تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری “میری کشتی پار لگادے میں منتاں تیریاں کردی”یہ وہ مشہور الفاظ ہیں جو ہیر نے رانجھے سے ملنے کے لیے دریا کے اس سمت کھڑے ہوئے دوسری طرف پہنچنے کی حسرت بھری نگاہوںمیں آنسوئوں کی بارش برستے ہوئے کہے تاکہ وہ رانجھا کے پاس دریا کے پار پہنچ کر مل سکے۔پھر وہ کچے گھڑے پر ہی دریا میں کود پڑی لیکن منزل مقصود پر نہ پہنچ پائی اور غرق دریا ہوگئی اس طرح ہیر رانجھا کی کہانی اختتام پذیر ہوئی اب شریف برادران نے اپنی ڈوبتی نیا پار لگوانے کے لیے دوبارہ انگریزوں کے ڈیڑھ سو سالہ پرانے انتظامی نظام کاسہارالیا ہے جو کہ ڈوبتی کشتی میں آخری کیل ٹھونکنے کے مترادف ہے کمشنر ڈپٹی کمشنرز کو دوبارہ اختیارات سونپ دینا منتخب بلدیاتی نمائندوں کے منہ پر زوردار نہیں بلکہ زناٹے دار طمانچہ ہے بلدیاتی نمائندے کونسلرز ،تحصیلی و ضلعی چئیرمین وغیرہ کروڑوں روپے خرچ کرکے بیچارے انتخاب جیتے ہیں مگر ” سر منڈاتے ہی اولے پڑے”کہ اب وہ غالباً اپنا لگایا ہوا مال بھی نہ کما سکیں گے ۔خصوصاً پنجاب میں تو ن لیگ نے ہی ن لیگ کو ہراڈالا کہ دونوں طرف انہی کے پروردہ سود خور صنعتکار اور ظالم جاگیرداروں میں ہی مقابلہ رہا۔جس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ اب انتخابات خالص سرمایہ کی جنگ ہے جتنا بڑا کرپٹ سود خور سرمایہ دار ہو گایا ظالم و جابر جاگیردار تمندار ہو گا وہ اتنی ہی زیادہ رقم خرچ کرکے تحصیلی و ضلعی بلدیاتی سربراہی و اسمبلیوں کے انتخابات کی جنگ جیت سکتا ہے۔
شریف برادران کی دیکھا دیکھی مزید صنعتکار بھی اس سیاسی میدان میں کود پڑے ہیں اب کی بارتو موجودہ تحصیلی و ضلعی چئیر مین وغیرہ کی سربراہی کے لیے پندرہ بیس لاکھ کی نئی گاڑی کا “تحفہ” فی ووٹر دے ڈالنا معمولی سی بات تھی اس سے بڑھ کر بھی بولیاں لگتی رہیں۔مگر شریف برادران کو اپنوں کی جیت بھی شاید اچھی نہیں لگی اور انہوں نے اپنی پارٹی کے جیتنے والے نمائندوں کے بھی ہاتھ پائوں باندھ دیے ہیں گو یہاں متعلقہ نہیں مگر یہی اس تاریخی تقریر کے الفاظ تھے جو ایوب خان کے خلاف تحریک میں اپوزیشنی اتحاد (ڈیک) کے جلسہ عام سے خطاب کے دوران سید ابو الاعلٰی مودودی نے کہے تھے “کہ یہ پہلوانوں کی انو کھی قسم ہے جو مخالف کے ہاتھ پائوں بندھوا کر کہتی ہے کہ آئو مجھ سے کشتی لڑ لو” کہ ہر طرف آمریت کا شکنجہ تھا اور ایوبی آمریت کا طنطنہ اور طبلہ بج رہا تھا کہ یہ بھی تاریخی فقرہ کہا کہ ” ڈکٹیٹر جب اقتدار کی تبدیلی کے تمام راستے بند کردیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا تو ایک راستہ بحر حال کھلا رہ جاتا ہے جس سے اسے جانا ہی ہوتا ہے اور وہ ہے خدائی راستہ”یہ فقرہ سنتے ہی لاہوری عوام جھوم پڑے اور اس یقین کے ساتھ جلسے جلوس کرنے لگ گئے۔
