تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری کچھ لوگ چھوٹی عمر میں بڑا کام کر جاتے ہیں اور بہت ہی کم لوگ عین شباب میں اپنا ذہنی سفر اور فکری ارتقاء پورا کر جاتے ہیں۔ یونان کا سکندر اعظم محض چھتیس سال میں آدھی دنیا فتح کر چکا تھا اور جان کیٹس نے اٹھائیس برس کی عمر میں صدیوں پر محیط تخلیقی سفر طے کر لیا- یہی معاملہ اردو زبان میں پروین شاکر کے ساتھ ہے بلاشبہ پروین شاکر کا شمار ان لوگوں میں کیا جا سکتا ہے جو تخلیقی سفر میں طبعی عمر سے بہت آگے نکل جاتے ہیں اور فلک ادبستان ہر ستارے کی مانند چمکتے ہیں۔
اردو ادب میں شعراکی فہرست توطویل ترہے،مگر شاعرات اور وہ بھی ایسی شاعر ات،جن کے لب و لہجے نے،اندازواسلوب نے،مضامینِ شعر نے، خیالات کی ندرت و جودت و جدت نے اورالبیلے طرزِاظہاروادانے ایک دنیا کو مسحور کر دیا ہو،کم ازکم اردوادب میں نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں۔ پروین شاکر ( 24 ؍ نومبر 1952 ء-26 ؍دسمبر 1996 ء) سے پہلے بھی اردو میں خاتون شاعرات تھیں اور خودان کے دورمیں بھی اداجعفری، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض وغیرہ اعلیٰ پایے کی خاتون شاعرات موجود تھیں، جن کی قدر خود پروین شاکربھی دل سے کرتی تھیں، مگراس کے باوجود اردو شاعری کو جو لہجہ پروین نے دیا،وہ سب سے اچھوتا، انوکھا اور دلچسپ تھا، انھوں نے صنفِ نازک کے مسائل، مشکلات، خانگی الجھنوں، انفرادی مشکلوں، معاشرتی جکڑ بندیوں، حسن و عشق کی خاردار راہوں کی آبلہ پائیوں کا ذکر اپنی شاعری میں بڑے منفرد انداز میں کیا۔
پروین شاکر بلاکی ذہین ہونے کے ساتھ اعلیٰ علمی لیاقتوں سے بھی آراستہ تھیں، انگریزی زبان و ادب میں جامعہ کراچی ، ہارورڈ یونیورسٹی اور ٹرینیٹی کالج (امریکہ) سے انھوں نے اعلیٰ علمی ڈگریاں حاصل کی تھیں، شعوروآگہی ان کا نمایاں ترین وصف تھا،وہ آگہی،جس نے ان پر شہرِ ذات کے دروازے کھولے اور جس کے بعدان کی خلاقانہ قوت و صلاحیت نے اردو شاعری کو مالامال کر دیا۔ پروین شاکرنے پہلی بارصنفِ نازک کے متذکرہ بالا مسائل کو آشکار کرنے کے لیے ’ضمیرِ متکلم‘ کا استعمال کیا، جن مسائل کاانھوں نے اپنی شاعری میں ذکر کیا ہے، ہو سکتا ہے، وہ سارے مسائل خودانھیں درپیش نہ ہوئے ہوں، مگران کی شاعری کو پڑھنے ،مطالعہ کرنے اور سمجھنے سے یہ اندازہ بخوبی طور پر لگایا جا سکتا ہے کہ اجتماعی طور پر صنفِ نازک کا ہر زمانے میںاُن مسائل سے سامنا رہا ہے، جن کا ذکر مختلف پیرا یوں میں پروین شاکرنے اپنی شاعری میں کیاہے؛شاید یہی وجہ ہے کہ جوں ہی اردو شاعری میں اُن کا ظہور ہوا،انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، ان کے کلام کا پہلا مجموعہ ’’خوشبو ‘‘1976ء میں منظرِ عام پر آیا اور صرف چھ ماہ کےاندر اسکا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ پھر یکے بعد دیگرے ’’صدبرگ‘‘ (1980ء) ’’خود کلامی‘‘ (1980ء) ’’انکار‘‘ (1990ء) ان کی زندگی میں شائع ہوئےاور سبکو بے پناہ مقبولیت، پذیرائی اور تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا، انکا پانچواں شعری مجموعہ انکی جواں مرگی کے سانحے کے دوسرے سال’’کفِآئینہ‘‘کے نام سے انکی بڑی بہننسر ینشا کر کین گرانی میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوا، اپنی وفات سے قبل وہ اسے ترتیب دے رہی تھیں اور ’’کفِآئینہ‘‘ خود انہی کا تجویز کر دہنام ہے۔ پروین شاکر کی شاعر انہ عظمتو بلند قامتی کا انداز ہاسسے لگایا جا سکتا ہے۔ کہان ھیں پہلی ہی کتاب ’’خوشبو‘‘پر’’آدمجیا یوارڈ‘ ‘سے سرفراز کیا گیا، جبکہ 1990ء میں پاکستان کا اعلیٰ شہری اعزاز’ تمغۂ حسنِ کارکردگی‘بھی انھیں تفویض کیا گیا۔
Parveen Shakir Poetry
