تحریر: سید انور محمود نواز شریف کا سعودی عرب کا بھرپور ساتھ دینے کے اعلان اور یمن سعودی تنازعے کے بڑھ جانے کے بعد جب سعودی عرب نے پاکستان سے اس جنگ میں شامل ہونے کو کہا تو پورے ملک میں ایک سوال اٹھا کہ کیا پاکستان کو اس لڑائی میں شامل ہونا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں ملک کے عوام کی بھاری اکثریت اور ملک کی ساری سیاسی جماعتوں نے بہت کھل کر اس بحران سے پاکستان کو دور رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔جبکہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان نے سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو خطرے کی صورت میں اس کے دفاع کا وعدہ کیا ہے تاہم وہ کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑئے ہوکرخواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’’میں یقین دلاتا ہوں کہ ہم نے اس جنگ میں حصہ لینے کا کوئی فیصلہ یا وعدہ نہیں کیا ہے۔ صرف سعودی عرب کے دفاع کا وعدہ کیا ہے۔ اگر ایسی کوئی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو سعودی عرب کا ضرور دفاع کریں گے اور یہ ہم نے انھیں بتا دیا ہے‘‘۔یمن سعودی تنازعے میں پاکستان کی اصولی غیر جانبداری اور پراکسی وار نہ لڑنے پر سعودی عرب، پاکستان سے سخت مایوس ہےاورسعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں دراڑ آچکی ہے۔
معلوم نہیں ہم کس زعم میں اپنے آپ کو خطے میں اہم کردار ادا کرنے والا ملک تسلیم کئے بیٹھے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بدقسمتی سے بیرونی دنیا میں پاکستان کی شناخت کوئی اچھی نہیں ہے۔ لوگ ہمیں دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے جانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیرون ممالک ائیر پورٹس سے لیکر عام پبلک مقامات تک لوگ ہمیں شکوک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کا بڑا سبب ہمارے عاقبت نا اندیش حکمرانوں اور خاصکرجنرل ضیاء الحق کی وہ تباہ کن پالیسیاں ہیں جو اس نے قومی مفادات کی بجائے اپنے غیر ملکی آقاوں کو خوش کرنے اور اپنے اقتدار کو طول دینےکے لیے اپنائیں، جس کے تحت پاکستان کو انتہا پسند گروہ بنانے کے لیےبہت سارئے ڈالر دیے گئے اور ہم نے ساری دنیا سے فسادیوں کو جہادیوں کے نام پراکٹھا کیا اور پھرانہیں ڈالر جہاد پر لگادیا اور ان سے لڑنے کے لئے بھیج دیا جو ہمارے دشمن نہیں تھے ۔ آج امریکہ، افغانستان، ایران، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، سب نے بھارت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیا ہے۔ خطے میں پاکستان کا واحد سٹرٹیجک پارٹنر چین ہے، جو پاکستان کی خاطر کبھی بھی انڈیا سے اپنے تعلقات نہیں بگاڑے گا۔ بھارت کا منطقی نشانہ ایشیا میں چین کے اثر رسوخ کا مقابلہ کرنے، نیوکلیئر سپلائرز گروپ این ایس جی کی رکنیت کے لئے عالمی حمایت حاصل کرنے اور ایران کی چاہ بہار کی بندرگاہ کے زریعے وسط ایشیائی ریاستوں تک راہداری کا حصول ہے۔ اور یہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاکستان کے طاقتور حلیف خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب پاکستان کے مفادات کا لحاظ رکھے بغیر بھارت سے تعلقات استوار کررہے ہیں۔
بھارتی تعصب، ہٹ دھرمی اور تخریبی سوچ نے سارک کے فورم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور 9 اور10 نومبرکواسلام آباد میں سارک کی سربراہ کانفرنس کو نہ ہونے دیا۔کانفرنس کے وقت کو گذرئے ایک ماہ ہوچکا ہے اورسارک چارٹر ڈے پر بھارتی وزارت خارجہ کےترجمان کا کہنا تھا کہ نومبر کا سارک اجلاس ملتوی کرنے والی صورتحال برقرار ہے، ایسی صورتحال میں سارک اجلاس نہیں ہوسکتا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان واضح بتا دے کہ سارک کانفرنس نہیں کرائے گا اور وہ سارک کی میزبانی کسی اور ملک کو دینے کے لیے تیار ہے، اسی صورت میں چیزیں آگے چل سکتی ہیں۔سارک کانفرنس ملتوی کراکر اور ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستانی مشیر خارجہ کی بے عزتی کرنے کے بھارت سارک کانفرنس کی میزبانی پر سوال کررہا ہے۔ کیا اس سوال کے زریعےبھارت پاکستان سے مذاکرات کرنا چاہ رہا ہے؟ پائیدار امن کے قیام کےلئے بھارت سے جامع مذاکرات صرف اس ہی صورت میں ممکن ہیں جب بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے تیار ہو۔ مسئلہ کشمیر کا حل بھارت سے تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بھارت کراچی اور بلوچستان میں مسلسل مداخلت کررہا ہے جبکہ بھارت کو امریکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے خطے میں طاقت کا توازن بھی بگڑرہا ہے۔
Kharja Policy
