سازش

Conspiracy

Conspiracy

تحریر : راؤ خلیل احمد
اگر کوئی آپ کو بتائے کہ فلاں نے آپ کو گالی دی ہے ! تو آپ کا ری ایکشن کیا ہوگا ؟ اگر آپ سنی ان سنی کر دیں اور بغیر ٹمپرامنٹ لوز کیے بات جاری رکھیں تو آپ بتانے والے کو پریشانی میں مبتلا کر سکتے ہیں اور سازش کے اس جال سے نکل جائیں گے جو شیطان آپ کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ ایسا کرنے سے آپ ایک سینس ایبل اور صوبر شخص کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں گے۔ کیونکہ آپ رحمان کے بندے ہیں شیطان کا حملہ ناکام ہو چکا ہے۔ اگر ہو سکے تو مطلوبہ شخص سے رابطہ کر لیں بات کچھ نھیں ہوگی ،زندگی سکون میں رہے گی۔

اگر آپ ڈنگروں میں شمار چاہتے ہو تو آپ بتانے والے کے سامنے کہنے والے کو خوب برا بھلا کہیں اس کی زات کے خوب بخیے ادھیڑیں ماں بھن ایک کر دیں اور خوب گالیاں دیں اور دھمکی آمیز بیان داغ دیں۔بتانے والے کا کام مکمل ہو چکا ہے اور آپ سازش کا شکار ہو چکے ہیں۔ اور اگر آپ کو بتانے ولا شام کو فون کر کے آپ کی خیریت دریافت کرے ، جس سے آپ ساری رات سو نا سکیں بلکہ ایک ایسے شخص کا برا سوچتے گزاریں جس نے واقعتا” آپ کو کچھ نہیں کہا اور صبح ہوتے ہی اسی خیر خواہ کا فون پھر آجائے اور اس کی طرف سے ہمدردی جتانے اور مکمل ساتھ کی یقین دہانی کے بعد ! آپ اپنے خون میں گرمی اور عنا میں تسکین پائیں اور عناد کا لیول کل کی نسبت 90ڈگری اپر ہو جائے تو سمجھ جائیں آپ سازشی کے جال میں مکمل طور پر جکڑے جا چکے ہیں۔

سازش بیٹی ہے شیطان کی ، بہن ہے شدت پسندی کی ، خالہ ہے تخریب کاری کی اور ماں ہے دہشت گردی کی۔ اور آج کل اس سارے کنبہ کا سر نام خارجیت ہے۔ خاندان اور بھی بڑا ہے اس کا زکر اگلی قسط میں۔
سازش کو سمجھ سکنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ۔ ٹرمپ 20 جنوری کو صدر بننے جا رہا ہے روس پہ الزام ہے پر امریکہ سمجھ نھیں سکا کیا ہوا ہے۔ خاص زہن ہوتے ہین جو ابلیسیت میں پی ایچ ڈی ہوتے ہیں اور کچھ مخصوص لوگ ہوتے ہیں جن پر اللہ کا کرم ہوتا ہے جو شیطان کی کارستانی سمجھ سکتے ہیں اور اللہ کے بندوں کو شیطان کی شطنیت سے بچاتے ہیں۔

Terrorism

Terrorism

امن پسند لوگوں کی زندگی کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کو تخریب کاری کہتے ہیں۔ ڈائرکٹ ایکشن شدت پسندی کے زمرے میں آتا ہے کسی کے استعال کو سازش کھتے ہیں ، تخریب کاری میں کامیابی دہشت گردی کھلاتی ہے۔ ہمارہ المیہ یہ رہا ہے جب دہشت گرد اپنا کام کر جاتے ہیں تو امن کے خواہاں حرکت میں آتے ہیں۔ آرمی پبلک سکول پے حملے کے بعد آرمی حرکت میں آئی اور ان مٹھی بھر دہشت گردوں کی بینڈ بجا دی جو 15 سے 20 ہزار تھے اور انہوں نے 70 ہزار سے زائد کی جانیں لیں۔ کام ابھی ختم نہیں ہوا اس کی وجہ ان دہشت گردوں سے نرم گوشہ رکھنے والا ایک مکتبہ فکر ہے جو ان کی نفی کرنے کی بجائے جواز تلاش کرتا نظر آتا ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ تمام انسان ایک جیسے نہیں پر مسلمان سب ایک جیسے ہی ہیں ۔ مگر اب امن پسند مسلم اور تخریب کاروں میں فرق واضع ہوتا جا رہا ہے۔

یورپ میں بھی حالات مختلف نہیں ہیں اس خاص مکتبہء فکر کے لوگ آج بھی امن پسندوں پر حملے کرتے نظر آتے ہیں ،13 نومبر 2015 کے پیرس حملے کے بعد یورپ نے جس یکجہتی کا ثبوت دیا اور فرانس کے صدر فرانسوا ہولند کا داعش کے خلاف اعلان جنگ اور عملی شرکت نے کسی حد تک یورپ میں امن کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا مگر خوف کے سائے ابھی منڈلا رہے ہیں اس کی مین وجہ دہشت گردوں سے محبت کا رشتہ رکھنے والوں کے خلاف کوئی موثر حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔

عالم میں امن کی بحالی کے لیے کام کرنے والوں میں منہاج القرآن اور اس کے قائد کا کردار روزروشن کی طرح عیاں ہے ۔ قائد منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی 90 سے زائد ممالک میں جاری عالمی امن اور بھائی چارے کی کاوشوں کو خارجیت کے پروردہ ثبوتاژ کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ اپنے کم علم زاتی مفاد کی خاطر عالمی امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کے لیے بن رہے ہیں اور کچھ اپنے کردار کو چھپانے کے لیے منھاج القرآن اور اس جیسی دوسری آرگنائزیشنز کے امن قافلوں اور ان کے والنٹیرز پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔ جس کا آغاز میڈیا میں سازش سے کیا جاتا ہے ،سوشل میڈیا کے آسان استعمال سے کچھ شاطر لوگ معصوم لوگوں کو ورغلا کر ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے امن پسندوں کے کام میں رخنا اندازی کر رہے ہیں۔یورپ میں امن کے دشمنوں کے خلاف اور فرانس میں خصوصا” قانون نافظ کرنے والوں کو ایسے عوامل کا خیال رکھنا ہوگا ورنہ !

“یہ شاطر خود بھی کسی بڑی سازش کا شکار ہو سکتے ہیں اور ان معصوم لوگوں کو سازش سے سلیپنگ سیلز کا کردار بھی اپنانے پر مائل کر سکتے ہیں” آج عالم میں امن کی ضرورت جتنی ہے شائد اس سے قبل نہیں تھی۔ دنیا میں امن کی بھالی کے لیے کام کرنے والوں کے کام اور زات کی حفاظت حکومت کی اولین ترجع ہونی چاہیے۔ اور ایک سل کا قیام بھی بہت ضروری ہے جو خارجیت کی برائیوں کو ابتداء میں ہی دفن کر سکے تاکہ ملک کو کسی بھی شازش سے بچایا جا سکے۔

Rao Khalil Ahmad

Rao Khalil Ahmad

تحریر : راؤ خلیل احمد