تحریر : رشید احمد نعیم، پتوکی 2016 گزر گیا۔ 2017 آ گیا۔اس کے ساتھ ہی نئے سال کے مبارکباد کے پیغامات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ہر طرف جشن کا سماں ہے۔ خوشی و مسرت کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ ہر سُومسکراہٹوں اور قہقوں کی بہار نظر آ رہی ہے۔ پیار ، محبت ، چاہت، عقیدت، خلوص،اخوت اور اپنایت کے دلکش و خوبصورت رنگ قوس و قزع کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ فضاء حُسین جذبات و احسات کی مہک سے معطر ہے ۔ہر چہرہ خوشی سے کھلا ہوا ہے۔ہر کوئی اپنے غم بھول کر نئے سال کو خوش آمدید کہنے میں مصروف ہے ۔شدید سردی میں بھی نوجوانوں کا شوق دیدنی ہے۔اپنے اپنے انداز میں نئے سال کی آمد پر خوشی و مسرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ہر کسی کی دلی خواہش و دعا ہے کہ یہ لمحات سدا برقرار رہیں۔راقم الحروف ابھی اتنا ہی لکھ پایا تھا کہ شیخوپورہ سے محترمہ ایمن ہاشمی کا ایک خوبصورت تحریر پر ممبنی مراسلہ موصول ہوا۔دل تو” چاہ” رہا تھا کہ اس موقع کی مناسبت سے اپنا احتساب کیا جائے کہ سال ِ گزشتہ میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟ اور ہم اس وقت کس بنیاد اور کس خوشی میں مصروف ِ جشن ہیں۔مگر جب ایمن ہاشمی کا مراسلہ پڑھا تو ضروری جانا کہ قارئین تک یہ خیالات پہنچنے چاہیں کہ سال ِ نو کے لیے زادِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے ایمن ہاشمی کا پُر اثر مراسلہ۔لکھتی ہیں”عدم مساوات ،کرپشن ،بے روزگار ی، نفسانفسی، میرٹ سے انحراف، مہنگا ئی اورانصاف کے حصول نے ہر سو پریشانی اور بد سکونی کی فضاء قائم کر رکھی ہے۔ ہر انسان مسا ئل کے بھنور میںمبتلا ہو کر ہر دم سکون کی تلاش میںسر گرداں ہے۔ کبھی مہنگے ترین ڈاکٹروں کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور تو کبھی حکیموں کی جیبیں گرم کرنے میںمصروف دیکھائی دیتا ہے ۔اور کبھی نام نہاد عاملوں کے چکرمیںپڑ کر اپنا سب کچھ لٹادیتا ہے۔ محب وطن ہونے کے جذبات سے سرشار ہو کر بھی موقع ملنے پر اپنے ووٹ کی طاقت کا غلط استعمال کر کے خود ہی اپنے معاشی قتل عام کے اسباب پیدا کرتا ہے۔ مگر اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتا ۔اگرآپ کے دل میں جینے کی امنگ ہے اور پر مسرت اور سکون سے بھرپور زند گی گزارنے کے خواہاں ہیں نیز ربِ کائنات کی عطا کردہ عظیم نعمتوں سے مسفید و لطف اندوز ہوناچا ہتے ہیں ۔تو پھر اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہو گا اپنے خیالات، احساسات اورجذبات میں تبدیلی لانا ہو گی۔
نئے سال 2017 کا نئے عزم ، ولولے ، جذبے او ر عہد کے ساتھ استقبال کرنا ہو گا تاکہ زندگی خوشی سے بھری رہے اورماضی کی تلخیوں کو یکسر فراموش کر کے مستقبل کے حسین خوابوں کی پر کشش تعبیر کو سمیٹا جائے۔ اپنے اندر ایسی مثبت تبدیلی پیدا کرنا ہو گی جس سے آپ کی اپنی ، اپنے اہل و عیال اور دوست احباب کی زندگی کو انسانیت کی خوبصورت و دلکش خوشبو سے معطر کیا جا سکے۔ آئیے یہ تبدیلی ابھی اور اسی وقت لائیں ۔ تو پھرچھوڑدوتفکرات کو، انتشار کو، پژمردگی کو،اداسی کو،نکتہ چینی کو، نمائش پرستی کو، بناوٹ اورتصنع کو، فضول اور لاحاصل خواہشات کو،خودغرضی کو۔بھول جائو گزر ے ہوئے تلخ تجربات کواور ہر ایسی برائی کوجو تم کو بے دست و پا کر دیتی ہے ۔