کنٹونمنٹ بورڈ حویلیاں کی بے حسی اور ہماری زندگی

Cantonment Board

Cantonment Board

تحریر : محمد جواد خان
کینٹ بورڈ کا نام آتے ہی ذہن میں یہ بات گھومنے لگ جاتی ہے کہ یہ علاقہ جدید ترین سہولیات سے آراستہ علاقہ ہو گااور ایسا ہوتا بھی ہے ، مگر ماسوائے حویلیاں کینٹ بورڈ کے ، حویلیاں کینٹ بورڈ کی جدید ترین سہولیات کو دیکھتے ہوئے واہ کے باشندے اس کو کالے پانی سے تشبہیہ دیتے ہوئے اس علاقے میں آنا پسند نہیں کرتے ، ان کے بقول کہ حویلیاں کینٹ بورڈ سے تو کالے پانی کا علاقہ زیادہ بہتر ہے۔۔۔۔ کنٹونمنٹ بورڈ حویلیاںکی حدود کے علاقوں میں پانی کی جو لائنیں 1980 کی دہائی میں ڈالی گئی تھیں وہ اُس وقت کی کم آبادی کی مناسبت سے عوام الناس کی فلاح و بہود کے لیے تو بہتر تھیںاور بل بھی مناسب تھا۔۔۔مگر کنٹونمنٹ بورڈ نے نہ تو آبادی کو مدنظر رکھ کر پائپ لائنوں کی مرمت کی اور نہ ہی ان کی بہتری کی طرف توجہ دی بلکہ انھوں نے ایک ہی طرف توجہ رکھی ہوئی ہے کہ ماہانہ بل میں اضافہ ہر سال کیا جاتا ہے۔۔۔

پراپرٹی ٹیکس، ہائوس ٹیکس، سرٹیفکیٹس کی فیس،صفائی ٹیکس کے ساتھ ساتھ اوپر کے ہاتھ کے ٹیکس جو کسی کھاتے میں نہیں آتے ۔۔۔سوال یہ نہیں کہ اتنے ٹیکس اور فیسیں کیوں لی جاتی ہیں ۔۔۔؟؟؟ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سہولیات دی جاتی ہیں۔۔۔؟؟؟ پورے کینٹ بورڈ میں کوئی پلے گرائونڈدیا ہوا ہے۔۔۔؟؟؟ کوئی جنازہ گاہ دیا ہوا ہے۔۔۔؟؟؟ کوئی عیدگاہ بنائی ہوئی ہے ۔۔۔؟؟؟ کوئی گلی پختہ کی ہے۔۔۔؟؟؟ کوئی سٹریٹ لائٹ کی تنصیب کی ہے۔۔۔؟؟؟ کوئی پارک بنایا ہے۔۔۔؟؟؟ کوئی قبرستان کی جگہ دی ہوئی ہے۔۔۔؟؟؟ ہاں ایک بات ہے کہ کوئی سہولت ملے یا نہ ملے ٹیکس اور فیس آپ نے دینی ضرور ہے۔

پینے کا صاف پانی لوگوں کے گھروں میں ایک بالٹی تک نہیں آتا اور اگر خدانخواستہ کسی کے کسی کے گھر پانی آبھی جائے تو وہ بھی لائنیں پوسیدہ ہونے کی بدولت جراثیم و غلاظت سے بھرپور ہوتا ہے بس ایسا سمجھ لیا جائے کہ ماہانہ پیسے دے کر کنٹونمنٹ بورڈ والوں سے بیماریوں لانے والی میڈیسن لی جاتی ہیں اور اگر کبھی کبھار ٹیوب ویل کی موٹر خراب ہو جائے تو عوام کے لیے اُس وقت کربلا کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے، ان ہی مسائل کی بدولت اب تو کافی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بورنگ کروا کر اس عذاب سے اپنے آپ کو بچا لیا ہے مگر اب بھی کچھ لوگ پانی کے نام پر صرف بل تو دیتے ہیں مگر پانی پھر بھی بورنگ والوں کے گھر سے بھرتے ہیں۔۔۔۔

Problem

Problem

ابھی آپ سمجھتے ہو گئے کہ بس یہ کچھ ہی مسائل ہونگے تو یہ غلط فہمی سے کم نہ ہو گا کیونکہ ابھی تو ابتداء عشق ہے ۔۔۔۔حویلیاں شہر کے گندے نالوں کا پانی ، اور پھر سونے پہ سہاگا بارش کا ہو جانا، یہ سارے کا سارا پانی محلہ ڈھانگر کی بستی کا رُخ کرتا ہے تو پورے علاقے کے گھر وں میں یہ پانی گھُس جاتا ہے ، اور پھر نکاسی ِ آب کا نظام نہ ہونے کی بدولت مہینوں پانی کھڑا رہتا ہے جس کی بدولت بیماریوں کی تو بات ہی نہیں کرتے بلکہ ان گلیوں میں سے انسان گز ر نہیں سکتا یہ تو بھلا ہو MPA صاحب کا کہ جنہوں نے عوامی مسائل کے پیش نظر کچھ گلیاں پختہ کر کے عوام کو اس اذیت سے نجات دلوا دی، نہیں تو کنٹونمنٹ بورڈ والوں تک ہوتا یا تو وہ عوام کو بولتے کے لانگ شوز لے لو یا پھر وہ یہ بولتے کہ جائو جی اس پانی میں مچھلیاں رکھ لو۔۔۔

کیونکہ گلیوں کو اُنھوںنے پختہ کرنا نہیں ہے، تو پھر مشورہ ہی دیں گئے نا۔۔۔ ہر گلی محلوں کے اندر ایک کھیت یا پلاٹ ایسا ہے (جس کے اندر لوگ اپنے گھروں کی گندگی ، کوڑا کرگٹ پھینکتے ہیں) جس سے واضح طور پر یہ لگ رہا ہو تا ہے کہ یہ کنٹونمنٹ بورڈ حویلیاں کی حدود ہے۔۔۔ اور اوپر سے دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ جی ہم نے بل زیادہ اس لیے کر لیے ہیںکہ ہم گلی محلوں کی صفائی کرتے ہیں۔۔۔اگر آپ فیس زیادہ کرتے ہیں تو پھر اس گندگی کو گاڑی میں ڈالو اور کہیں آبادی سے دور جا کر تلف کرو۔۔۔ یہ تو نہیں کہ مہینے میں ایک دفعہ آئے نالیوں سے گندگی نکال کر سائیڈوں پر رکھ کر راہگیروں کو مزید اذیت دی جائے۔۔۔

اچھا مزے کی بات تو یہ ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈ کے ظاہری چارجز تو ہیں مگر کچھ ایسے چارجز بھی ہیں جن سے عوام کا سامنا اُس وقت ہوتا ہے جب وہ میرج سرٹیفکیٹ، برتھ سرٹیفکیٹ یا پھر ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے لیے کنٹونمنٹ بورڈ کے آفس کا چکر لگاتے ہیں تو تب اس کو معلو م ہوتا ہے کہ وہ کنٹونمنٹ بورڈ حویلیاں کی حدود میں رہتا ہے تو اس کو یہ چارجز تو دینے ہونگے۔۔۔ مگر سہولیات کی بات کرنا ۔۔۔یہ اجازت نہیں دی جاتی۔۔۔

Muhammad Jawad Khan

Muhammad Jawad Khan

تحریر : محمد جواد خان
aoaezindgi@gmail.com