لاہور: سینٹر فار پیس اینڈ ڈیویلپمنٹ انیشیٹوز نے اختیارات کی منتقلی اور ضلعی سطح پر بجٹ کی تیاری کے موضوع پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ مقررین نے صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ اور منتخب مقامی حکومتوں کو مالی اختیارات کی منتقلی کے ممکنہ طریقوں پر روشنی ڈالی۔
چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ صوبائی اسمبلی پنجاب عبدالرزاق ڈھلوںنے اختتامی نشست سمیٹتے ہوئے کہاکہ مقامی سطح پر مالی اختیارات کی منتقلی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔حکومت آئین کے آرٹیکل 140Aپر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کے لئے پرعزم ہے۔مقامی حکومتوں کے انتخابات منعقد کروائے جا چکے ہیں اور مقامی سطح پر خدمات میں بہت بہتری کی امید کی جا رہی ہے۔
صوبائی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کی رکن ایم پی اے مسز عائشہ جاوید نے کہا کہ صوبائی اسمبلی کو مضبوط اور عوام دوست مقامی حکومت قانون بنانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے مالی اختیارات اور ذمہ داری کی منتقلی کومقامی حکومتوں کے نظام کے لئے انتہائی ضروری اوراسے صوبائی حکومت کی ذمہ داری قرار دیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی اراکین صوبائی اسمبلی محترمہ سعدیہ سہیل ،ڈاکٹر نوشین حامد،سابق ضلع ناظم احسان ٹوانہ،سابق ڈی سی او ثاقب منان اور مقامی حکومت کے ماہرزاہد اسلام نے بھی اس موقع پر اظہار خیال کیا۔
سی پی ڈی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عامر اعجاز نے کہا کہ ضلعی حکومتوں تک مالی تقسیم کی آئینی ذمہ داری پرعمل صوبائی قابل تقسیم فنڈ میں ضلعوں کے حصہ کے تعین کے بغیر ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی فیصلے مقامی حکومت کی سطح پر کیے جانے چاہئیں۔ صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ کے اعلان میں ناکامی ضلعی حکومتوں کو مقامی سطح پر ترقیاتی منصوبہ سازی کرنے میں رکاوٹ ہے۔ انہوں نے حکومت پنجاب پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر پی ایف سی ایوارڈ کا اعلان کرے۔
سی پی ڈی آئی نے پنجاب میں ضلع سطح پر بجٹ کی تیاری کے مطالعہ پر اپنی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر ضلعوں میں بجٹ کیلنڈر پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ بجٹ کال لیٹر محکموں کو وقت پر نہیں بھیجے جاتے۔ ضلعی سطح پر بجٹ سازی کے عمل میں اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت اور بجٹ کی شفافیت یقینی نہیں بنائی جا رہی۔ سی پی ڈی آئی نے پنجاب میں ضلعی سطح پر بجٹ سازی کے عمل کو شفاف بنانے اور اس عمل میں شہریوں کی شرکت کا مطالبہ کیا۔
اس مطالعاتی رپورٹ کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے سی پی ڈی آئی کے پروگرام مینیجر راجہ شعیب اکبر نے کہا کہ ضلعی حکومتیں بجٹ سازی کے عمل میں شراکت داروں کی شمولیت میں ناکام رہی ہیں۔ پنجاب کے 15 ضلعوں نے پری بجٹ مشاورت ہی نہیں کی جبکہ بجٹ رولز کے مطابق یہ مشاورت لازمی ہے۔ بجٹ کال لیٹر صرف 10 اضلاع نے 15 نومبر تک جاری کیے جبکہ 9 اضلاع نے 31 مارچ تک یہ جاری ہی نہیں کیے تھے۔ اس کے نتیجے میں صرف ایک ضلع ننکانہ صاحب30 جون 2016 سے قبل اپنا بجٹ منظور کرانے میں کامیاب ہوا۔
شفافیت اور عوام تک معلومات پہنچانے کے حوالے سے ضلعوں کی کارکردگی بالکل تسلی بخش نہیں ہے۔ صرف 8 اضلاع ایسے ہیں جن کی ویب سائٹس عملی طور پر چل رہی ہیں۔ ان میں سے بھی صرف 4 اضلاع نے اپنے گزشتہ 3 سالوں کے بجٹ ویب سائٹس پر پوسٹ کیے ہیں۔ کوئی ایک بھی ضلع بجٹ سٹیٹمنٹ اور سٹیزن بجٹ جاری نہیں کر سکا۔
رپورٹ میں ضلعی بجٹ برانچ کی انسانی وسائل کے حوالے سے اعدادوشمار بھی سامنے آئے۔ بجٹ ضلعی برانچوں میں 36 اضلاع میں 200 آسامیاں خالی ہیں۔ اس کے علاوہ 8 اضلاع میں بجٹ آفیسر تک موجود نہیں ہیں۔