پروین شاکر کو متعدد ناقدین نے بیسویں صدی کی مشہور ایرانی شاعر ہفروغفرخزاد (5؍ جنوری 1935ء-13؍ فروری 1967ء) سے تشبیہ دیہے پروین شاکر کی ممتاز شاعر انخصوصیت جذبے کی صداقت ہے، وہ اپنے خیال و فکر کو پوری وضاحت، دیانت اور شفافیت کے ساتھ بیان کرتی ہیں ، چاہے معاملاتِ عشق ہوں یا کاروبارِ معاشرت و سیاست،کسی بھی پہلوپرجب وہ گویا ہوتی ہیں، توکسی قسم کا ابہام،اِغلاق اوراُلجھاؤنہیں چھوڑتیں، لطافت، شوخی، خیال کا جمال اوراحساس کی نازکی بھی نسوانیت کے تمام ترحسن و دل کشی کے ساتھ پروین شاکر کے یہاں جلوہ گرہیں، بارش، شبنم، نور، روشنی، رنگ، دھوپ، جنگل، آندھی، ہوا، گلاب ،تتلی،سانپ وغیرہ مظاہرِ فطرت وہ استعارے ہیں،جوپروین کی شاعری کوکردارفراہم کرتے اورجن میں تفکر و تدبر سے ان کی شاعری کا تانا بانا تیار ہوتا ہے، خواب اور نیندبھی پروین کی شاعری میں استعمال ہونے والے اہم استعارے ہیں۔ تشبیہ،استعارہ و کنایہ شاعری اور خاص طور سے غزلیہ شاعری کی جان ہوتی ہے اور یہ وصف پروین شاکر کی شاعری میں کمال کی حد تک پایا جاتا ہے، ذیل کے کچھ اشعار سے پروین شاکر کی مذکورہ شعری خصوصیات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
تری ہنسی میں نئے موسموں کی خوشبو تھی نوید ہو کہ بدن سے پرانے خواب اترے سپردگی کا مجسم سوال بن کے کھلوں مثالِ قطرۂ شبنم تراجواب اترے تجھ کو کھو کر بھی رہوں خلوتِ جاں میں تیری جیت پائی ہے محبت نے عجب مات کے ساتھ
پروین شاکر نے محبوب کی بے رخی،بے توجہی، عدمِ التفات یا بے وفائی کو بھی اپنی شاعری میں جگہ جگہ بیان کیاہے،مگر یہاں بھی وہ طرزِ ادا میں دیگر شعراسے ممتاز ہیں، اس کیفیت کوبیان کرتے ہوئے ان کا لہجہ شاکیانہ توہے ہی، مگر ملتجیانہ اور پرامید بھی ہے، وہ محبوب کی بے رخی سے دل گیر ہوتی ہیں، مگر درپردہ اس کا اظہار بھی کرتی ہیں کہ وہ کسی نہ کسی صورت ان کی طرف متوجہ ہو:
اب تواس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی اسی کوچے میں کئی اس کے شناسا بھی تو ہیں وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
پروین شاکر کی شاعری میں رومانوی خیالات کی بھی فراوانی ہے، جوخاص طورسے نوجوان نسل کے لیے باعثِ کشش ہے۔حسن و عشق کے لمحۂ وصال کی تعبیر و ترجمانی میں انھوں نے کمالِ ہنرمندی کا مظاہرہ کیا ہے اور سرشاری، وابستگی و سپردگی کی کیفیات کوبڑے لطیف و حسین پیرایے میں بیان کیا ہے، خاص طور سے’’خوشبو‘‘کی غزلوں کا زیادہ تر حصہ اسی قسم کے خیالات کا اظہار ہے۔
سبزمدھم روشنی میں سرخ آنچل کی دھنک سردکمرے میںمچلتی گرم سانسوںکی مہک بازووں کے سخت حلقے میں کوئی نازک بدن سلوٹیں ملبوس پر،آنچل بھی کچھ ڈھلکا ہوا دودلوںکی دھڑکنوں میں گونجتی تھی اِک صدا کانپتے ہونٹوں پہ تھی اللہ سے صرف اِک دعا کاش یہ لمحے ٹھہر جائیں، ٹھہر جائیں ذرا!
معاملاتِ حسن و عشق کے علاوہ معاشرت و سیاست میں پائی جانے والی ناانصافی و نابرابری،استحصالی سسٹم،چہار سمت بکھرے ہوئے خوف، زیر دستوں کے تئیں زبردستوں کے آمرانہ و ظالمانہ رویے کے خلاف کھلا احتجاج بھی پروین شاکر کی شاعری میں متعدد مقامات پر دیکھنے کو ملتا ہے۔
میراسرحاضرہے،لیکن میرامنصف دیکھ لے کررہاہے میری فردِ جرم کو تحریرکون میری چادرتوچھنی تھی شام کی تنہائی میں بے ردائی کومری پھر دے گیاتشہیر کون
پروین شاکرکی دلکش و سحرطراز شاعری نے اردو کے لفظیاتی ذخیرے اور تعبیراتی و اسلوبی نظام کوبھی نئی اورخوش رنگ شکلوںسے آشنا کیا، انھوں نے اپنے خیال کوالفاظ و اظہار کا جامہ پہنانے کے لیے لفظوں کی ایسی تراکیبِ نو ترتیب دیں،جس سے اردوادب کوایک سے بڑھ ایک خوب صورت پیرایہ ہاے اظہارملے،انھوں نے اپنی پوری شاعری میں جونئی اور انوکھی تعبیریں استعمال کیں،ان کی صحیح تعداد سیکڑوں میں ہو سکتی ہے۔ الغرض پروین شاکراردوکی ایک مکمل،ہمہ جہت اورکامیاب ترین شاعرہ ہیں، جن کی شاعری دلوں کے تار چھیڑتی اور احساساتِ دروں کی سچی ترجمانی کرتی ہے،یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کوایک عرصہ گزر گیا، مگر ہنوزان کا نام دنیاے ادب و شعرمیں روشن و تاب ناک ہے اور آیندہ بھی رہے گا، خود پروین کوبھی اس کا ادراک ہو گا، سو انھوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ:
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے