نے بھی زبر دست دفاعی انداز میں ان کی مہمانوازی کی پھر جب مہمان نے پہلے ملا عمر کی اور بعد میں مشرف صاحب کی ایک چھوٹی سی بہادرانہ سٹوری سنائی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں تو میرے پاس جواب نہ ہونے کی وجہ سے فوراً وقت کا تقاضہ کر کے بحث کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
سٹوری کیا تھی پہلے تو اس نے کہا کہ ملا محمد عمر کے دور حکومت کو امریکہ سمیت دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں نے اعتراف اور تسلیم کیا کہ بدحال اور تباہ شدہ افغانستان میں اس نے جس طرح حکومت کی اس کی مثال نہیں ملتی بلکہ آج بھی دنیا میں ایسی حکومت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملا عمر کے دور حکومت میں اگر نہایت بھاری رقم ورانے میں رکھی جاتی تو کسی کی مجال کہ پولیس کے بغیر ہاتھ لگاتے اس طرح کی کچھ اور مثالیں پیش کی اور کہا کہ ملا عمر نے قرآن و سنت نبویۖ کی روشنی میں افغانوں کو ایک ایسا آئیں دیا جس نے پورے افغانستان کو اپنے مضبوط شکنجے میں جھکڑ لیا ایسا آئین شروع سے آج تک افغانستان کا کوئی حکمران نہ دے سکا۔ حالانکہ ملا عمر کی تھوڑی سی دینی تعلیم کے سوا سائنسی یا کوئی اور تعلیم نہ تھی نہ سیاست یا حکمرانی کا اسے کوئی تجربہ تھا نہ کسی اعلیٰ فوجی اکیڈمی سے تربیت حاصل کی تھی۔ ملا عمر کی جنگی صلاحتیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے روسی افواج کو شکست دینے کے علاوہ کئی نامور افغان کمانڈروں اور اس کی اتحادی فوجیوں کو بھی شکستیں دے چکا ہے۔
Raheel Sharif
اس دوران میں نے مہمان سے بات کو مختصر کرنے کی عرض کی تو مہمان نے کہا کہ امریکہ جیسی دنیا کی طاقتور ترین اور جنگل کے قانون والی مملکت کی ہزار دھمکیوں، افغانستان پر جدید ترین ہتھیاروں سے ہرطرف تباہی مچانے ان کی حکمرانی یعنی ملا عمر کی حکومت کو ختم ہونے اس کے قریبی عزیزوں کے مارے جانے گو انٹا ناموبے کے ذلت امیز اور سخت ترین سزائیں سہنے کے بائوجود اسامہ بن لادن کو ایک مہمان ہونے کے ناطے ایک مسلمان ہونے کے ناطے امریکہ کے حوالے نہیں کیا جس نے افغانستان میں پناہ لی تھی۔ اس لمبی کہانی کے بعد اس نے مجھ سے سوالیہ انداز میں پوچھنا شروع کیااور کہا کہ اب آپ بتائے کیا سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ڈالروں کی خاطر سینکڑوں افراد کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا تھا؟ جس کا مشرف صاحب نے خود اعتراف کیا ہے۔ کیا پرویز مشرف لال مسجد آپریشن میں شریک جرم نہیں ہے؟ کیا 12مئی کو کراچی میں وکلا پر سر عام گولی چلانے والوں کا مشرف سے کوئی تعلق نہیں؟ جو مشرف نے خود ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج توطاقت کی محض ایک ٹریلرچلی ہے ۔کیا اکبر بگٹی قتل کیس میں مشرف شامل تفتیش نہیں؟ کیا بے نظیر بھٹو قتل میں عدالت ان سے تفتیش نہیں کر رہی؟ اگر ملا عمر اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کو تیار نہیں تھا تو کیا مشرف قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کرنے کو تیار تھا؟ لیکن اس کے بائوجود یہ کیسی قوم ہے کس مٹی کی بنی ہوئی قوم ہے جو درجنوں واقعات میں ملوث ہونے کے بائوجود ان کو سزا سے بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اس مہمان نے ایک طرف تو ملا عمر اور افغانستان کے عوام کو اچھے نمبروں سے پاس کیا دوسری طرف پرویز مشرف اور پاکستانی قوم کو عدلیہ سے لیکر ایک عام شہری تک کسی کو نہیں بخشا مجھ سمیت پڑھنے والوں کو بھی تعاجب سا لگے گاکہ ایک طرف صفت وہ بھی ملا عمر کی دوسری طرف اتنی زہریلی باتیں پاکستان کے بارے میں لیکن اس مہمان کی ملاقات نے رات کو مجھے بھی سوچنے پر مجبور کیا خاص طور پر مشرف کے حوالے سے جتنے جرائم مہمان نے گنوائے تھے آیا ان جرائم میں مشرف کا ساتھ کسی نے نہیں دیا تھا؟اگر دیا تھا تو پھر کاروائی کیوں صرف مشرف کے خلاف اور اگر ساتھ دینے والوں کو بھی سزا ملتی ہے اس سزا کا مطلب نواز حکومت اپنی پارٹی ارکان پارلیمنٹ کے خلاف کاروائی کر رہی ہے کیونکہ مشرف کاساتھ دینے والوں کی اکثریت نواز لیگ میں نہ صرف شامل ہوگئے بلکہ نواز لیگ کی طرف سے الیکشن جیت کر موجودہ پارلیمنٹ میں موجود ہے جس پارلیمنٹ میں نواز شریف نے مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت مقدمہ چلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔
موضوع کی طرف آتا ہوں دراصل کئی ہفتے بعد لکھنے کا موقع ملا ہے اسی وجہ سے ہر موضوع پر قلم چلانے کو دل کررہا ہے خیر لکھنا یہ تھا کہ کچھ دن پہلے مشرف صاحب نے ایک انٹرویومیں انکشاف کیا کہ ملک سے باہر جانے میں میری مددراحیل شریف نے کی اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ راحیل شریف نے کس طریقے سے مدد کی ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ ججز صاحبان کو فون کال کر کے بتایا ہو کہ خبردار جناب والا کو کچھ نہیں کہنا اور دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ راحیل شریف صاحب نے وفاقی حکومت سے بھری آ واز میں کہا ہو کہ ای سی ایل یعنی اگزٹ کنٹرول لسٹ میں مشرف کا نام نہیں ہونا چاہئے ورنہ۔۔۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کس کی غیرت جاگتی ہے کون جوڈیشل کمیشن سے تحقیقات کرانے کامطالہ کرتا ہے ،کون دھرنے کے لئے اجلاس بلاتا ہے اور کون عدالت جانے کا اعلان ؟ اگرا س پر خاموشی اختیا ر کی گئی تو پھر وقت ہی صحیح فیصلہ کریگا سیاستدانوں کے بارے میں اور اگر کسی نے اس بارے میں سوال کرنا چاہا توخبر کی اہمیت کی وجہ سے پنڈورابکس ہی تصور کیا جائے گا۔