آٹھ اکتوبر 2005 میں پاکستان میں آنیوالے بدترین زلزلے کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کےلیے کیوبا کے 2558 ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر عملے نے مسلسل 8 ماہ تک کشمیر اور پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں مصیبت زدہ عوام کو طبی امداد فراہم کی تھیں۔ ویسے تو دنیا بھرکے رضاکار موجود تھے مگر کیوبا کے خواتین اور مردوں پر مشتمل ڈاکٹروں نے کیا کمال کر دکھایا، انہوں نے بچوں کی گندگی کواپنے ہاتھوں سے صاف کیا، منہ دھلائے، دوائیاں اور کھانے اپنے ہاتھ سے کھلائے، اورجب وہ اپنے ملک واپس جا رہے تھے تو جن کی انہوں نے خدمت کی تھی وہ رو رہے تھے اور کیوبا سے آئے ہوئے امدادی ٹیم کے تمام ارکان بھی رورہے تھے۔ مرحوم فیڈل کاسترو نے اسی زمانے میں ایک ہزار پاکستانی نوجوانوں کو ڈاکٹر بننے کیلئے اپنے ملک آنے اور پڑھنے کی دعوت دی تھی۔ اس منصوبے کے تحت کشمیر بلکہ پاکستان بھر سے ایک ہزار طلبا اور طالبات کو طب کی تعلیم کے لیے کیوبا بلایا گیا اور یہ طلبا اور طالبات دو مرحلوں میں کیوبا گئے تھے اور اپنی تعلیم مکمل کرکے واپس آچکے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ایک بدترین مثال یہ بھی ہے کہ ہرچند کاسترو کی وفات پر دنیا کے بہت سے ممالک نے اظہار افسوس کیا مگر شاید پاکستان کی خارجہ پالیسی نے حکمرانوں کو روکا اور ہماری وزارت خارجہ نے کیوبا کے عوام سےچند لفظوں کی بھی ہمدردی ظاہر نہیں کی، شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ نواز شریف کا کیوبا میں کاروبار کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔
دسمبر 2016 میں ہماری وزارت خارجہ کی ٹیم کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی یہ ہے کہ بھارت ہمیں کھلے عام مارنے کی دھمکیا ں دیتا ہے۔سعودی عرب کا جھکاؤ بھی بھارت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بنگلہ دیش ہم سے سفارتی تعلقات ختم کرنا چاہتا ہے ۔ امریکا پہلے ہی بھارت کی طرف پیار کے رشتے بڑھا رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اس خطے کا دورہ کرنے آتے ہیں تو افغانستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی سیر کرکے اور پاکستان کے خلاف زہر اگل کر چلے جاتے ہیں لیکن پاکستان جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا گیا اسے مکمل نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔افغانستان جس کے 30 لاکھ شہری گذشتہ 35 سال سے پاکستان میں رہ رہے ، اس کے شہری پاکستان کے بارڈر کے قریب پاکستانی پرچم کو نذر آتش کرتے ہیں اور افغان حکام پاکستانی حکام کوآنکھیں دکھا رہے ہیں اور پاکستان کو اپنے حصے میں بھی باڑ لگانے سے روکے ہوئے ہیں۔ ایران جس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا، وہ بھی آج بھارت کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے کررہا ہے، یعنی اس وقت پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے اور ہمارئےحکمران اپنی دولت بڑھانے میں مصروف ہیں۔
تیسری بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف خارجہ پالیسی کو ابھی تک وہ اہمیت نہیں دیتے جو دینی چاہئے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے ساڑھےتین سال گزر نے کے باوجود ابھی تک با قاعدہ کوئی وزیر خارجہ مقرر نہیں کیا۔ خارجہ امور کے بارے میں تاثر ہے کہ ان کی اپنی استعداد صرف اپنے ذاتی تعلقات تک محدود ہے۔ جس کا اندازہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات سے لگایا جا سکتا ہے۔ وہ خارجہ امور کو بھی اپنی ذاتی تشہیر کے لئےاستعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان کےلیے کل وقتی وزیر خارجہ کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، صرف خارجہ پالیسی بہتر ہونی چاہئے لیکن سرتاج عزیز نے یہ نہیں بتایا کہ ایک جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے وزیر خارجہ کی عدم موجودگی کا کیا سبب ہے اور ایک جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی کہاں بنتی ہے؟
بدقسمتی سے پاکستان کی موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی بھانجھ ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ساڑھے تین سالہ حکومت میں اب تک کوئی وزیرخارجہ پیدا ہی نہ ہوسکا،اورہم کبھی بھی خارجہ پالیسی کےمحاز پر بہتر کاکردگی نہ دکھاسکے۔ہمیں چاہیے کہ اپنے قومی مفادات کا سودا کیے بغیر اپنی خارجہ پالیسی کو حقیقت کی بنیاد پر وضع کریں، حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت مزید وقت ضایع کیئے بغیر ایک قابل وزیر خارجہ مقرر کرئے جو دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لےاور بین الاقوامی اور علاقائی حالات کے مطابق ملک کی خارجہ پالیسی بنائے۔