اب دس سالہ ایوبی آمریت رخصت ہوسکتی ہے اور یہ بھی کہہ ڈالا “ڈکٹیٹر اپنے ارد گرد بالشتیے (بونے) ہی جمع کرتا ہے تاکہ اس کا قد سب سے نمایاں نظر آئے”اب اپنوں کو ہی کم تر بنانے اور دبانے کے لیے موجودہ حکمرانوں نے دوبارہ کمشنر و ڈپٹی کمشنر کے روپ میں” مانیٹروں ” کو بحال کرکے مشرف کے Devolution of Powerوالے فارمولے کو مسترد کردیا ہے جس کے تحت نیا بلدیاتی نظام متعارف کروایا گیا تھا۔ اس میں بلدیاتی نظام کا ضلعی سربراہ گریڈ سترہ کے افسران کی اے سی آر تک لکھنے کی پاور رکھتا تھا۔ موجودہ ڈی سی او ڈی پی او اس کے ماتحت تھے۔ تمام سرکاری فنڈز کی اجازت بلدیاتی سربراہوں کے ہاتھ میں تھی جس سے بلدیاتی سربراہ منتخب ہونے والے نئے کھرب پتی سرمایہ داروں نے جنم لیااور لوٹ کھسوٹ کا بازار بھی خوب گرم رہا۔
Musharraf
مگر ان منتخب نمائندوں نے مشرف کی آمریت کے ہاتھ بھی مضبوط کیے رکھے اس نظام کو دس سال تک آئینی تحفظ بھی دیا گیا تھا سرمایہ کمانے کے لیے کمائو پتر ایم این اے ایم پی اے بالکل ہی لنڈورے اوردُم کٹے ہو کر رہ گئے تھے ۔مگر2008کے انتخابات میں قائد اعظم لیگ نامی گروپ کی ناکامی کے بعد پی پی اور ن لیگی دونوں نے ہی اس نظام کے خاتمے کا اعلان کر رکھا تھا۔مگر اس پر عملدرآمد اب آٹھ سال بعد ہوا ہے اور پرانا لوکل باڈی سسٹم بحال ہوتے ہی بیچارے بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات چھین کر ظالم کرپٹ بیورو کریسی کے حوالے کردیے گئے ہیں وہی انگریزوں کی جی حضوریوں اور تابعداریوں کا سلسلہ چل نکلا ہے اس میں اقتدار برقرار رکھنے کا فلسفہ مضمر ہے ۔کہ صرف ضلعوں کے ڈپٹی کمشنر و ڈویژنل کمشنر اپنے جی حضوری و تابعدار لگائو اور حکمرانی کرو سیاستدان خواہ وہ حکومتی ایم این اے ایم پی اے ہی کیوں نہ ہوں بااختیار نہ ہوں تاکہ وقت آنے پر وہ آنکھیں نہ دکھا سکیں اور حکومتی افراد کی ہمہ وقت تابعداری میں ہی اپنی بقا سمجھیں یعنی وہ بھی بھکاریوں کے روپ میں رہیں۔
ہمیں سے فنڈز اور ترقیاتی بجٹ حتیٰ کہ گلی کوچوں کے کاموں کے لیے گزارشات کریں تو پھر ہم اپنے غلامانہ ذہنیت کے حامل کمشنر ڈی سی کو کہہ دیں کہ فلاں صاحب کے اتنے ترقیاتی کاموں کے لیے توجہ فرمائیں حتیٰ کہ اپنے ہی منتخب بلدیاتی نمائندوں اور ایم این اے ایم پی اے کی مشقیں کس ڈالی گئی ہیں مگر آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ کہ پلی بارگین سے اربوں کا غبن کرنے والے فراڈی بیورو کریٹ کو معاف کرنے سے اب طاقتور بیورو کریسی مزید مظبوط ہو گی اور بیورو کریٹ اس سے بڑے فراڈ کریں گے۔
کیونکہ کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا کیونکہ وہ حصہ بقدر جسہ اوپر تک ” خلوص نیت ” سے پہنچاتے رہتے ہیں جو افسر مکمل تابعداری نہیں کرتا اور ” زرداریت” میں سے فکسڈ حصہ نہیں پہنچاتا وہ ملازمت سے فارغ ہو جائے گا مگر بلدیاتی اداروں کے سربراہ وغیرہ چو نکہ سویلین ہیں اس لیے وہ” کمائے گئے مال ” میں سے شاید پورا حصہ نہ دے سکیں۔”تدبیر کند بندہ تقدیر کند خندہ “کی طرح اب دیکھتے ہیں کہ دونوں جہاں کے مالک کی طرف سے کیا خدائی احکام اوپر سے جاری ہوتے ہیں!۔