تحریر : رضوان اللہ پشاوری محترم جناب رضوان اللہ پشاوری صاحب السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔ امید واثق ہے کہ آپ ایمان وصحت کی بہترین حالت میں ہونگے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ بہترین زندگی کے دن گزار رہے ہونگے،جناب والا پہلی بار آپکے سامنے پیش ہورہا ہوں ،صرف یہ نیت لے کر کہ آپ میری بات کو ارباب اختیار تک پہنچانے میں مضبوط اور منظم طریقے سے زریعہ ثابت ہونگے ۔جناب والا میں پچھلے قریباً پانچ سال سے اپنے بچوں کے لیے حلال کی کمائی کے لیے لیبیا کے بے آب وگیاہ صحرا میں تگ ودو میں مصروف عمل ہوں،ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ پیسے کی Transferکا ہے دوسال ہونے والے ہیں بنک مطلقاً ہمارے جیسے اجنبی لوگوں کے لیے مکمل طور پر بند ہیں ،پہلے بنک سے 1500دینار لیبی Transferکرتے تھے پاکستان میں ایک لاکھ روپے کے قریب بچوں کو مل جاتے تھے ،بچوں کے نان ونفقہ کا سرکل چل رہا تھا ،اب بلیک مارکیٹ میں دستیاب ہے Transfer 7000لیبی دینار کے بدلے پاکستان میں 96500روپے ملتے ہیں ،وہ بھی مہینوں چکر لگا کر ملتے ہیں اور بسا اوقات لوگ دینار لے کر کہاجاتے ہیں نہ ادہر واپس کرتے ہیں اور نہ پاکستان میں دیتے ہیں۔
دوسال پہلے ایک لیبی دینار کے 80روپے پاکستان میں مل جاتے تھے اب 15روپے کے لگ بھگ ملتے ہیں 1000ڈالرز کے لیے 7000دینار ہم کہاں سے لے کر آئیں اتنے تو شاید ایک سال کی تنخواہ میں بھی نہیں نکل سکتے ہیں ایک بہت برے حالات میں گہرے ہوئے ہیں کوئی پرسان حال نہیں ہے ،حکومت ادہر نہیں ہے قانون نہیں ہے امن وامان نہیں ہے ،درندہ صفت اور چور اچکے اجنبیوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں ،پھر کئی ہزار دینار لے کر بندے کو رہا کرتے ہیں اکثر لوگ پیسے نہ ملنے کی صورت میں ماردیتے ہیں۔پاکستانی سفارتخانے میں موجود لوگ کسی کام کے نہیں ہیں نہ ان کے پاس یہ مسائل حل کرنے کے لئے کوئی طریقہ کار ہے ،تسلیاں دے کر وقت پاس کرتے ہیں۔ادہر چوبیس گھنٹے فائرنگ جاری رہتی ہے ہم اپنے بچوں کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر وقت پاس کررہے ہیں ان کی آپس کی فائرنگ میں کئی اجنبی لوگ بے گناہ مارے گئے ہیںلیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے آخر کیوں؟ کیا ہم آپکی طرح پاکستانی شہریت کے حامل نہیں ہیں یا کہ ہم پاکستانی نہیں ہیں اس لیے آپ ہم سے نفرت کرتے ہیں اور ہمارے لیے کوئی این جی اوز کوئی ادارہ کوئی ملکی قانون کیوں حرکت میں نہیں آتا کیا ہم مصائب و آلام میں گہرے ہوئے ہیں اس لئے آپ کا قلم اور زبان ہمارے لیے کچھ کرنے سے قاصر ہے ارباب اختیار تو خواب خرگوش میں مدہوش ہیں۔
ہائے اللہ جی میں کہاں سے تلاش کروں خلیفہ راشد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جری اور بہادر انسان کو جو اپنی رات کی نیند بھی اپنی رعایا کے آرام و سکون کے لئے قربان کر دیا کرتے تھے، کوئی بتائے تو سہی مجھے اور میرے دل کو تسلی دے کہ وہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسا انسان ہماری خبر لینے کے لیے کب آئے گا اور ہمیں حوصلہ افزائی کرے گا ،یا اس کا کوئی جانشین جو آگے بڑھ کر ہم بے کسوں کا ہاتھ تہام کر کہے گا گھبراو مت ۔گر دریائے نیل کے کنارے ایک کُتابھی پیاسا مرگیا تو میں روز قیامت جوبدہ ہو ں گا تم تو انسان ہو آقا مدنی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امت ہو لیکن اسی انتظار میں ہیں کہ کوئی آئے۔
Pakistan
دوسری بات گر کوئی ادہر سے اپنے بچوں کو ملنے پاکستان جاتا ہے تو چلا تو جاتا ہے آسانی سے لیکن واپسی پر اس کا ویزہ اور خروج دو نمبر بن جاتا ہے ایئر پورٹ پر امیگریشن والے اس وقت تک اس کو جہاز پر سوار نہیں ہونے دیتے جب تک وہ اپنی جیب نہ بھرلیں ،وہ بھی فی کس لاکھوں میں۔میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ جاتے وقت یہی ویزہ اور خروج ایک نمبر تھے واپسی پر دو نمبر کیوں؟اتنا ظلم ہم ادہر ایک ایک منٹ زندگی بندوق کی نوک پر رکھ کر زرمبادلہ پاکستان بھیج رہے ہیں ،ایئر پورٹ والے ہمیں ہماری محنت کا پھل اس طرح دے رہے ہیں۔آخر کیوں کل مرنا نہیں ہے رب کے سامنے پیش ہوکر کیا جواب دو گے ،کیا یہی مسلمانی ہے اور ایمان اور خدا کا خوف ہے کہ ایک حالات سے تنگ انسان کے تن سے کپڑے بھی اتار کر ننگا کرنے پر تلے ہوئے ہو۔
کیا ہے کوئی خوف خدا رکھنے والا میرا بھائی اور نیک انسان جو میری خون دل سے لکہی گئیں ان چار سطروں کو اخبار کے تراشے کی صورت میں یا اپنے چینل پر ارباب اختیار تک میرا پیغام پہنچانے میں میری مدد کرسکے اللہ اس کو اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ ہمارے لیے پاکستانی سفارت خانہ نہ ہونے جیسا ہے ،جب عملہ مشکلات اور مسائل حل کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون نہ کرے توہم اس کو پہر کیا کہیں گے؟۔
خدارا ہماری اس حقیقت کو ارباب اختیار تک پہنچادو تاکہ ہم بھی خوش و خرم زرمبادلہ اپنے بچوں کو اور ملک میں بھیج کر خوشی کی زندگی گزارنے والے بن جائیں اللہ میرا اور آپ سب کا حامی و ناصر ہو اور ایک دوسرے کا ممدو معاون بننے کا سبب بنائے میں نے یہ چند سطریں اپنی بساط اور علم کے مطابق سپرد قلم کی ہیں گر کوئی کوتاہی یا کسی کے دل آزاری کا سبب بنے تو معزرت کا طلب گار ہوں۔ نیک تمناؤں کا طالب راو واجد فاروقی سبھا لیبیا