ہر ایسے واقعہ کوجو تم کو آگے بڑھنے سے روکے اور تمھاری خوشی میں سدراہ بنے۔اور پھر دیکھوکہ تم خود کو کس قدر ہلکااور کس قدر آزاد محسوس کرتے ہو اور گوہر مقصود کا حصول کس قدرآسان اور یقینی ہو جاتا ہے۔غم اس وقت تک غم ہے جب تک اسے محسوس کرنے کی کوشش کی جائے۔اگر تم کوئی افسوس ناک تجربہ کر چکے ہو تو اس کوبھول جائواگر تم پھسل کر خود کو زخمی کر چکے ہو اگر تم کبھی خلق کے مورد الزام رہ چکے ہو اگر تم قبیح تہمت لگائے جا چکے ہو تو ان کو بھول جائو۔ان واقعات کی یادمیں تمھارے لیے خوشی کا شائبہ تک نہیں اور ان کا جان سوز تصور اورپر عذاب وہم تم کو مسرت سے محروم کر دے گا۔ان کو فراموش کر دو۔
Happy New Year
اگر تم کبھی نا عاقبت اندیش رہ چکے ہو اگر تمھاری شہرت کو صدمہ پہنچ چکا ہے اور تمھیں خوف ہے کہ تم اس کو دوبارہ حاصل نہیں کر سکتے۔تو وہم و تصور کی دہشت ناک پرچھائیوں کو ساتھ لیے مت پھرو۔اس کو قوت حافظہ سے مٹا ڈالو۔دھوڈالو۔بھول جائو اورزندگی کے باب کوایک نئے صاف ستھرے صفحے سے ازسرنو شرو ع کردو۔اور اس صفحے کو آئندہ صاف رکھنے کی کوشش کرو۔اس بات کا تہیہ کر لو ۔کچھ بھی کرو یا نہ کرو گے۔مگر تصور اوروہم سے آزاد رہو گے۔ماضی کے بھیا نک اور تاریک سا ئے تمہاراتعاقب نہیں کریں گے۔اور تمھاری زندگی سے دور نکل جائیں گے او ر ان کی جگہ صاف و شفاف جگہ لے لے گی۔اس بات کا فیصلہ کر لو کہ انتشار اور پر اگندگی سے کوئی تعلق نہیں رکھو گے۔خواہ کس قدر ضروری ہی کیوں نہ ہو ۔تم ا س کو دل سے نکال ڈالو اور بھول جائو۔اپنے حریفوں یعنی افسوس رنج پشمانی اورغصے کو اس قدر طاقت نہ دو کہ تم کو تمھاری قوت عمل سے محر وم کر دے۔ کیوں کہ وہی تو تمھاری آئندہ زندگی کے لیے اندرو ختہ ہے۔
متفکر شہرہ مضحمل طبیعت افسردہ دل متذ بذب اور تلخ مزاج اس بات کا ثبوت ہے کہ تم میں اس قدر صلا حیت نہیں ہے کہ تم خود پر ضبط اور حکو مت کر سکو ۔یہ تمھاری بزدلی اور کمزوری کی نشانیاں ہیں۔یہ اس بات کاا عتراف ہے کہ نا مسا عد حالا ت کے مقابلے میں عاجزآ گئے ہو جو کچھ بھی نا پسند ہے ،درو انگیز ہے اور تمھارے سکون کو تباہ کرنے والا ہے۔اس کو بھول جائو دماغ سے باہر پھینک دو ۔وقت تھوڑا ہے اور کام زیادہ۔اس لیے اس وقت کو جو تم اس قسم کے ما یو س کن خیالا ت میں ضا ئع کرو گے کسی بہتر کام پر صرف کرو ۔اس بات کا انتظار مت کرو کہ خوشی تم تک آئے بلکہ تم خوشی کاتعا قب کرواور جب اس کو حاصل کر لوتو اس کو ایسی آہنی گرفت سے پکڑے رکھوکہ ایک لمحے کے لیے بھی تم سے جدا نہ ہو۔ہماری مثال اس بد سلیقہ عورت کی سی ہے جس میں اس قدر جرات نہیں کہ گھر کا کوڑا کرکٹ با ہر پھینک دے بلکہ ہر قسم کی غلاظت کوبے ترتیبی سے گھر کے کونوںکھدروں میں اکٹھا کرتی رہتی ہے۔ہم لوگوں میں چھوڑ دینے کی طا قت سلب ہو چکی ہے۔ہم اپنے اعصاب کو اس قدر تان کھینچ کر رکھتے ہیں کہ کسی چیز کا ترک کر دیناہمارے لیے نا ممکن بن جاتا ہے۔ہم ہمیشہ گذشتہ صد مات کو جو ہماری زندگی سے قطعی طور پر نکل گئے ہوتے ہیں ۔سوچتے رہتے ہیں یعنی ڈوبتے ہوئے تاروںکا ماتم کرتے رہتے ہیںاور اس طرح موجود الوقت مسرتوں اور آسائشوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔خوشی سے زندہ رہنے کی کوشش کرو۔سالِ نو 2017پر کیے ہوئے عہد پر عمل کرنے سے انشاء اللہ صحت و تندرستی ، خوشی و مسرت ، سُکھ و چین ، آرام و سکون ، راحت و سہولت ، اطمینان اور کامیابی و کامرانی آپ کے قدم چومے گی۔